قرآن میں بھی دو رسولوں کے فرعون کو کامل مکمل دعوت پیش کر دینے کے موقعے پر بیان کیا گیا ھے ،،
اور نبئ کریم ﷺ نے بھی جب قیصر عظیم الروم کو دعوت پیش کی ھے تو اس جملے کو اسی سینس میں استعمال فرمایا ھے ،،،،،،،
اب سوال یہ ھے کہ اگر آپ اس کو بطور سلام کہہ رھے ھیں کہ ” سلامتی ھو اس پر جو حق کو قبول کر لے یا ھدایت کو قبول کر لے ” اور جس کو آپ کہہ رھے ھیں یا یہ سلام دے رھے ھیں وہ مصر یا شام یا لبنان یا فلسطین کا عیسائی ھے عربی اس کی مادری زبان ھے تو پھر روزانہ صبح مناظرے ھوا کریں ،، کہ جناب پہلے آپ اپنا الھدی تو پیش فرمایئے پھر ھم اپنا الھدی پیش کریں گے ، اگر آپ کا الھدی ثابت ھو گیا تو پھر سلامتی کا فیصلہ کریں گے ،،
آپ کو پیغمبروں کی طرح پہلے حق پیش کرنا ھو گا پھر یہ جملہ کہنا معقولیت کے دائرے میں آتا ھے ،، سلام سے جان چھڑا کر الٹی مصیبت آپ نے اپنے گلے میں ڈال لی ھے کیونکہ ” والسلام علی من اتبع الھدی ” کہنے والے 99٪ اپنے اسلام کو دلیل سے ثابت نہیں کر سکتے ،،
جبکہ اس سلسلے کی فیصلہ کن آیت وہ ھے جس میں موضوع ھی اسی سلام کو بنایا گیا ھے ،، مگر جب قرآن کسی کے نزدیک کوئی اھمیت ھی نہ رکھتا ھو ،، صرف ثواب کمانے کی مشین بن کر رہ گیا ھو تو پھر وھی رویہ سامنے آتا ھے جو کمنٹس میں آ رھا ھے کہ ،،فلاں حدیث میں یوں آیا ھے اور فلاں میں یوں آیا ھے ،،،،،،، قرآن کی حفاظت تو خواہ مخواہ کی گئ ھے نعوذ باللہ ثمہ نعوذ باللہ ،، ورنہ ھمارے دوستوں کو یہ سپر مارکیٹ کفایت کرتی تھی جس میں سے ھر مذھب اور فرقہ آسانی سے درآمد کیا جا سکتا ھے ،،
وَقالَ الرَّسولُ يا رَبِّ إِنَّ قَومِي اتَّخَذوا هٰذَا القُرآنَ مَهجورًا﴿ الفرقان ۳۰﴾