پاکستان زندہ باد ،،
الفاظ کی جادو نگری !
اسلام زندہ باد ———— پاکستان پائندہ باد
تالاب جب سوکھتے ھیں تو چھوٹے چھوٹے جوھڑوں میں تبدیل ھو جاتے ھیں،، تعداد زیادہ ھو جاتی ھے ایک تالاب کے دس جوھڑ بن جاتے ھیں مگر سڑاند بڑھ جاتی ھے اور پانی کی گہرائی بھی کم ھو جاتی ھے – یہی حال قوموں اور امتوں کا بھی ھوتا ھے ،، جوں جوں وہ دین کی تعلیم سے دور ھوتی ھیں تو چھوٹے چھوٹے معاملات میں بحث و مباحثے اور فتوی بازی سے اپنے دین کا اظہار کرتے ھیں بظاھر ھر بندہ دین دار بھی لگتا ھے اور دین کا بہی خواہ بھی مگر حقیقت یہ ھے کہ ان میں دین کا کچھ بھی نہیں ھوتا !
بنی اسرائیل کے زوال اور اس کی نفسیات کو دیکھا جائے تو اپنے آپ کو پہچاننا آسان ھوتا ھے – لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھتے اور ان کا حل پوچھتے ھیں تو علماء بھی اپنی سیٹنگز میں تبدیلی کر کے اسی لیول پہ آ کر مناظرے کرتے اور فتح و شکست کے فیصلے کرتے ھیں !
لوگوں کو والدین کی تابعداری صرف بیوی کو طلاق دینے میں نظر آئے گی ،گویا باقی سارے معاملات میں وہ جنت کے دروازوں پہ کھڑے ھیں صرف بیوی ان کو داخل ھونے سے روکے کھڑی ھے !
میں نے والد صاحب کے بارے میں لکھا کہ ” آج ھوں میں جوکچھ بھی ، یہ آپ کی عنایت ھے ” ایک صاحب نے کمنٹ کیا کہ یہ شرک ھے ،، حالانکہ ان کو عنایت کا مطلب بھی پتہ نہیں تھا ، عنایت کہتے ھیں "کیئر” کو آئی سی یو کے باھر لکھا ھوتا ھے "عنایۃ القصوی ”
خود انہوں نے لکھا تھا کہ مہربانی لکھنا چاھئے مگر وھاں ان کو شرک نظر نہیں آیا کہ قرآن کی ابتدا ھی اللہ کے نام سے ھوتی ھے جو ” بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ھے ” گویا مہربانی بھی اللہ اور بندوں کے لئے مشترک لفظ ھے ،، ھر بندہ دوسرے کو ،،آپکی مہربانی ھو گی ” کہتا ھے – پھر رحم بھی مشترکہ لفظ ھے اللہ بھی رحم کرتا ھے اور بندہ بھی رحم کرتا ھے ،،من لا یرحم لا یُرحم ” جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم کیا بھی نہیں جائے گا ‘ پھر لفظ کرم بھی مشترکہ ھے ! الفاظ میں ھمیشہ اگلے کی نیت دیکھی جاتی ھے کہ وہ کس نیت سے کہہ رھا ھے ،،قرآن خود لوگوں کے لئے مولا کا لفظ استعمال کرتا ھے اور اللہ کے لئے بھی مولا کا لفظ استعمال کرتا ھے ،،بندے علماء کو بندوں والا مولی کہتے ھیں ،خدا نہیں کہتے ،،اللہ پاک نے سورۃ الاحزاب میں خود فرمایا ھے ،اگر تمہیں ان کے باپوں کے نام پتہ نہیں تو ” فاخوانکم فی الدینِ و ‘موالیکم ” تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور مولا ھیں،، موالی مولیٰ کی جمع ھے !
سورہ یوسف میں بار بار انسانوں کے لئے رب کا لفظ استعمال کیا گیا ھے ،اللہ کی طرف سے بھی اور یوسف علیہ السلام کی طرف سے بھی ،،مگر نہ اللہ مشرک ھے اور نہ یوسف علیہ السلام مشرک ھیں،، یوسف فرماتے ھیں اُذکرنی عند ربک ” اپنے رب کے سامنے میرا ذکر کرنا ،، حالانکہ اس سے پہلے کی آیات میں وہ اس کو توحید پر پورا مدلل لیکچر دے چکے تھے ،، پھر اسی آیت میں اللہ فرماتے ھیں ،، فأنساہ الشیطان ذکر ربہ : شیطان نے اسے رب کے سامنے یوسف کا ذکر کرنا بھلا دیا ،،! پھر جب رسول آتا ھے تو یوسف اس کو دوبارہ کہتے ھیں ” ارجع الی ربک” اپنے رب کے پاس لوٹ جا ،، یہ تنگ نظری جہالت کی آئینہ دار ھے نہ کہ دین کی عکاسی کرتی ھے !
قوم اور قومیت پر اعتراض !!
کچھ لوگوں کو مسلمانوں کی مساجد اور مدارس نمازیوں سمیت اڑانا تو اھل فردوس کا کام نظر آتا ھے ، مسلمانوں کو بسم اللہ ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرنا اور ان کے سر اتار کر فٹ بال کھیلنا تو عین دین نظر آتا ھے ،،مگر لوگوں کا اپنے آپ کو پاکستانی کہنا شرک نظر آتا ھے ،، یہ ان لوگوں کی مانند ھیں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کو ذبح کر کے سر اتار کر احرام کی حالت میں جوں کے مر جانے کا کفارہ پوچھنے اسی امام حسینؓ کے بیٹے کے پاس آئے تھے !
نبی اور امتی سارے اس زمین کی پیداوار ھیں ، وہ جہاں پیدا ھوتے ھیں وھیں سے منسوب ھوتے ھیں ،، اگر مکے میں پیدا ھونے والے کا مکی ھونا جرم نہیں تو پاکستان میں پیدا ھونے والے کا پاکستانی ھونا اور کہلانا کوئی جرم نہیں ،یہ ایک سچ ھے ! یہ اللہ کا انتخاب ھے کہ کس کو کہاں پیدا کرنا ھے اور اللہ پاک نے سورہ الحجرات میں واضح طور پر لوگوں کو قوموں اور قبیلوں میں پیدا کرنا اپنی طرف منسوب فرمایا ھے ،یا ایہا الناس انا خلقناکم مین ذکرٍ و انثی و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ! اے لوگو،،،، ھم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹا ھے تا کہ تم( ” قوم اور قبیلے کی نسبت سے ) پہچانے جاؤ !
جو لوگ علاقے یا ملک کے تعلق سے اکٹھے ھوتے ھیں وہ شعب کہلاتے ھیں،،شعب باکستانی ،شعب ھندی ، شعب مصری ، شعب لبنانی ،، یہ علاقی تعلق ھے جسے قرآن شعب کہتا ھے اور ھم اردو میں اسے قوم کہتے ھیں ،پاکستانی قوم یعنی شعب باکستان ،، کسی مسلمان کا پاکستانی ھونا کوئی عیب اور گناہ نہیں اور کسی کافر کا مکی ھونا یا مدنی ھونا کوئی خوبی اور تقدس نہیں ،، ابوجھل و ابولھب ،، عتبہ و ربیعہ ،، یہ سارے مکی تھے ،، قریشی تھے اور ابولھب ھاشمی بھی تھا ،، عبداللہ ابن ابئ پکا ٹھکا مدنی تھا ،،
ان قارون کان من قوم موسی (القصص ) ،، قارون موسی کی قوم سے تھا ،، اب اللہ کا ایک کافر کو موسی کی قوم سے کہنا کیا معنی رکھتا ھے ، ظاھر ھے یہاں قوم سے مراد مسلم قومیت نہیں بلکہ جینیٹیکل قوم مراد ھے ! اور سچی بات ھے !
اگر سلمان فارسیؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کے ساتھ گھٹنہ جوڑ کر بیٹے ھیں اور پھر بھی فارسی رہ جاتے ھیں ،، اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ران پر ھاتھ مار کر فرماتے ھیں کہ اگر ایمان اوجِ ثریا پر بھی ھوتا تو سلمان اور اس کی قوم کے لوگ اسے پا لیتے ! اگر سلمان فارسی گنہگار نہیں – صہیب رومی گنہگار نہیں تو قاری حنیف پاکستانی ھو کر ھر گز گنہگار نہیں ،، اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم،رسول ھو کر علاقے سے منسوب ھیں تو امتی کا امتی ھوتے ھوئے کسی علاقے سے منسوب ھونا ھر گز جرم نہیں !
عجیب بات ھے پاکستانیت کو شرک قرار دینے والا اپنے نام کے ” خراسانی ” لگاتے ھوئے ذرا نہیں شرماتا کہ یہ بھی علاقائی نسبت ھے ! مجھے الحمد للہ جتنا اپنے مسلمان ھونے پہ فخر ھے اتنا ھی اپنے پاکستانی ھونے پر بھی فخر ھے ، میرا دین اور میری جائے پیدائش دونوں اللہ کا انتخاب ھیں ! پھر مدینے کی ریاست کے بعد کلمے کی بنیاد پر بننے والا یہ دوسرا ملک ھے ، اس کا آئین میثاقِ مدینہ کی کاپی ھے ، جسے شک ھے وہ میثاق مدینہ دیکھ لے جس میں یہود سمیت تمام یثرب والوں کو ایک الگ قوم قرار دیا گیا اگرچہ ان کے دین الگ تھے !
پھر سعودیہ سمیت کہ جہاں مکہ و مدینہ اور بیت اللہ اور مسجدِ نبوی ھے ،،اور جس ملک کا نام ایک شخص سعود کے نام پر رکھا گیا ھے ، دنیا کے کسی ملک کے آئین میں یہ جملہ نہیں ملے گا ” اس ملک میں کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکے گا ” یہ اس ملک کا لا الہ الا اللہ پڑھنا ھے ” اب اگر اس میں کوئی کمی ھے تو وہ ویسی ھی ھے جیسے کلمہ پڑھنے کے بعد ھم مسلمانوں میں پائی جاتی ھے ! مگر یاد رکھیں بیت اللہ 360 بت رکھ کر بھی بیت اللہ ھی تھا اور اللہ نے اس کی حفاظت ھاتھی والے سے کی تھی ! آج برے لوگ ھیں تو کل اچھے بھی آ سکتے ھیں میرا وطن امکانات کی سر زمین ھے !
اسلام زندہ باد —————– پاکستان پائندہ باد
قاری حنیف ڈار