والدین کے ساتھ پوری فیملی کی ھجرت نے ھمیں چھڑوں کی لائف سے محروم ھی رکھا ، مگر ایک دفعہ اتفاقاً ھمیں بھی یہ سعادت نصیب ھو گئ جب چھوٹے بھائی کے ساتھ ھمارا جھگڑا ھو گیا ، وجہ تنازعہ ھمارا ضرورت سے زیادہ مذھبی ھونا تھا ، ھم اکثر گھر والوں کو تنگ ھی رکھا کرتے تھے ،خبریں لگتیں تو ھم یا تو ٹی وی کی طرف پشت کر کے مستان شاہ کی طرح کھڑے ھو جاتے تا کہ کسی کو تصویر نظر نہ آئے ، یا اس کا بٹن مروڑ کر اس کی اسکرین کالی کر دیتے ،، کارٹون بھی نہ دیکھنے دیتے ، الغرض اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے کئ دفعہ امی جان سے وائیپر بھی کھائے ،، ایک دن چھوٹے بھائی کے فجر کی نماز کے لئے اٹھنے میں دیر ھو گئ ، ھم نے جگایا تو سورج طلوع ھونے کی تیاری کر رھا تھا ، چھوٹے بھائی نے اٹھ کر دانتوں کو برش کرنا شروع کر دیا ،، ھمارا جو پارہ چڑھا تو فولڈنگ چیئر اٹھائی اور اسے فولڈ کر کے پیچھے سے گھما کر جو اسے ماری تو پتہ نہیں Tom کی طرح برش اس کے گلے میں کہاں تک گیا ھو گا ،، مگر ھمیں ایک لمبی ھاااااااا کی آواز سنائی دی ،، کرسی لگنے کی آواز سے ابا اور امی ناشتہ چھوڑ کر باھر بھاگے جہاں ھم نے بھائی کے ساتھ سینگ پھنسائے ھوئے تھے ،، والدین اس کا منہ دیکھ رھے تھے کہ زخم کی نوعیت کیا ھے ،،ھم نے غصے میں بستر اٹھایا اور مدینہ زاید اپنے چچا جی کے پاس آ گئے ،، یہ ڈیرے کی زندگی کا پہلا دن تھا ،،
ڈیرے میں ایک پنجابی مکینک رھا کرتے تھے ،سوجھی ھوئی آنکھیں ،موٹا بدن ،، اور ان کے ساتھ ان کا ایک چھوٹو کاریگر تھا ، گیراج ان کا اپنا ذاتی تھا ،، گرمیوں کا موسم تھا ایک دن عشاء کے وقت آئے تو اپنے کاریگر کو آواز دی ” اوئے کاکے میری عینک لیئا یار ” کاکا جب فریج کی طرف آیا جو کہ میرے بیڈ کے ساتھ پڑا تھا تو میں نے تعجب سے اسے دیکھ کر کہا کہ استاد جی نے عینک مانگی ھے پانی نہیں مانگا ،، وہ پراسرار اور طنزیہ مسکراھٹ کے ساتھ میری طرف دیکھتا بھی رھا اور ساتھ ساتھ عینک کو تلاش بھی کرتا رھا ،، آخر ایک کالے رنگ کے محلول والی بوتل لئے استاد کے پاس پہنچا اور اسے بڑے ادب سے پیش کی ، استاد نے نہایت بے ادبی کے ساتھ اس کی گردن پکڑی یعنی بوتل کی گردن پکڑی اور غٹ غٹ کر کے چڑھا گئے ،، شکر ھے پی کر ڈکار ھی مارا الحمد للہ نہیں کہہ دیا کم بخت نے ، ورنہ ڈیرے میں کیا نہیں ھوتا ؟ اللہ معاف فرمائے ،،
وہ بڈھا شیر بلا کا مے نوش تھا ، پی کر ھی اس کی آنکھ کھُلتی تھی اسی لئے اس نے اس بوتل کا نام عینک رکھا ھوا تھا ،، یہ ایک ایسی مسکین سی اصطلاح تھی کہ ھم جب کسی کو پاگل پن کی بات کرتے دیکھتے تو کہا کرتے تھے کہ ” یار اس نے عینک تو نہیں لگا رکھی ؟ ” اور وہ بے چارہ بیساختہ اپنے چہرے کی طرف ھاتھ لے جا کر تصدیق کرتا ،،
ڈیرے میں گائے کی اوجھڑی پکی تھی کھانے کے بعد جو بچی اسے فریزر میں رکھ دیا گیا ،جب ھفتہ ھو گیا تو فیصلہ ھوا کہ اس برفیلی اوجھڑی کو اب دفن کر دینا چاھئے تا کہ نیا سالن ڈمپ کرنے کی گنجائش پیدا کی جا سکے ،، اوجھڑی کو سائڈ پہ پڑی ،شاپر لگی بالٹی میں ریسٹ ان پیس RIP کہہ کر دفنا دیا گیا ،، ابھی اس کی برف بھی نہ پِگھلی ھو گی کہ پندرہ بیس منٹ بعد دبئ سے مہمان آ گئے ،، سارے ڈیرے والوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ،نظروں ھی نظروں میں مجلسِ شوری کا اجلاس ھوا اور آنکھوں ھی آنکھوں میں نہ صرف فیصلے کی منظوری دے دی گئ بلکہ اوجھڑی کی قبر کشائی کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ،، چچا جان نے اس اوجھڑی کو حکمت ،دانشمندی اور پردے کے ساتھ نکالا ، اوجھڑی کو برف سمیت غسل دیا گیا اور فرائی پان میں رکھ کر اس میں ھری مرچ ڈال کر نئ زندگی دے دی ،اوجھڑی جب مہمانوں کے سامنے رکھی گئ تو وہ اس کے ذائقے اور خوشبو پر عش عش کر اٹھے ،،
جاری ھے !