والدین اور اولاد کا مخمصہ !
یہ ایک خط نہیں ، یہ ھر دوسرے گھر کی کہانی ھے ، اور ھر گھر کے دوسرے بچے کی کہانی ھے، میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ کھلا پلا کر ضائع کرنا اور اپنی اولاد کو اذیت ناک رویوں کے سبب ذھنی مریض بنانا کوئی والدین سے سیکھے ! یہ پولٹری فارم کا کام شروع کرنے سے پہلے ،مرغی کے بچے پالنے کا کورس کرتے ھیں ،مگر اپنی اولاد کو پالنے کے لئے انہیں کسی کورس کی ضرورت نہیں ،، باقی بات یہ خط آپ کو سمجھا دے گا !
میں 22 سال کا ہو چکا ہوں الحمداللہ۔۔ اکلوتا ہوں ماں باپ کا۔ماں حافظہ قرآن ہیں والد صاحب آرمی سے ریٹائرڈ ہیں۔ طیعت میں سختی اور انا حد درجہ ۔ماں کی خواہش تھی مجھے اعلٰی تعلیم دلوانے کی۔ انٹر میڈیٹ تک گورنمنںٹ کے اداروں میں پڑھا۔ مگر معاشی حالات نے مزید تعلیم کی اجازت نہیں دی۔ سو یونیورسٹی میں داخلہ لیا کمپیوٹر سائنشز آنررز میں اور ساتھ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا رہا تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے۔ درآں حالیکہ والد صاحب گھر چلاتے رہے اور میں پڑھتا رہا۔
یونیورسٹی کے چار سال میری زندگی کے اذیت ناک سال تھے۔ معاشی تنگی، تفریح خود پہ حرام کی ہوئی، نا کہیں آنا نہ جانا، نہ لباس کی فکر ، نہ خوراک کی۔ کیمپس میں اشرافیہ کے بچے پڑھنے آتے تھےساتھ، سٹیٹس میں فرق تھا لہٰذا کوئی دوست نا بنا سکا۔ پڑھائی میں اچھا تھا۔ اس لئے نیک نامی تھی کیمپس میں جو بعد میں بد مزاج اور غیر سماجی ہونے کا طعنہ بن گئی، شدید احساس کمتری۔ اس پر طرہ یہ ک والد صاحب کی انا اور خودداری ہر معاملے میں، چھوٹی باتوں پہ ڈانٹ ڈپٹ،طنز، گھر سے نکالنے کی دھمکیاں، متعدد بار تلخ کلامی (جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا)،
اس ماحول میں چھوٹی بہنوں پہ ذہنی دبائو۔ اور ہر معاملے کی تان والدہ پہ توڑنا، گھر کا ماحول اذیت ناک کر دینے کے لئے کافی تھا۔ میں اب اس حد تک چڑچڑا ہو چکا ہوں کہ جیسے سب جزبات مر گئے ہوں اور کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو۔ ڈگری تقریباََ پوری ہو چکی ہے ۔ مگر اس قدر ذہنی دباو کا شکار ہوں پچھلےایک سال سے اپنا فائنل ائیر پروجیکٹ مکمل نہیں کر سکا۔
دنیا کے سامنے ایک منافقانہ رویہ ہے میرا۔ خود کو خوش مزاج ظاہر کرتا ہوں مگر اندر سے بہت تلخ مزاج ہوں۔
میرا سوال آپ سے صرف اتنا ہے کہ ایک طویل عرصہ میں اپنے نفس کو قابو میں کر کے خوفِ خدا اور صاف نیت کے ساتھ پڑھائی مکمل کرتا رہا ہوں تو کیا مجھے اس کا صلہ ملے گا یا نہیں۔ کیونکہ والد صاحب نے کئی دفعہ کہا ہے کہ میں نافرمان ہوں انکا اور سڑک پہ جوتیاں چٹخایا کروں گا۔ ایسے میں ، میں اندر سے بالکل ٹوٹ جاتا ہوں۔ کہ میرا جرم کیا تھا، ، اپنے لئے معاشرے میں کوئی ہمدرد نا بنا سکا تو کیا میری آنے والی زندگی مزید اذیت ناک ہوگی؟
نماز پڑھتا ہوں اور دین سے لگاو رکھتا ہوں۔ پتہ نہیں والد صاحب کیا دیکھنا چاہتے ہیں مجھ سے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ باتیں بہت سی کہہ گیا مگر باتیں بہت سی باقی ہیں ابھی۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
الجواب ــ
یہ بالکل درست ہے کہ والدین بعض دفعہ بہت نا انصافی کر جاتے ھیں – اپنی اولاد کو سوء ظن میں وہ وہ الزام دیتے ھیں، اس کی شخصیت پہ وار کرتے ھیں،، اپنی زبان سے سانپ کی طرح ڈستے ھیں – الفاظ کی صورت میں نیزے کی انی استعمال کرتے ھیں ،، مائیں بیٹیوں کو عاشقوں کے طعنے دیتی ھے ،جن کا کوئی وجود نہیں ھوتا ، باپ بیٹے پہ وہ الزام لگاتا ھے کہ عرش کانپ اٹھے ! اولاد کے اندر احساس کمتری سب سے پہلے گھر والے بھرتے ھیں بلکہ کوٹ کوٹ کر بھرتے ھیں، انٹرویو دینے جاؤ تو پہلے گھر سے ھی کہہ کر بھیجا جاتا ھے کہ ” یہ منہ اور مسور کی دال ” واپس آؤ تو سب سے پہلا طعنہ ھی گھر سے ملتا ھے ،، باپ بیوی پر اپنی مردانگی جتانے کے لئے بیٹے کی ناکامیوں کو گنواتا ھے کہ دیکھ میں نے پہلی دفعہ ٹرائی میں جاب لے لی تھی اور اپنے سورما کو دیکھ جو سمجھتا ھے کہ یہ مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ ھے ،، کس طرح دھکے کھا رھا ھے وغیرہ وغیرہ !
بعض دفعہ ان ناکامیوں پر اولاد کی ھمت بندھانے کی بجائے ماں باپ ان ناکامیوں کو اپنی نافرمانی کی سزا کہہ کر زخم پر نمک چھڑکتے ھیں ،،
مگر سب سے بڑی زیادتی یہ ھے کہ پھر احساسِ جرم بھی نہیں رکھتے ،، بات واضح ھو جانے کے بعد میں یہ اقرار نہیں کرتے کہ ان سے زیادتی ھو گئ ھے – بلکہ زیادتی کو فرض سمجھ کر ادا کیا جاتا ھے ،، صرف اس لئے کہ وہ اس کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنے ھیں ،،بہت سارے تو یہ قرض خودکشی کی صورت جھٹ پٹ چکا دیتے ھیں اور بعض ساری زندگی سسکتے رھتے ھیں ،، ھم اولاد کو دنیا میں لائے ھیں اور ان کو پالنا اور تعلیم دینا ھمارا فرض منصبی ھے ، یہ فرض ادا کرنے والوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئ ھے ،، یہ کوئی اولاد پر احسان نہین ھے کہ صبح ، دوپہر ، شام کھانا سامنے رکھ کر کتے کے ٹھیکرے میں پانی پلایا جائے !
اولاد کو توڑ پھوڑ کر اس کی ھستی کو ملیا میٹ کر کے ، اس کی خودی کو تحت الثری میں پہنچا کر ،،،،،،،،، اس سے والدین کی محبت کا تقاضہ کرنا بھی ٹانگیں توڑ کر دوڑنے کا مطالبہ کرنے جیسا ھے ، بابا جی وہ آپ کا احترام کرے ، پلٹ کا جواب نہ دے ،یہ بھی اس کی مہربانی ھے ،،
اس تمام تر humiliation کے بعد جب اس کی بیوی آتی ھے ، جو اسے جی جی کر کے بلاتی ھے ، جس کو مان دوسری بار دال نہین دیتی تھی وہ اس کے آگے چن چن کر کھانا رکھتی ھے ،، اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھتی ھے تو وہ مردہ زندہ ھو جاتا ھے ، اپنے مسیحا کا دیوانہ ھو جاتا ھے ،، اسے اپنی اھمیت کا احساس ھوتا ھے ،، اب سب کو فکر لگ جاتی ھے کہ بہو نے تعویز کرا دیا ھے ،، سب سے بڑا تعویز محبت ھے جس کا کوئی توڑ نہیں اور سب سے کالا جادو نفرت انگیز لفظوں کی وہ مار ھے جس سے کسی کو مارا جاتا رھا ھے ،، یاد رکھیں اولاد کے حال کے رویئے ماضی کا قرض ھوتے ھیں جو منافع سمیت چکائے جا رھے ھوتے ھیں !