پشاور کا زلزلہ


واقعہ پشاور نے بڑے بڑوں کے ایمان کو زلزلے کے جھٹکے کی طرح ھلا کر رکھ دیا ھے !
1- کیا اللہ نے ان بچوں کا نصیب یہ لکھا تھا ؟
2- کیا اللہ پاک ان قاتلوں کو روک نہین سکتا تھا ؟
3- کیا 99 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے کو احساس نہیں تھا کہ ماؤں پہ کیا قیامت گزر جائے گی ، اگر وہ سب کچھ کر سکتا ھے تو کچھ کیا کیوں نہیں ؟ اور یہ سب کچھ کیوں ھونے دیا ؟
4- اگر اللہ نہیں چاھتا تھا کہ ایسا ھو ،، تو پھر اس نے ھونے کیوں دیا ؟ اگر قاتلوں کا ارادہ رب کے ارادے پہ حاوی کیسے ھو گیا ؟
5- اگر رب ھی یہ چاھتا تھا کہ ایسا ھو تو پھر قاتلوں کا کیا قصور ھے انہوں نے تو خدا کے ارادے کو پورا کیا ھے ؟
یہ اور اس قسم کے مزید سوالات سے میرا ان باکس بھرا پڑا ھے ،،
جب بھی کوئی سانحہ ھوتا ھے یا کوئی وبا پھیلتی ھے یا کوئی قدرتی آفت آتی ھے تو یہی سارے سوال اٹھائے جاتے ھیں ،ملحدین اور دھریوں کی طرف سے بھی اور مخلص ایمان والون کی طرف سے بھی ،، مخلص مومن جنہیں ایمان باپ دادا سے وراثت میں ملا تھا ، انہوں نے جیسے کیسے اسے سوشل ویلیوز کے زور پر قائم رکھا ،،مگر یہ دھکا اسٹارٹ ایمان ھے ذرا سا حادثہ اس پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ھے ،کیونکہ اس کی بنیاد ھوا میں کھڑی ھے ،، ایمان کی دعوت دینے والوں کو خود ایمان کی حقیقت سے شناسا ھونے کی ضرورت ھے ،، تا کہ روز روز اس پہ سوال ھی نہ اٹھیں اور انسان مجسم نفس مطمئنۃ بن کر رھے ،، سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کبھی آپ پر تشکیک کا دور بھی گزرا ھے ؟ آپ نے فرمایا کہ چند دن ایسے ضرور گزرے ھیں جب میں نے دروازہ بند کر کے ایمان کی مبادیات کا جائزہ ھر پہلو کو سامنے رکھ کر کیا ھے ،، کہ خدا کو نہ مانو تو انسان کس جگہ پہ جا کھڑا ھوتا ھے اور اگر خدا کو مانو تو انسان کی کس جگہ پہ کھڑا ھوتا ،، بس اس کے بعد الحمد للہ شک کبھی میرے پاس سے نہیں گزرا ،، انسان جب ایمان کی حقیقت کو پا لیتا ھے تو پھر وہ اس مقام پہ جا کھڑا ھوتا کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رھا ھے اور دیکھی ھوئی چیز کو کسی کی کوئی دلیل کوئی حادثہ شک میں تبدیل نہین کر سکتا ،، یہی احسان کی منزل ھے ،، ان تعبداللہ کأنک تراہ ،، پھر انسان کا ایمان کوہ ھمالیہ بن جاتا ھے ،، صبح پھانسی دی جانی ھے اور سید مودودیؒ خراٹوں کے ساتھ نیند پوری کر رھے ھیں ،،گویا کل رب سے اھم ملاقات سے پہلے نیند پوری ھو ،، کال کوٹھڑی کے پہریدار بھی اس عجیب قیدی کو دیکھ کر حیران تھے جو رونے دھونے کی بجائے چین کی نیند سو رھا تھا !
اللہ پاک نے ان سارے سوالوں کے جواب قرآن میں دیئے ھیں ،، اور ایک فلسفہ ایک حکمت بیان کی ھے جس پر اس ساری موت و حیات کا مدار رکھا ھے اور وہ حکمت یا اسکیم ھے امتحان کی !
یہ عرصہ کرنے کے لئے دیا گیا ھے ، بننے کے لئے دیا گیا ھے ،جس نے جہنمی بننا ھے اپنے عمل سے بن لے – جس نے جنتی بننا ھے اپنے عمل سے بن لے ، وہ نہ جبر سے جہنمی بناتا ھے اور نہ جبر سے جنتی بناتا ھے ،جہاں جبر داخل ھو امتحان ختم ھو جاتا ھے ، غلط لکھنے والے کو غلط لکھنے دینا امتحان ھے ، اور صحیح لکھنے والے کو صحیح لکھنے کا موقع دینا امتحان ھے ،، غلط لکھنے والے کو روک دیا تو امتحان کرپشن میں تبدیل ھو جاتا ھے،،
الذی خلق الموت والحیوٰۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً،، جس نے موت اور حیات کا سلسلہ ھی اس لئے شروع کیا کہ وہ تمہیں بلوئے ،، دھی بنے دودھ کی طرح بلوئے،،
ظاھر ھے اگر کسی نے ظلم کرنا ھے تو اسے ظلم کرنے دینا ھے تو پھر کوئی تو اس کے طلم کا نشانہ بنے گا ، اب جو اس کے ظلم کا نشانہ بن گیا وہ مظلوم ھو گیا ، اور ظالم کے لئے امتحان بن گیا، جس امتحان میں ظالم فیل ھو گیا ،،مگر کچومر تو مظلوم کا نکل گیا ، اس کا صلہ مظلوم کو ضرور دیا جائے گا ،، قرآن نے صحابہ کی اور سابقہ انبیاء کی امتوں کی دعائیں بیان کی ھیں،، ربنا لا تجعلنا فتنۃً للقوم الظالمین ،، ربنا لا تجعلنا فتنۃً للقوم الکافرین ،، اے ھمارے پروردگار ھمیں ظالموں کو ظالم ثابت کرنے کے لئے بطور کسوٹی یا بطور آلہ امتحان استعمال نہ فرما ،، اے پروردگار کافروں کے کفر کو عملاً ثابت کرنے کے لئے ھمیں کسی امتحان میں نہ ڈال ،،
ا
ایک مرد کے مادہ منویہ میں ملینز کے حساب سے انسانی جرثومے ھوتے ھیں اور ان میں سے اکثر انسان بننے کی مکمل صلاحیت رکھتے ھیں ،، رب ان میں سے ایک کو انسان بنانے کے لئے چن لیتا ھے اور باقی کو مر جانے دیتا ھے ، اگر ان Millions میں سے ایک جرثومے کا انتخاب انسان پر چھوڑ دیا جائے تو وہ انسان کس عذاب میں مبتلا ھو جائے جو دو جڑواں بچوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے وقت عذاب میں مبتلا ھو جاتا ھے کہ کس کو جینے کے لئے منتخب کرے اور کسے مر جانے دے کیونکہ ڈاکٹرز کے بقول دو جڑے ھوئے بچوں یا بچی میں سے کسی ایک کو ھی بچایا جا سکتا ھے کیونکہ دماغ ایک ھے ،، آخر تنگ آ کر والدین معاملہ ڈاکٹر پہ چھوڑ دیتے ھیں تا کہ کل ان کا ضمیر ان کو تنگ نہ کرے !
اللہ پاک جذباتی فیصلے نہیں کرتا ، اس کی اپنی ایک سنت ھے اور اس سنت میں وہ کبھی تبدیلی نہیں کرتا نہ اسے زگ زیگ صورت اختیار کرنے دیتا ھے – وہ چاھتا تو شمر کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی گردن نہ کاٹنے دیتا ، حضرت یحی علیہ السلام کا سر کاٹ کر ایک ناچنے والی کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا ،،حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا اور ایک دن میں کئ سو انبیاء کو شہید کیا گیا ،، یہ دنیا دارالبلاء اور مقامِ ابتلاء ھے ،، جس نے جھنم کمانی ھے یہیں سے کمانی ھے اور جس نے جنت جانا ھے اس کا سامان بھی یہیں سے کرنا ھے ،، جو ایمان لانا چاھتا ھے اس کے ایمان میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی جو کفر کی راہ اختیار کرنا چاھتا ھے اس کو بھی موقع دیا جاتا ھے !
ایک بات پلے باندھ لیں زندگی میں بڑی کام آئے گی ! لا یکلف اللہ نفساً الۜا وسعھا ،، اللہ کسی پر بھی امتحان اس کی استطاعت یا وسعت سے زیادہ نہیں ڈالتا ،، موسی علیہ السلام کی ماں سے بیٹا اگر دریا میں ڈلوایا ھے تو پہلے دل پہ ہاتھ رکھا ھے ،، امتحان والدین کا ھے تو یقین جانیں میرے رب نے ان کے دل پہ ھاتھ رکھا ھوا ھے ،، انہیں سنبھالے ھوئے ھے ،ھم اپنے حال سے ان کا حال ملٹی پلائی کر کے دیکھتے ھیں تو کلیجہ پانی ھوتا ھے مگر ھم رب کے ھاتھ کو بھول جاتے ھیں ، وہ ھمارے دلوں پہ نہیں رکھا گیا ،، وہ والدین کے دلوں پہ یقیناً رکھا ھوا ھے ،،
میرے دو بھائی 18- سال 22 سال کی عمر کے صرف پندرہ منٹ سے بھی کم وقفے میں قتل کر دیئے گئے ،، بارہ بور رائفل کے دو قسم کے کارتوس ھوتے ھیں سفید کارتوس جس سے شیر کا شکار کیا جاتا ھے وہ استعمال کیئے گئے تھے ، جمعے والے دن ایک کو مسجد کی محراب کے پاس اور دوسرے کو گھر پہنچ کر جمعے کے لئے نکلتے وقت مین گیٹ پہ والدہ کے سامنے مار کر انتڑیاں نکال دی تھیں، میں جمعے کا خطبہ دے رھا تھا اور پہلا خطبہ دے کر وقفے کے لئے بیٹھا تھا کہ گھر والوں نے محراب کا دروازہ بجا کر اطلاع دی ،بیساختہ میرے منہ سے الحمد للہ نکلا ،، گلِے شکوے کے وقت اللہ کی تعریف منہ سے نکلے تو شیطان کے منہ پر تھپڑ لگتا ھے ،، الحمد للہ ،،، اس الحمد للہ کا مقام میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ھے کہ بیان نہیں کر سکتا ،،
جن بچوں کے والدین اور ان بچوں پہ قیامت گزری ھے اسے سورہ الکہف میں نفس زکیہ کے واقعے سے سمجھ لیجئے ،، ان والدین کا خاص مقام ھے اللہ پاک کے یہاں ،، بعض مقام عبادت سے حاصل نہیں ھوتے اگرچہ وہ نبی کیوں نہ ھو ، وہ مصیبت سے حاصل ھوتے ھیں اور یہ بات انبیاء کے واقعات سے بخوبی عیاں ھے ، اگر یہ زندگی ھی آخری زندگی ھوتی تو کہا جس سکتا تھا کہ والدین نقصان میں رھے ،مگر یہ زندگی تو اس حقیقی زندگی کے ٹرائلز کا مرحلہ ھے کہ وہ کسے دی جائے اور کسے اس خلود کی زندگی سے محروم کر کے کچرہ جلانے کی جگہ پہ ڈال دیا جائے ،، ان بچوں کے والدین یقیناً اس ابدی اور حقیقی زندگی کے لئے منتخب کر لئے گئے ھیں ،، اور یہ بچے ان کا استقبال جنت کے دروازے پہ کریں گے ،، جبکہ قاتل اس زندگی سے محروم کر دیئے گئے ،ایسے شقی القلب لوگ رب کے پڑوس میں رھنے کے قابل نہیں ،،
پھر وہ لوگ جنہیں جھنم پہ اعتراض ھے اور سوال اٹھاتے ھیں کہ 99 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا جھنم میں کیسے ڈال سکتا ھے ؟ آج جہاں جہاں یہ مناظر پہنچے ھیں ان سے سروے کرا لو ،، ھر انسان کا دل و دماغ چیخ چیخ کر کہہ رھا ھے کہ ھاں کچھ لوگ ایسے ھیں کہ جن کے لئے جھنم کا ھونا بہت ضروری ھے ،جہاں جان کے بدلے جاں نہیں بلکہ کئ کئ قتل کرنے والا بار بار جیئے اور بار بار مرے تا کہ پورا بدلہ پائے ،، ان بچوں کی ماؤں سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گی کہ جھنم اللہ کی رحمت ھے مگر مظلوموں کے لئے ،، اللہ پاک نے سورہ زمر کے آخر میں فرمایا ھے کہ ،، فیصلے جب انصاف کے ساتھ ھو جائیں گے اور فرشتے اللہ کے عرش کا طواف کر رھے ھونگے تو ان فیصلوں پہ اعتراض کرنے کی بجائے ،الحمد للہ ، الحمد للہ کے ترانے پڑھے جا رھے ھونگے !