حکومت تبدیل ہونے جیسے معمولی معاملے میں جو کہ اب بغیر خون کا قطرہ بہائے طے ہو جاتا ھےہمارے خیرالقرون میں ۹۰ ھزار لوگوں کے مارے جانے اور قیامت تک امت کے تفریق کا شکار ہو جانے کے بعد لوگوں نے کبھی اس پرمعاملے وہ تحقیق نہیں کی جو کہ اس کا حق تھا بلکہ زبانوں پر تالے لگانے اور عقول پر جالے تاننے پر زور دیا گیا ـ اتنے لوگ تو مجموعی اسلامی جنگوں میں نہیں شھید ہوئے تھے ـ
نبئ کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہؓ میں اگر خلافت 30 سال سے بھی پہلے خونی ھو گئ تھی ، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ایک محدود علاقے پر ھی قائم ھوئی ، اس کی وجوھات پر نہایت باریک بینی سے غور کرنے کی ضرورت ھے !
انبیاء کرام حکومت بنانے یا چلانے کے لئے نہیں بلکہ فرد کے تزکیئے کے لئے تشریف لاتے ہیں ،اور سوائے تین انبیاء کے کسی کو حکومت ملی بھی نہیں ، مگر کامیاب سب ہوئے جیسے نوح علیہ السلام ،موسی و ھارون اور عیسی علیھم السلام ـ
بنی اسرائیل کے ایک نبی کو موسی علیہ السلام کے بعد ان کی امت نے کہا کہ کوئی بادشاہ بنائیں تا کہ ہم اس کی معیت میں ان لوگوں سے جنگ کریں جنہوں نے ہمیں ہمارے گھروں اور اھل و عیال سے نکال باہر کیا ، نبی نے کہا کہ بادشاہ یا حکومت بن گئ تو اس کے دفاع کے لئے لڑنا پڑے گا اور تم جنگ سے جان چھڑاتے پھرو گے ـ عقیدے کی دعوت میں یہ ہوتا ھے کہ آپ کو ایک بستی والے لبیک نہیں کہتے تو آپ اگلی بستی کی طرف کوچ کر جاتے ہیں اور اللہ کی طرف بلاتے ہیں ـ جبکہ جب ملک اور حکومت بناتے ہیں تو پھر اس کے اپنے پواڑے ہوتے ہیں ، دشمن اس ملک پر للچاتا اور قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ھے اور آپ کو لا محالہ لڑنا پڑتا ہے ـ
[أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (246) البقرہ
بنی اسرائیل کے اصرار پر نبی نے طالوت علیہ السلام کو بادشاہ نامزد کر دیا اور خود اللہ اللہ کرتے رہے، طالوت کی نامزدگی پر ہی نبی کے ساتھ تنازع پیدا ہو گیا ، یہ پہلا سائڈ ایفکیٹ تھا حکومت کا ـ انہوں نے کہا کہ یہ طالوت صاحب ہم پر کس استحقاق کے تحت بادشاہ بنائے گئے ہیں جبکہ ہم ان سے زیادہ حقدار ہیں اس بادشاہت کے اور اس کے پاس تو مال و دولت بھی نہیں ؟ کیا بالکل یہی تنازع حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے درمیان نہیں اٹھ کھڑا ہوا تھا جو آج تک رنگ دکھا رہا ہے اور ہر خلیفہ کے انتخاب کے بعد تلخی میں اضافہ ہی ہوتا رہا کہ بنو ھاشم کو اقتدار سے کیوں دور رکھا گیا ہے ؟ جب خلافتیں بنتی ہیں تو پھر ان کے مزے بھی چھکنے پڑتے ہیں ـ
بنی اسرائیل کے نبی نے قوم کو جواب دیا کہ اللہ پاک نے اس کو منتخب فرمایا ہے اور حکومت چلانے یا جنگ و جدال کے علم اور جسمانی طاقت کے ساتھ اسے تم پر فوقیت عطا فرمائی ہے ـ پھر اس کی قبولیت اور من جانب اللہ تعیناتی کے ثبوت کے طور پر بشارت دی کہ تابوتِ سکینہ تمہیں واپس مل جائے گا ، طالوت کی جالوت کے ساتھ لڑائی میں اچانک داود علیہ السلام کی انٹری نے ان کو طالوت کا خلیفہ بنا کر بادشاہ بنایا اور سلیمان علیہ السلام وارث بنے اپنے والد کے اور اس کے ساتھ ہی وہ بادشاہت ختم ہو گئ ، بس یہ دو نبی حادثاتی بادشاہ بنے انہوں نے بادشاہت کے لئے نہ کوئی پارٹی بنائی تھی ، نہ کوئی یلغار کی تھی، مگر اس بادشاہی کے دفاع کے لئے ان کو لشکر کشی کرنی پڑی ،
نبئ کریم ﷺ نے ۱۳ سال مکے میں دعوت دی، ہر قسم کے تشدد کا سامنا کیا مگر کوئی مزاحمت نہیں کی ، جن تین سو تیرہ نے بدر کے میدان میں مشرکین مکہ کا تیہ پانچا کیا وہ مکے میں موجود تھے ، رسول اللہ ﷺ کے ایک اشارے پر کم از کم سردارانِ قریش میں سے ابوجھل، عقبہ ، مغیرہ، ولید وغیرہ کو تو مار ہی سکتےتھے ، مگر رسول اللہ ﷺ نے ابن مسعود کے ایک جوابی تھپڑ کوبھی برداشت نہ فرمایا اور حکم دیا کہ تم اگر صبر نہیں کر سکتے تو اپنے قبیلے میں واپس چلے جاؤ،جب اللہ مجھے غلبہ عطا فرما دے تو میرے پاس واپس آ جانا ـ
لیکن جب آپ ﷺ مدینہ کی ریاست کے بےتاج بادشاہ بن گئے تو آپ ﷺ کو اس ریاست کے دفاع کے لئے ہر وہ طریقہ استعمال کرنا پڑا جو کسی بھی ریاست کے لئے کرنا پڑتا ہے ، آپ نے یہود و نصاری کے قبائل کے ساتھ معاہدے کیئے ، سات سال میں 84 جنگی مہمات میں حصہ لیا یا لشکر بھیجے ـ یعنی سال میں بارہ گویا ہر ماہ میں ایک سریہ یا غزوہ ـ آپ نے غزوہ احزاب کے مشکل وقت میں یہودی قبائل کو مدینے کے اندر سے حملہ کرنے سے روکنے کے لئے مدینہ کی زراعت کا نصف حصہ پیش کیا ، اور جاسوسی کروائی ، حضرت نعیم کو یہود اور مشرکین کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لئے جھوٹ بولنے کی اجازت دی ، محمد رسول اللہ ﷺ اپنے دستِ مبارک سے مٹا کر صرف محمد بن عبداللہ کے نام سے صلح حدیبیہ کا معائدہ کرنا پڑا ،، گویا ریاست اور اس کی ذمہ داریوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ، آپ نے زبانی معائدہ ہوتے ہی ابوجندل اور ابوبصیر کو مسلمان ہونے کے باوجود مشرکین مکہ کے حوالے کر دیا ، یہ ریاستی مجبوری تھی ، ریاست کی بقا اور مفاد کو اولیت حاصل تھی ، افراد کی قربانی دینی پڑی ، یہاں ملا عمر کو دیکھ لیجئے ریاست کا سربراہ بن کر بھی وہ ایک مسجد کے امام کی سطح سے اوپر اٹھ کر فیصلہ نہ کر سکا ، وہ اگر اسلامی حکومت اور افغان ریاست کا خیر خواہ ہوتا تو ابوبصیر کی طرح اسامہ کو بھی سونپ دیتا تو نہ لاکھوں افغان شھید ہوتے نہ اسلامی حکومت گرتی ، نہ اس کے بعد عراق و لیبیا کی باری آتی ،،اسی تناظر میں پاکستان اور کشمیر کا مسئلہ بھی دیکھ لیجئے ، جب زچہ و بچہ میں سے کسی ایک کو ہی بچایا جا سکے تو ہمیشہ اولیت ماں کی جان بچانے کو دی جاتی ہے ـ ماں زندہ رہی تو بچہ پھر بھی پیدا ھو سکتا ہے، جب کبھی خود پاکستان کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو جائے تو پاکستان ایک قدم پیچھے ہٹ جاتا ھے کہ زچہ کو بچایا جائے ، پاکستان ہو گا تو ان شاء اللہ کشمیر کی آزادی کا امکان بھی باقی رہے گا ـ
بات دوسری طرف نکل گئ ہے ،
مگر گزارش ہے کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو کوئی وصی چھوڑ کر گئے ، اس لئے کہ نبی کا وصی ہمیشہ نبی ہوتا آیا ہے یہی انبیاء کی سنت ہے ، رسول اللہ ﷺ کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں تھا لہذا آپ نے کسی کو بپتسمہ دے کر وصی یا نبی نہیں بنایا ، نہ ہی کوئی حکومتی محکمہ بنایا ، لوگ خود اقرار کر لیتے تو بھی رسول اللہ ﷺ پوری کوشش فرماتے کہ وہ خود اپنے اقرار سے پیچھے ہٹ جائے ، سزا دے کر آپ کو کبھی خوشی محسوس نہیں ہوئی ، آپ نے زنا کا اقرار کرنے والے کو ترغیب دی کہ وہ صرف بوس و کنار کا اقرار کر لے اور زنا کے اقرار سے بچ جائے ـ آپ نے بدکاری کا اعتراف کر لینے والی عورت کو بچہ پیدا ہونے تک مہلت دی ، بچہ پیدا ھونے کے بعد بچے کے دودھ چھوڑنے تک مہلت دی کہ وہ اپنے اقرار سے مکر جائے مگر وہ مصر رہی ،،
جس طرح ہر نیک یا بد انسان کے باڈی آرگنز ایک جیسے ہوتے ہیں،اسی طرح ہر ریاست کا میکنزم ایک جیسا ہوتا ھے ، وہ ستون ہوتے ہیں ، کمائی یا انکم کے ذرائع اور دفاعی نظام، ریاست بس ریاست ہوتی ھے ،اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی ـ ہم جب ریاست بنے تو ہم نے وہی سب کچھ کیا جو ہم سے پہلے والوں نے دنیا کے ساتھ کیئے ،فجاسو خلال الدیار ، ہم ہر گھر اور ہر گلی میں گھسے ، لونڈیاں اور غلام اکٹھے کیئے منڈیاں لگائیں ، ہمارے یہاں کوئی اسٹینٖڈنگ آرمیز نہیں تھیں جو ماہانہ تنخواہ پر پلتی ہوں ، عوام ہی مال غنیمت کے نام پر لشکروں میں نام لکھواتے اور لڑتے تھے ،
مکمل ضابطہ حیات
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک فرد کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے، مگر ایک ریاست کے لئے اسلام کچھ بھی نہیں دیتا ـ
قرآن مشورے کے ساتھ نظام چلانے کی بات کر کے رہ جاتا ھے ،مگر اس شوری کے افراد کی کوالیفکیشن پر کوئی بات نہیں کرتا، اس شوری کے اختیارات پر کوئی بات نہیں کرتا ، خلیفہ کی مدت اقتدار کا تعین نہیں کرتا ، شوری خلیفہ بنا تو سکتی ھے مگرکیا شکایت کی صورت میں خلیفہ کو ہٹا بھی سکتی ہے یا نہیں ، اسلام اس پر خاموش ہے ـ کوئی ایسا سپریم کورٹ نہیں ، جو خلیفہ کے خلاف کیس سن کر اس کو ڈس مس کر سکے ـ کوئی ایسا آرمی چیف نہیں جو دو پارٹیوں کے خونی تصادم کو روکنے کے لئے مداخلت کرے اور ریاست کو بچا لے ـ
اس وجہ سے ہمارے یہاں خلیفہ منتخب ہونے کے بعد یا تو مرے تو عہدہ خالی ہوتا ھے یا مار دیا جائے تو عہدہ خالی ہوتا ہے ، اس کو ریاستی عہدہ نہیں بلکہ دینی عہدہ سمجھ کر لاکھوں کو مروا دیا جاتا ھے مگر استعفی کی طرف کوئی نہیں جاتا کہ بھائی صاحب انسانی جان کا تقدس کعبے سے زیادہ ہے آپس میں ایک دوسرے کے سر مت اتارو ، میں ہٹ جاتا ھوں آپ کوئی نیا بندہ چن لو ،،،
ریاست اور حکومت دو الگ چیزیں ہیں آپ حکومت کی مخالفت کر سکتے ہیں، اس کو گرانے کی ہر چال چل سکتے ہیں ،مگر آپ ریاست کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ـ یہ غداری کے زمرے میں آتا ہے، یہ نیا تصور اگر ہمارے خیرالقرون میں پایا جاتا تو تمام صحابہؓ یزید کو برطرف کرنے کا ضرور سوچتے مگر یزید تو ایک دینی عہدے پر بیٹھا تھا جس کے اوپر خدا ہی تھا جو کوئی فیصلہ کرے نیچے والوں کو تو بس اطاعت کرنی تھی، الغرض کوئی ایسا میکنزم نہیں تھا جو مداخلت کر کے اس کشت و خون کو روکتا ـ یہ میکنزم ہمیں عمرانی ترقی سے ملا ہے، دنیا نے تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ ریاست اور حکومت کو الگ الگ ڈیل کرنا ہے ـ ہم ابھی تک ریاست کی بلی کو اسلام کے گلے میں لٹکائے بیٹھے ہیں ،کہ کبھی تو ایسا خلیفہ آئے گا جو جدھر مرضی ہو گی منہ اٹھا کر چل دے گا اور فتح کے جھنڈے گاڑتا چلا جائے گا ، جبکہ اب ممالک کی حدود طے ہو گئ ہیں ، انڈیا پورا پاکستان فتح کر لے تب بھی اس کو پاکستان چھوڑنا پڑے گا ، اور پاکستان پورے انڈیا پر سبز پرچم لہرا دے تب بھی اس کو ایک ایک انچ خالی کرنا پڑے گا ، صرف شھداء کی قبریں حصے میں آئیں گی اور چند نشانِ حیدر ـ
ہم پاکستان میں موعودہ خلافت قائم کرنے کے کچھ بھی طے کرنے کی پوزیشن میں ہیں ؟ مثلاً
1- مشورے کا طریقہ کار کیا ھو گا ؟
2- مشورہ دینے والوں کی اھلیت کیا ھو گی ؟
3- خلیفہ کی ٹرم کتنی ھو گی اور اس کو موت ھی ھٹائے گی یا کوئی اور طریقہ بھی ھے ؟
ابتدائی مشورہ سقیفہ بنو سعد میں ھوا ، جس میں بنو ھاشم سرے سے شامل نہیں تھے ،، بعد میں ووٹ آف کانفیڈنس مسجدِ نبوی میں لیا گیا ،،
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیدھا سیدھا حضرت عمرؓ کو نامزد کر دیا !
حضرت عمر فاروقؓ نے عشرہ مبشرہؓ میں سے باقی بچ جانے والے 6 اصحاب پر مشتمل کمیٹی بنا دی ، جس سے خلیفہ چنا جا سکتا تھا ،، جو اپنی امیدواری واپس لے لے وہ الیکشن کمشنر بن جائے گا ، یوں حضرت عبدالرحمان بن عوف نے امارت کی دوڑ سے باھر ھو کر چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات سنبھال لئے ، اور گھر گھر جا کر ،مسجد مدرسے اور حج عمرے کے اجتماعات میں لوگوں سے رائے لے کر ،، پھر دونوں امیدواروں سے انٹرویو کر کے عمامہ حضرت عثمان غنیؓ کو باندھ دیا !
حضرت عثمان غنیؓ کو ھٹانے کا اختیار سوائے ان کی ذات کے اور کسی کے پاس نہیں تھا ،، نہ کوئی ایسا ادارہ تھا جہاں خلیفہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے اور وہ عدالت اتنی آزاد اور طاقتور ھو کہ لوگ مطمئن ھوں کہ وہ خلیفہ کو ھٹا سکتی ھے ،، نہ ہی شوری کے نام کسی پاس ہیں ، نہ شوری خلیفہ تو عارضی طور پر ہٹا کر اس کے خلاف تحقیق کرنے کی مجاز تھی، یوں سوائے استعفے یا شہادت کے اور کوئی رستہ نہیں تھا ،حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت کا رستہ اختیار فرمایا ! اس کے بعد کا دور انارکی کا دور ھے ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے درویش صفت انسان نے عشرہ مبشرہ میں سے باقی دو بچ جانے والے اصحاب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو پیش کش کی کہ ان میں سے کوئی خلافت کا منصب سنبھالے تو وہ اس کی بیعت کر لیں گے اور مسلمان انارکی سے بچ جائیں گے ،مگر ان دونوں نے انکار کر دیا ، اصولاً اب ان دونوں کو حضرت علیؓ کی بیعت کر لینا چاھئے تھی کیونکہ یہی تین تو اس کمیٹی میں سے بچتے تھے جس کو حضرت عمرؓ فاروق بنا کر گئے تھے ،، بس وھی رات تھی جو فیصلہ کن تھی جس کا کفارہ 86000 مسلمانوں کے خون کو ادا کرنا پڑا اور امت قیامت تک تقسیم ھو کر رہ گئ ،، وہ دونوں راتوں رات فرار ھو کر مکے چلے گئے ، اور مکے والوں کے ساتھ مل کر بصرہ چلے گئے ،، اور پھر چل سو چل !
اب بھی اگر ان سوالوں کو پہلے طے نہ کیا گیا تو وھاں 30 سال تو چلی تھی یہاں خلافت 3 سال بھی نہیں چل سکتی !
ھم نے تنظیم اسلامی میں تحریک خلافت کے بارے میں بڑے دروس اور مواعظ سنے ،مگر جب فیصلے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹے کو اپنا خلیفہ بنا کر رخصت ھو گئے ،، بقول ڈاکٹر صاحب ھو سکتا ھے کہ قرآن اکیڈیمی کے باھر بیٹھا چوکیدار مجھ سے زیادہ نیک اور رب کے قریب ھو مگر وہ تنظیم نہیں چلا سکتا ،،جب تنظیم کی خلافت جو ٹوٹل 1000 بارہ سو افراد پر مشتمل ھے ، اس کا بار اٹھانے کے لئے ،نیکی اور تقوی کوئی معیار نہیں بلکہ تنظیمی صلاحیت معیار ھے تو 20 کروڑ پر بھی تقوی نہیں "Ability اور "Competency معیار ھو گی ، ،،
دوسری جانب جماعت اسلامی میں شوری اتنی طاقتور ھے کہ وھاں امیر ایک ڈمی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا نہ اس کی کوئی مرضی ھے ، وہ اچھی اچھی تقریریں کر سکتا ھے مگر وہ وھی فیصلہ نافذ کرنے کا پابند ھے جو شوری دے گی ، اس کے پاس کوئی ویٹو پاور نہیں ،، یہ دوسری انتہا ھے ،، شوری میں 90٪ جمعیت والے ھیں ، علمی پسِ منظر کے لوگ بہت قلیل ھیں یوں جماعت اسلامی پر اسلامی سے زیادہ سیاسی ” Flavor ” غالب ھے !
طے کیجئے !
1- کیا خلیفہ علماء چنیں گے اور انہی کو اور ان کے دینی مدارس کو خلیفہ چننے کا حق حاصل ھو گا ؟
2- اگر تقوے کی بجائے اھلیت معیار ھے تو کیا دیگر ماھرین بھی ایک لائق فائق نظام معیشت سے واقف خلیفہ چننے کے عمل کا حصہ ھونگے یا نہیں ؟
3- کیا باقی سارے پاکستانی مسلمان رضاکارانہ طور پر اپنا خلیفہ چننے کا یہ حق چھوڑ دیں گے ،یا انہیں کسی قانون یا تلوار کے ذریعے مجبور کیا جائے گا ؟
4- قرآن نے ” و امرھم شوری بینھم ” میں سارے مسلمان شامل کیئے ھیں ،، مسلمانوں کی ایلیٹ کلاس ” علماء ” کس دلیل کی بنیاد پر باقی مسلمانوں کو محروم کریں گے ؟
5- اگر بات تمام مسلمانوں تک چلی گئ تو اکثریت فاجر فاسق لوگون کی ھے تو مرضی تو پھر انہیں کی چلے گی ،، یوں امت پھر Square One پہ جا کھڑی ھو گی ،،
6- خلیفہ کو ھٹانے کا کیا طریقہ کار ھو گا ، اس کا ریفرنس کیا ھو گا ؟ جمہوریت کی طرح مدت مقرر کی جائے گی ؟ اس کی کوئی مثال ھماری خلافتِ راشدہ میں نہیں ھے ، کوئی عدلیہ اس کو ھٹائے گی ؟ یا وہ استعفی دے گا ،، ان تینوں باتوں کا کوئی ثبوت خلافتِ راشدہ میں نہیں ھے !
خلیفہ خود خلافت کا امیداوار ھو گا ؟ یا کوئی پینل یہ فصلہ کرے گا ، یا ھر جماعت اپنا خلیفہ پیش کرے گی ؟؟؟
بات بات پر دوسرے فرقے کو کافر قرار دینے والے ایک خلیفہ پہ کیسے راضی ھونگے ، جیسا کہ بریلوی فرقہ اکثریتی فرقہ ھے ، شیعہ کا ووٹ بھی بریلوی کو ملے گا ،، تو کیا دیوبندی سلفی ایک بریلوی خلیفہ کی خلافت کو تسلیم کر لیں گے جو ان کے پیچھے نماز پڑھنا تو دور کی بات انہیں مسلمان بھی نہیں مانتے ؟ اگر دیوبندی سلفی مل کر ایک خلیفہ چننے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ دیوبندیوں کے ساتھ بھی سلفیوں کا وھی رویہ ھے جو بریلویوں کے ساتھ ھے ؟
تو پھر یہ سارے مسائل ملک کو کومے کی حالت میں رکھ کر طے نہیں کیئے جا سکتے بلکہ انہیں پہلے بیٹھ کر طے کر لیجئے ،، پھر خلافت کی بات کیجئے ،،
ورنہ بندوق کے زور پہ خلافت زیادہ پائیدار ثابت نہیں ھو گی ـ