ھمارے ساتھ ششی نام کا ایک لڑکا کام کرتا تھا ،، رمضان کا مہینہ تھا اور لگتا تھا کہ زمین تانبا بنی ھوئی ھے ، یہ 1984 کی بات ھے ،، ششی کا پیاس سے برا حال تھا ،ھونٹ سوکھے ھوئے تھے میں نے اسے کہا کہ ششی یار ھمارا تو روزہ ھے ،مگر تمہارے حال سے تو لگتا ھے تمہارا بھی روزہ ھے ،،، اس نے دائیں بائیں دیکھا اور کہا کہ جس دن سے رمضان شروع ھوا ھے میں کام پہ پانی بھی نہیں پیتا بس گھر جا کر کھانا کھاتا ھوں ، میں نہیں چاھتا کہ میں سب کے سامنے کھا کر رمضان کی بے حرمتی کروں ، ھو سکتا ھے کوئی کمزور ایمان والا مسلمان یہ سوچے کہ یہ کتنا خوش نصیب ھے جو کھا پی رھا ھے اور ھم پر پابندی ھے ، اس طرح اس کا ایمان خراب ھو جائے گا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تصویر کا دوسرا رُخ ،،،،،،،،،،
ھمارے ساتھ بس میں دو مسلمان بھی بیٹھا کرتے تھے جو سب کے سامنے خبز کا پیکٹ اور اچار کا ڈبہ یا سالن ساتھ لے کر چڑھتے تھے ،، جب ساڑھے دس بجے ریسٹ ھوتی تو ایک دوسرے کو کہتا ” اوئے نذیر اذان دے یار روزہ کھولئے ” نذیر ساڑھے دس بجے اذان دیتا پھر دونوں ھنسی سے لوٹ پوٹ ھوتے اور سب کے سامنے کھانا کھاتے ، اس تماشے کو ھندو ،مصر کے عیسائی اور مسلم سب ھی روزانہ دیکھتے ،، نذیر فوت ھو گیا ھے اور دوسرا ساتھی آج کل لندن میں ھے ،،
کچھ لوگ صرف اس لئے مسلمان ھوتے ھیں کہ وہ مسلم کے بچے ھوتے ھیں اور جس طرح بکری کے بچے کا بکری ھونے میں کوئی ذاتی عمل دخل یا کمال نہیں ھوتا ، اسی طرح ان مسلمانوں کے مسلمان ھونے میں بھی ان کا اپنا کوئی قصور نہیں ھوتا ،