”چہرے کا پردہ واجب ہے یا غیرواجب”، اس موضوع پر میرے کئی مضامین ماہنامہ ”اشراق” میں چھپ چکے ہیں۔ ان تمام مضامین کو دارالتذکیر رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور نے بڑے خوبصورت طریقے سے ”چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب” کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے، اللہ ان کو جزاے خیر دے۔ ان مضامین کا محور سورۂ احزاب اور سورۂ نور کی آیات مبارکہ ہیں، اگرچہ اجمالی طور پر جمہور محدثین کا یہ نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں، مگر مثال کے طور پر صرف دو چار حدیثوں سے استدلال کیا گیا ہے۔
زیرنظر مضمون میں ان احادیث اورآثار کو پیش کروں گا جن کا حوالہ علامہ ناصرالدین البانی نے اپنی کتاب ”جلباب المرأۃ المسلمہ” اور ”الردالمفحم”میں دیا ہے۔ علامہ البانی دور حاضر کے سب سے بڑے محدث ہیں علم حدیث پر تحقیق کرنے والا کوئی طالب علم ان کی تحقیق کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان کے مرتبہ و مقام کے پیش نظر میں ان احادیث و آثار کو ان کے فنی تجزیہ کے ساتھ جوں کا توں نقل کروں گا تاکہ ہر مکتب فکر کے مدرسہ میں بیٹھے ہوئے محدث مجھ جیسے طالب علم کی طرح ان جیسے فاضل کو جدت پسندی کا طعنہ نہ دے سکیں۔ علامہ کی وفات عما ن میں ۲؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء مطابق ۲۲؍ جمادی الآخرہ ۱۴۲۰ھ میں ہوئی۔ میں نے ان کی حیات اور تصانیف کے بارے میں ایک مضمون لکھا جسے ”میثاق” نے فروری ۲۰۰۰ء کے شمارے میں شائع کیا۔ اردو پریس میں چھپنے والا یہ اکلوتا مضمون تھا، اس کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ میں نے اس میں علامہ کی کتاب ”حجاب المرأۃ المسلمہ” کا حوالہ دے کر چہرے کے پردے کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر تفصیل سے پیش کیا، مگر ”میثاق” کے ادارے نے ساری تفصیل کو حذف کر کے صرف چند سطروں میں کتاب کا ذکر کرنا مناسب سمجھا، غالباً اس لیے کہ محدث دوراں علامہ البانی کا نقطۂ نظر ان کے نقطۂ نظر سے متصادم تھا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون سے پہلے علامہ ناصرالدین البانی کا بطور محدث تعارف کرا دیا جائے۔
علامہ ۱۳۸۱ھ سے لے کر ۱۳۸۳ھ تک مدینہ یونیورسٹی میں علم حدیث پڑھاتے رہے۔ وہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کا انتخاب تھے۔ وہ ۱۳۹۵ھ سے لے کر ۱۳۹۸ھ تک یونیورسٹی کی مجلس اعلیٰ کے ممبر رہے۔ علم حدیث میں ان کی خدمات کے پیش نظر ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا، ان کی کتابوں کی تعداد تو بہت ہے، مگر علم حدیث میں ان کی مشہور تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں جو علم حدیث میں ان کے مرتبہ پر دلالت کرتی ہیں:
۱۔ دمشق یونیورسٹی کے شریعت کالج نے فقہ کا انسائیکلو پیڈیا ”موسوعۃ الفقہ الاسلامی” شائع کیا۔ اس کی ”کتاب البیوع” کے بارے میں احادیث اور آثار کی تخریج کا کام علامہ کو سونپا گیا۔
۲۔ ”ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منارالسبیل”۔ ”منار السبیل” فقہ حنبلی کی بنیادی کتاب ہے۔ علامہ نے اس کتاب میں وارد تمام احادیث کی تخریج کی ہے۔
۳۔ ”صحیح و ضعیف السنن الاربعہ”۔ علامہ صحاح ستہ کی جگہ کتب ستہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، وہ صرف بخاری اور مسلم کو صحیحین تسلیم کرتے ہیں، اسی لیے انھوں نے باقی چار کتابوں میں صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کیا ہے، یہ علامہ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ خاص طور پر علمی جمود کے اس دور میں جب صحاح ستہ کی طرف انگلی اٹھانا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتابیں المورد کی لائبریری میں بھی موجود ہیں۔
۴۔ ”سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ”۔ یہ ایک ادارے کا کام ہے جسے علامہ نے تن تنہا سرانجام دیا۔ اس دور میں بہت سی ضعیف حدیثیں ہمارے دماغ میں رچ بس گئی ہیں جنھوں نے امت کے عقیدہ اور تصورات پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ ان دونوں کتابوں کا مکمل سیٹ المورد کی لائبریری میں معز امجد صاحب کے ذاتی ذخیرے میں موجود ہے۔
۵۔ ”مختصر صحیح المسلم”۔ جلا وطنی کے زمانہ میں علامہ نے یہ کام تین ماہ میں مکمل کیا۔
۶۔ ”مختصر صحیح البخاری”۔ صحیح میں مرفوع اور موقوف، دونوں قسموں میں صحیح، حسن اور ضعیف احادیث موجود ہیں۔ مرفوع احادیث میں ان کے مرتبہ کو بیان کر کے تخریج کو مختصراً حاشیہ میں درج کیا ہے، جبکہ موقوف میں صرف تخریج پر اکتفا کیا گیا ہے اور کہیں کہیں حدیث کے مرتبہ کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ یہ چار جلدوں میں ہے جن میں سے میری اطلاع کے مطابق تین طبع ہو چکی ہیں۔
۷۔ ”مختصر صحیح المسلم للمنذری”۔ علامہ نے سب سے پہلے اس کتاب کی تحقیق کی، اس کی احادیث پر نمبر لگائے، غریب کی شرح لکھی اور اس کے علاوہ مفید نوٹ لکھے۔
۸۔ ”صحیح الأدب المفرد للبخاری و ضعیفہ”۔
۹۔ ”صحیح الترغیب والترہیب للمنذری وضعیفہ”۔
۱۰۔ ”صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ” للسیوطی۔
۱۱۔ ”بغیۃ الحازم فی فہرسۃ مستدرک الحاکم”۔
۱۲۔ ”دفع الاضرار فی ترتیب مشکل الآثار” للطحاوی۔
۱۳۔ ”الروض النضیر فی ترتیب و تخریج معجم الطبرانی الصغیر”۔
۱۴۔ ”فہرس لمسانید الصحابۃ لمسند الامام احمد”۔
۱۵۔ ”تخریج الاحادیث المختارہ” لضیاء المقدسی۔
۱۶۔ ”تخریج الاحکام الکبریٰ” لعبد الحق الاشبیلی۔
۱۷۔ ”تخریج احادیث مشکوٰۃ المصابیح” للخطیب التبریزی۔
۱۸۔ ”تخریج الاحتجاج بالقدر”، ”الایمان”، ”حقیقۃ الصیام”، ”الکلم الطیب” لابن تیمیہ۔
۱۹۔ ”تخریج حقوق المرأۃ فی الاسلام” للشیخ محمد رشید رضا۔
۲۰۔ ”تخریج حل مشکلۃ الفقر” للقرضاوی۔
۲۱۔ ”تخریج المرأۃ المسلمہ” للشیخ حسن البنا۔
۲۲۔ ”تخریج احادیث فقہ السیرۃ” للشیخ محمد الغزالی۔
۲۳۔ ”التعلیق علی الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث” لابن کثیر۔
۲۴۔ ”التعلیق علی حجاب المرأۃ المسلمۃ ولباسہا فی الصلوٰۃ” لابن تیمیہ۔
۲۵۔ ”التعلیق علی سبل السلام” للصنعانی۔
۲۶۔ ”مراجعۃ صحیح ابن خزیمۃ بتحقیق مصطفی الأعظمی مع التعلیق علیہ”۔
۲۷۔ ”الجمع بین میزان الاعتدال للذہبی ولسان المیزان” لابن حجر۔
۲۸۔ ”تحقیق اصول السنۃ واعتقاد الدین” للامام ابن ابی حاتم۔
۲۹۔ تحقیق کتاب ”حول اسباب الخلاف” للحمیدی۔
۳۰۔ تحقیق کتاب ”دیوان اسماء الضعفاء والمتروکین” للذہبی۔
علم حدیث پر یہ علامہ کی چیدہ چیدہ تصانیف ہیں۔کس قدر صحیح بات کی ہے ”الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامی” کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر مانع بن حماد الجہنی نے: ”ان کے شایان شان ہے کہ کہا جائے کہ دور حاضر میں آسمان کے نیچے ان سے بڑھ کر علم حدیث جاننے والا کوئی نہیں۔” ابن حجر رحمہ اﷲ کے بعد علم حدیث پر اتنا بڑا کام صرف امام ناصرالدین البانی نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے انھی کی پیش کردہ احادیث و آثار کو گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ علامہ البانی نے ”جلباب المرأۃ المسلمہ” میں تیرہ احادیث پیش کی ہیں۔ یہ سب اہل علم کے نزدیک درجۂ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں اور علما نے ان کے مطابق عمل کیا ہے۔ علامہ کے مداح تو بہت ہیں، مگر مخالفین بھی کم نہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انھوں نے علم حدیث پر جاری جمود کو توڑا ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں جانچ اور پرکھ کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔
”جلباب المرأۃ المسلمہ” کے رد میں زیادہ تر سعودی عرب کے مصنفین نے خامہ فرسائی کی ہے۔ ان سب میں پیش پیش شیخ حمود التویجری ہیں جنھوں نے ”الصارم المشہور” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ ماہنامہ ”حکمت قرآن” کے حافظ محمد زبیر نے میرے مضامین کے جواب میں جو مضامین لکھے ہیں اور علامہ کی پیش کردہ پانچ احادیث پر جو تنقید کی ہے، وہ کم و بیش اسی کتاب کاچربہ ہے۔
شیخ تویجری کی ہم نوائی میں درویش نے ”فصل الخطاب”، ابن خلف نے ”نظرامتہ”، محمد بن اسماعیل اسکندرانی نے ”عودۃ الحجاب” اور شیخ عبدالقادر بن حبیب سندی نے ”الحجاب” کے نام سے کتابیں لکھی ہیں۔
علامہ ”الرد المفحم” میں لکھتے ہیں کہ متعصب لوگوں نے میری پیش کردہ احادیث پر تخریب و تہدیم کا پھاؤڑا چلایا ہے اور ان کی غلط تاویل کر کے ان کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے، حالاں کہ شیخ تویجری اور اس کے ہم نوا علم حدیث اور علمی قواعد کے مطابق صحت و ضعف کے اعتبار سے نقد حدیث کے اصولوں سے ناآشنا ہیں اور حدیث نبوی کو اپنے مسلک کی تائید کی خاطر غلط معنی پہناتے ہیں۔ وہ ایک ایسے علم میں دخل اندازی کرتے ہیں جن کا انھیں علم نہیں۔ ان کے بارے میں علامہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وأما الجہلۃ بھٰذا العلم والذین لا یسألون اہل الذکر یستبشون بأقوال من حبّ ودب ممن لیس فی العیرو لا فی النضیر ولاشان لما معہم
”رہے علم حدیث سے ناآشنا لوگ جو اہل علم سے پوچھنے کے بجاے ایسے للو پنجو لوگوں کے قول کا سہارا لیتے ہیں جو کسی قطار و شمار میں نہیں۔ ان کے قول کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟”
علامہ البانی نے ”الردالمفحم” میں ان تمام مخالفین، خاص طور پر شیخ تویجری کے خیالات کی مدلل طور پر تردید کی ہے جس کا ذکر میں احادیث کے تحت کرنے کی کوشش کروں گا۔ علامہ البانی نے حدیث کی روایت میں صرف صحابی راوی کا ذکر کیا ہے اور جن کتابوں سے اس کی تخریج کی ہے، ان کا حوالہ دے دیا ہے۔ ان حوالوں کے بعد انھوں نے سند اور متن کا فنی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ البتہ ”الرد المفحم” میں شیخ حمود التویجری کی جن دس احادیث کو پیش کیا ہے، ان کی تخریج کے لیے انھوں نے اپنی کتاب ”سلسلۃ الأحادیث الضعیفہ” کا حوالہ دیا ہے۔ اختصار کی خاطر عربی متن کے بجاے اس کا لفظی ترجمہ اردو میں پیش کروں گا:
”جلباب المرأۃ المسلمہ” میں پیش کردہ احادیث پہلی حدیث
حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اﷲ عنہما)سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عید کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ آپ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ پھر آپ بلال کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا اور اللہ کی اطاعت کی رغبت دلائی۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر چل کر عورتوں کے پاس آئے، ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا: صدقہ و خیرات کرو، کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔ پھر عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی عورت، جس کے رخساروں کا رنگ سرخی مائل سیاہ (سفعاء الخدین) تھا، نے کہا: اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیونکہ تم شکویٰ شکایت بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ راوی کا قول ہے کہ عورتیں اپنے زیورات کو صدقہ و خیرات میں دینے لگیں اور وہ بلال (رضی اللہ عنہ) کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔
تخریج: مسلم (۳/۱۹)؛ نسائی (۱/۲۳۳)؛ دارمی (ا/۳۷۷)؛ صحیح ابن خزیمہ (۲/۳۰۷، رقم ۱۴۶۰)؛ بیہقی (۳/ ۲۹۶، ۳۰۰) اور احمد (۳/۳۱۸)۔
علامہ کا قول ہے کہ ”اس حدیث سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کا چہرہ کھلا تھا، وگرنہ راوی اس کی یہ صفت کیونکر بیان کرتا کہ اس کے رخساروں کا رنگ سرخی مائل سیاہ تھا۔”
مسلم کی روایت میں ‘سطۃ النساء’ (عورتوں کے وسط میں) کے الفاظ ہیں، جبکہ دوسروں کی روایت میں ‘سفلۃ النساء’ کے الفاظ ہیں ابن اثیر کا قول ہے کہ ‘س’ کے فتحہ اور ‘ف’ کے کسرہ کے ساتھ ‘سفلۃ’ گرے پڑے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔
اس حدیث کے الفاظ بالکل واضح ہیں اور علامہ البانی کا استدلال بھی بالکل واضح ہے، لیکن جن لوگوں کے ذہن میں یہ سودا سمایا ہوا ہے کہ عورت کو سرتا پا ملفوف ہونا چاہیے، ان کو یہ واضح دلیل کیونکر گوارا تھی۔ چنانچہ انھوں نے اس حدیث کی تاویل کے تین حیلے تراشے ہیں:
۱۔ عورت کے چہرے سے اتفاقاً کپڑا سرک گیا تھا۔
۲۔ عورت بوڑھی تھی۔
۳۔ حجاب کی فرضیت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
یہ اعتراضات حمود التویجری نے اپنی کتاب ”الصارم المشہور” میں پیش کیے ہیں۔ جو اس کتاب سے نقل کر کے حافظ محمد زبیر نے میرے مضامین کے جواب میں ماہنامہ ”حکمت قرآن” کے اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارے میں ہو بہو نقل کر دیے ہیں، لیکن مآخذ کا حوالہ دیے بغیر تاکہ قاری کو گمان گزرے کہ یہ ان کی اپنی تحقیق ہے۔
معترض کا خیال ہے کہ عورت کا چہرہ چھپا تھا، مگر اتفاقاً چہرے سے کپڑا سرک گیا۔ اور عید گاہ میں بیٹھی ہوئی سب عورتوں میں سے جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما کی اتفاقیہ نظر اس کے چہرے پر پڑی تو اس کا وصف بیان کر دیا۔ ظاہر ہے، اتفاقاً کپڑا سرکنے کے بعد اس عورت نے فوراً ہی اپنے چہرے کو چھپا لیا ہوگا، کیونکہ چہرے کو ننگا کرنا بقول معترض، وہ گناہ سمجھتی ہو گی۔ پلک جھپکنے میں اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا تو جابر نے اس کو دیکھ کر اس کے گالوں کی رنگت بیان کر دی۔ اس انتہائی تھوڑی مدت میں کیا یہ سب ممکن تھا؟ یہ قرین قیاس نہیں۔ ‘سفعاء الخدین’ کا لفظ وہی استعمال کر سکتا ہے جس کی نظر کچھ عرصے کے لیے چہرے پر ٹھہری ہو۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ عورتوں نے عید گاہ میں کھلے چہرے کے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔ اسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وعظ کیا۔ کیا عورتیں مسجد نبوی میں یا عید گاہ میں چہرہ ڈھانپ کر نماز پڑھ کر بیٹھی تھیں؟ معترض نے غالباً اس ماحول کو اپنی مسجدوں اور عید گاہوں پر قیاس کیا ہے۔ عہد نبوت میں عورتیں پانچ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کرتی تھیں۔ ان کی صف مردوں سے پیچھے ہوتی تھی اور درمیان میں نہ کوئی اوٹ ہوتی تھی اور نہ پردہ، وہ کھلے چہرے کے ساتھ نماز پڑھتی تھیں اور بھری مجلس میں سوال کرتی تھیں۔
معترض نے ‘سفعاء الخدین’ کا ”پچکے ہوئے گالوں والی” ترجمہ کر کے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ عورت بوڑھی تھی، حالاں کہ نوجوان عورت کے گال بھی پچکے ہو سکتے ہیں۔ پھر عربی اور حدیث کی کسی لغت میں اس کے معنی ”پچکے ہوئے گالوں والی” نہیں کیے گئے، نہ حقیقتاً اور نہ مجازاً۔ اس لفظ کی لغوی بحث میری کتاب ”چہرے کا پردہ :واجب یا غیرواجب” میں صفحہ ۲۳۸۔ ۲۳۹ پر موجود ہے۔
تیسرے اعتراض کا جواب علامہ البانی نے خود ”جلباب المرأۃ المسلمہ” صفحہ ۷۴ پر یہ دیا ہے کہ ”اس سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے جلباب اوڑھ رکھی تھی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کی نماز کا حکم جلباب کے حکم کے بعد دیا اور یہ حکم حدیبیہ سے واپسی کے بعد آیت امتحان اور آیت بیعت النساء کے بعد دیاگیا۔” سورۂ ممتحنہ کی آیت نمبر ۱۲ بیعت کے بارے میں فتح مکہ کے دن نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر نے ”فتح الباری” ”کتاب الایمان” (۱/۶۶) میں لکھا ہے کہ ”اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ عورتوں کی بیعت کا واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ فرضیت حجاب کے بعد کا ہے۔” اس حدیث سے فقہا نے درج ذیل مسائل کا استنباط کیا ہے:
۱۔مردوں کی موجودگی میں اہل علم براہ راست عورتوں کو وعظ و نصیحت کر سکتے ہیں۔ وہ روایت جو ابن جریج نے عطاء بن ابی رباح سے کی ہے، اس کا واضح ثبوت ہے۔ عطاء نے ابن جریج کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: مجھے میری زندگی کی قسم یہ وعظ امام پر واجب ہے۔ انھیں کیا ہو گیا ہے، وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟
۲۔ وعظ و نصیحت سننے، حصول علم اور دیگر معاملات کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا کھلا رکھنا جائز ہے۔ عبدالملک بن سلیمان نے جو روایت عطاء سے کی ہے، وہ اس کا واضح ثبوت ہے ”فتح الباری” میں حافظ ابن حجر کے قول کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ (۹/۳۴۴)
دوسری حدیث
حضرت عبداللہ بن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ قبیلۂ خثعم کی ایک عورت نے آخری حج کے موقع پر (قربانی والے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا، جبکہ فضل بن عباس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔
(فضل روشن چہرہ آدمی تھے)… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر لوگوں کو فتویٰ دینے لگے۔ اسی حدیث میں ہے: ”فضل اس عورت کی طرف چہرہ گھما گھما کر دیکھنے لگے۔ اور وہ عورت خوبصورت تھی (ایک روایت میں ہے: روشن چہرہ تھی۔ ایک روایت میں ہے: فضل اس کی طرف دیکھتے رہے اور انھیں اس کا حسن بھا گیا، اور وہ آپ کی طرف دیکھنے لگی) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی ٹھوڑی پکڑ کر ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔” احمد (۱/۲۱۱) کی روایت میں فضل سے مروی اسی حدیث میں ہے: ”میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا، اس نے بھی میری طرف دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور میرا چہرہ اس کے چہرے سے پھیر دیا۔ میں نے پھر اس کی طرف دیکھا، آپ نے پھر میرا چہرہ اس کے چہرے سے پھیر دیا۔ یہاں تک کہ آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا، جبکہ میں باز ہی نہیں آرہا تھا۔”
اس کے راوی ثقہ ہیں، لیکن اگر حکم بن عتبہ کا سماع حضرت ابن عباس سے ثابت نہ ہو تو یہ منقطع ہے۔
اس قصہ کو حضرت علی بن ابی طالب نے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ سوال قربان گاہ میں پوچھا گیا، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ کی رمی سے فارغ ہو چکے تھے اور انھوں نے اس بات کا اضافہ کیا ہے: ”عباس نے آپ سے پوچھا: آپ نے اپنے چچا زاد کی گردن کیوں موڑی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے جوان مرد اور عورت کو دیکھا تو مجھے یوں لگا کہ وہ شیطان سے محفوظ نہیں۔”
تخریج: بخاری (۳/۲۹۵، ۴/۵۴، ۱۱/۸)؛ مسلم (۴/۱۰۱)؛ ابوداؤد (۱/۲۸۶)؛ نسائی (۲/۵) اور انھی سے محلیٰ میں ابن حزم نے (۳/ ۲۱۸)؛ ابن ماجہ (۲/۲۱۴)؛ مالک (۱/۳۲۹) اور بیہقی نے بریکٹ کے درمیان پہلا اضافہ کیا ہے اور اس کے ماقبل کا اضافہ بخاری، نسائی، ابن ماجہ اور احمد کی روایت میں ہے، دوسرا اور تیسرا اضافہ بخاری کا ہے اور آخری اضافہ بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے اور یہ صحیح ابن خزیمہ (۴/۳۴۲) میں بھی ہے۔ اس قصہ کے بارے میں حضرت علی کی روایت ترمذی (۱/۱۶۷) میں ہے، ان کا قول ہے: یہ روایت حسن صحیح ہے، احمد (رقم ۵۶۲، ۱۳۴۷) عبداللہ بن احمد نے زوائد المسند (رقم ۵۶۴، ۶۱۳)، مسند البزار( ۲/ ۱۶۴، رقم ۵۳۱۔ ۵۳۲ بیروت) ضیا ء کی ”المختارہ” (۱/۲۱۴) میں ہے کہ اس کی سند جید ہے اور حافظ نے ”فتح الباری” (۴/۶۷) میں اس سے استدلال کیا ہے کہ یہ واقعہ قربان گاہ کے پاس رمی سے فارغ ہونے کے بعد کا ہے۔
فنی تجزیہ: اس روایت پر معترض کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ عورت حالت احرام میں تھی، اس لیے اس کا چہرہ کھلا تھا، جبکہ علامہ البانی کا موقف یہ ہے کہ یہ جمرۃ العقبہ کی رمی کے بعد کا واقعہ ہے جب احرام کھول دیا جاتا ہے اور آدمی کے لیے بیوی کے ساتھ ہم بستری کے سوا ہر چیز حلال ہو جاتی ہے۔
ان کے نزدیک وجہ استدلال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ تو موڑ دیا، مگر خثعمی عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہ دیا۔
انھوں نے پہلا حوالہ حافظ ابن حجر کی ”فتح الباری” (۴/۶۷) کا دیا ہے جس میں انھوں نے ”مسند احمد” میں موجود حضرت علی کی روایت سے دلیل پکڑی ہے کہ عورت احرام میں نہیں تھی۔ حافظ صاحب رقم طراز ہیں… باب التلبیہ و التکبیر میں گزر چکا ہے کہ عطاء نے ابن عباس سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو پیچھے بٹھا لیا اور فضل نے بتایا کہ وہ تلبیہ کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے جمرۃ العقبہ کی رمی کی۔ پس فضل نے اپنے بھائی کو وہ سب کچھ بتا دیا جس کا انھوں نے اس حالت میں مشاہدہ کیا تھا۔ احتمال یہی ہے کہ خثعمیہ کا سوال جمرۃ العقبہ کی رمی کے بعد ہوا… اس بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو ترمذی، امام احمد، ان کے بیٹے اور طبری نے بیان کی ہے جو حضرت علی سے مروی ہے، یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ مذکورہ سوال رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربان گاہ کے قریب کیا گیا۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر نے امام احمد کی روایت مختصراً نقل کی ہے جو یوں ہے: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: یہ موقف (وقوف کا مقام) ہے اور عرفات سارے کا سارا موقف ہے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ عرفات سے نکل گئے، پھر آپ نے اسامہ کو اپنے اونٹ پر پیچھے بٹھا لیا اور تیزی سے چلنے لگے… آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو مغرب اور عشا کی نماز ایک ساتھ پڑھائی۔ پھر آپ نے رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر آپ مزدلفہ میں قزح کے مقام پر آئے اور وہاں ٹھہرے یہاں تک کہ وادی محسر تک آگئے اور وہاں وقوف فرمایا، پھر اپنی اونٹنی کو مہمیز لگائی تو وہ تیز تیز چلنے لگی یہاں تک کہ آپ وادی سے گزر گئے۔ پھر اونٹنی کو روکا اور فضل کو پیچھے بٹھا لیا اور چل پڑے یہاں تک کہ جمرہ (العقبہ) تک آئے اور رمی کی، پھر قربان گاہ میں آئے اور فرمایا: ”یہ منحر (قربان گاہ) ہے اور منیٰ سارے کا سارا منحرہے۔” راوی کہتا ہے: خثعم کی ایک نوجوان عورت نے فتویٰ پوچھا اور کہا: بے شک، میرا باپ بوڑھا ہے اور بڑھاپے میں اول فول باتیں کرتا ہے۔ اس پر حج فرض ہو گیا ہے۔ اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو کیا اسے حج کی ضرورت نہیں رہے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج ادا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی گردن کو موڑا تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ نے اپنے چچا زاد کی گردن کو کیوں موڑا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوان لڑکے اور لڑکی کو دیکھا تو مجھے ان کے بارے میں شیطان کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف مسائل پوچھتے رہے۔”
یہ روایت اس بارے میں قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے کہ خثعمی عورت نے یہ سوال جمرۃ العقبہ کی رمی کے بعد کیا اور وہ حالت احرام میں نہیں تھی۔
علامہ نے ”فتح الباری” (۱۱/۸) کے حوالے سے کہا ہے: ”ابن بطال کا قول ہے کہ حدیث میں فتنہ کے ڈر سے نگاہیں نیچی کرنے کا حکم ہے اور اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو نظر ڈالنا منع نہیں۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ آپ نے فضل کا چہرہ اس وقت موڑا جب وہ پسندیدگی کی وجہ سے اس کی طرف دیکھتا رہ گیا اور آپ کو فتنہ کا احساس ہوا اور یہ انسانی فطرت ہے اور اس کی کمزوری ہے کہ وہ عورتوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور ان کا دل دادہ ہوتا ہے اور اس میں دلیل ہے کہ مومنوں کی عورتوں پر وہ حجاب فرض نہیں جو ازواج مطہرات پر فرض ہے۔ اگر یہ لازم ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خثعمی عورت کو چہرہ چھپانے کا حکم دیتے اور فضل کا چہرہ نہ موڑتے اور اس میں دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا فرض نہیں، کیونکہ اجماع ہے کہ عورت نماز میں چہرہ کھلا رکھے گی، چاہے اس کے چہرے کو اجنبی دیکھ رہے ہوں۔” حافظ ابن حجر نے یہاں تبصرہ کیا ہے: ”خثعمیہ کے قصے سے ابن بطال کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ وہ حالت احرام میں تھی۔” علامہ البانی فرماتے ہیں کہ ”حافظ ابن حجر بھول گئے ہیں، کیونکہ وہ باب التلبیہ و التکبیر میں کہہ چکے ہیں کہ یہ واقعہ جمرۃ العقبہ کی رمی کے بعد کا ہے اور اس قول کی تقویت میں انھوں نے ”مسند احمد” میں موجود حضرت علی کی روایت پیش کی ہے اور حافظ صاحب کا پہلا قول قابل اعتماد ہے اور دوسرا قول ان کی بھول ہے۔”
امام ابن حزم نے اس روایت سے مختلف انداز سے استدلال کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اگرچہرہ ستر میں شامل ہوتا، جس کا چھپانا واجب ہے تو سب لوگوں کی موجودگی میں آپ اس کے ننگے چہرے پر خاموش نہ رہتے، بلکہ اسے حکم دیتے کہ اوپر سے کپڑا لٹکا لے (یعنی سدل کرلے) اور اگر اس کا چہرہ ڈھکا ہوا ہوتا تو ابن عباس کو پتا نہ چلتا کہ آیا وہ خوبصورت ہے یا بدصورت؟”
اس دلیل کی بنیاد پر علامہ البانی فرماتے ہیں: ”فرض کیا وہ خثعمی عورت حالت احرام میں تھی تو بھی ابن بطال کا مذکورہ استدلال بغیر کسی نقص کے صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ احرام والی اور بغیر احرام کے عورت کے لیے اپنے چہرے کو سدل (چہرے کے اوپر سے اس طرح کپڑا لٹکانا کہ چہرے کو چھونے نہ پائے)سے چھپانا جائز ہے، مگر حالت احرام میں واجب ہے کہ وہ نقاب سے چہرہ نہ چھپائے، وگرنہ اس پر فدیہ واجب ہو جائے گا۔ آج کل سعودی علما کا فتویٰ ہے کہ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے چہرہ نقاب سے چھپا لو اورفدیہ ادا کرو۔ اگر اجنبیوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہ ہوتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو سدل کا حکم تو دے سکتے تھے، جیساکہ ابن حزم کا قول ہے خاص طور پر، جبکہ عورت بہت حسین و جمیل تھی اور فضل کے لیے باعث فتنہ بھی، لیکن اس کے باوجود آ پ نے یہ حکم نہ دیا صرف فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔”
”الردالمفحم” (صفحہ ۴۲) میں علامہ شیخ حمود التویجری اور ان کے ہم نواؤں کی تردید اس طرح کرتے ہیں: ”شیخ اپنی کتاب کے صفحہ ۴۰۸ پر لکھتے ہیں کہ حدیث میں یہ دلیل نہیں کہ عورت کا چہرہ ننگا تھا، احتمال یہ ہے کہ ابن عباس کی مراد اس عورت کے قدو قامت اور ظاہر ہونے والے اطراف کی چمک دمک ہو۔” علامہ نے اطراف سے مراد بدن کے اطراف، یعنی دونوں پاؤں اور سر لیے ہیں۔ ”القاموس المحیط” کے حوالہ سے بیان کرنے کے بعد مسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاقول ہے کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے سات اطراف، یعنی چہرہ، ہتھیلیاں وغیرہ سجدہ کرتی ہیں”، شیخ تویجری نے یہ بات گمراہ کرنے کے لیے کہی ہے، کیونکہ لغوی اعتبار سے چہرہ اطراف میں شامل ہے۔
پھر شیخ نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۱۹ پر کہا ہے: ”اگرچہ فضل نے اس کا چہرہ دیکھا، اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ چہرہ ننگا رکھتی تھی۔”
علامہ کاقول ہے کہ یہ محض عناد ہے، کیونکہ ابن عباس کا قول ہے: ”فضل اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگا۔” اور ایک روایت میں ہے: ” وہ اس کی طرف دیکھتا رہا اور اس کا حسن اس کی نگاہ میں کھب گیا۔” چنانچہ شیخ کا قول اور ہمارے اچھے بھائی شیخ محمد بن اسماعیل اسکندرانی کا قول ”عودۃ الحجاب” (۳/۳۶۸) میں باطل قول ہے، کیونکہ ان کا قول ‘ینظر یلتفت’ سے استمرار عمل کا مفہوم نکلتا ہے، دوسرے ‘طفق’ استمرار پر دلالت کرتا ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت ہے: ‘طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ’، ”وہ دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھتے رہے” (الاعراف ۷:۲۲) اور بخاری کی حدیث ہجرت میں ہے: ‘فطفق ابو بکر یعبد ربہ’ ابو بکر اپنے رب کی عبادت کرتے رہے۔
حدیث زیربحث سے ثابت ہوا کہ خثعمی عورت حالت احرام میں نہ تھی اور اس کا چہرہ کھلا تھا جس کی طرف فضل بن عباس رضی اﷲعنہما مڑ مڑ کر دیکھتے رہے۔
تیسری حدیث
سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی (جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے) اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول، میں اس لیے آئی ہوں کہ اپنے تئیں آپ کو (بغیر معاوضہ) بخش دوں (پس آپ خاموش ہو گئے۔ میں نے دیکھا، وہ طویل عرصہ تک کھڑی رہی یا راوی نے یہ کہا: میں نے اسے عاجزی سے کھڑے ہوئے دیکھا)، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور غور سے اوپر سے لے کر نیچے تک نظر ڈالی، پھر آپ نے اپنا سر جھکا لیا، پھرجب عورت نے دیکھا کہ آپ کو اس کی کسی چیز کی حاجت نہیں تو وہ بیٹھ گئی۔
تخریج: بخاری (۹/۱۰۷)؛ مسلم (۴/۱۴۳)؛ نسائی (۲/۸۶) وغیرہ، احمد (۵/۳۳۰، ۳۳۴، ۳۳۶)؛ حمیدی (۲/۴۱۴)؛ رویانی (۲: ۶۹/۱)؛ ابویعلیٰ (۱۳/ ۵۱۴)؛ بیہقی (۷/۸۴) نے اس کا عنوان یہ باندھا ہے: ‘نظر الرجل الی المرأۃ یرید أن یتزوجہا’ (مرد کا اس عورت کو دیکھنا جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے)۔
امام بخاری نے درج ذیل ابواب میں اس حدیث کو بیان کیا ہے:
۱۔ ‘باب عرض المرأۃ نفسہا علی الرجل الصالح'(باب اس بارے میں کہ ایک عورت اپنے آپ کو نیک آدمی کے سامنے پیش کرتی ہے)۔
۲۔ ‘باب النظر الی المرأۃ قبل التزویج’ (باب اس بارے میں کہ شادی سے پہلے عورت پر نظر ڈالنا جائز ہے)۔
۳۔ ‘باب التزویج علی القرآن وبغیر صداق'(باب اس بارے میں کہ مہر کے بغیر قرآن سیکھ کر شادی کرنا جائز ہے)۔
علامہ البانی نے اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر کی ”فتح الباری” (۹/ ۲۱۰) کا حوالہ دیا ہے کہ ”اس حدیث میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ آدمی شادی کی غرض سے عورت کے خوبصورت مقامات کو غور سے دیکھ سکتا ہے، خواہ اس سے پہلے اسے اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش نہ ہو اور نہ ہی اس سے منگنی ہوئی ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا۔ یہ جملہ اس بات میں مبالغہ پر دلالت کرتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: مجھے عورتوں کی ضرورت نہیں (یعنی، جیسا کہ بعض سلسلہ ہاے روایت میں ہے) اگر مقصد اس کے پسندیدہ مقامات کو دیکھنا نہ ہوتا تو پھر تامل میں مبالغہ کے صیغے کا کیا فائدہ تھا؟ ممکن ہے ہم یہ کہیں کہ معصوم ہونے کی وجہ سے یہ بات آپ کے لیے خاص تھی، مگر ہماری تحقیق یہ ہے کہ اجنبی مومن عورتوں کو دیکھنا ممنوع نہ تھا۔ ابن العربی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ احتمال ہے کہ یہ حجاب کی فرضیت سے پہلے کا واقعہ ہو، لیکن حدیث کا سیاق اس کے قول کو ناممکن قرار دیتا ہے۔”
اعتراض: علامہ کا قول ہے کہ محمد بن اسماعیل الاسکندرانی نے ”عودۃ الحجاب” (۳/۳۶۸) میں کہا ہے: ”اس حدیث میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ اس عورت کا چہرہ کھلا تھا۔” بعینہٖ یہی جملہ حافظ زبیر صاحب نے ماہنامہ ”حکمت قرآن” اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں نقل کیا ہے، مگر صاحب کتاب کا حوالہ دیے بغیر تاکہ ظاہر کریں کہ وہ بڑے محقق ہیں جو امام البانی جیسے فاضل کی تردید کر رہے ہیں۔ علامہ البانی نے اس کے جواب میں صرف یہ کہا ہے کہ یہ قول درخور اعتنا نہیں، کیونکہ اس کا باطل ہونا واضح ہے۔
ایک عورت مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہے۔ آپ کے پاس راوی سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ کے ساتھ دوسرے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو شادی کے لیے پیش کرتی ہے، آپ اسے اوپر سے لے کر نیچے تک غور سے دیکھتے ہیں تاکہ پتا چلے کہ وہ شادی کے قابل ہے یا نہیں، ظاہر ہے یہ نظر کسی کھلی چیز پر پڑی جو چہرے کے علاوہ اور کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ اوپر والے لباس کو شادی کی غرض سے دیکھنا ایک بے معنی سی بات ہے۔
قدرتی طور پر مجلس میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھی ہوں گی، پھر اس مجلس میں وہ بیٹھی رہی۔ ایک آدمی نے اس سے شادی کی خواہش کی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بطور مہر کوئی چیز لانے اپنے گھر گیا اور وہ وہیں بیٹھی رہی۔ آخر آپ نے اس کا نکاح قرآن سکھانے کے عوض اس سے کر دیا۔ بخاری کی اس پوری روایت کی موجودگی میں کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ عورت کا چہرہ چھپا ہوا تھا، یہ ایک بے کار تاویل ہے جو قابل التفات نہیں ہے۔
علامہ البانی نے شیخ تو یجری کے اس جواب کی کہ مخطوبہ کا چہرہ دیکھنا جائز ہے یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ تویجری جانتے ہیں کہ وہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخطوبہ نہ تھی۔ پھر شیخ تویجری اور اس کے ہم نواؤں کی راے میں اجنبی لوگوں کی موجودگی میں مخطوبہ کا چہرہ دیکھنا بھی جائز نہیں۔
”الردالمفحم” میں علامہ نے شیخ تویجری کے اس قول کی بھی مخالفت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے، اس لیے ان کے لیے دیکھنا جائز تھا۔ علامہ کہتے ہیں کہ یہ کلمۂ حق ہے جسے باطل مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، کیونکہ ہر صاحب بصیرت جانتا ہے کہ بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ آیا صحابہ نے اسے دیکھا یا نہیں؟
امام نووی نے مسلم کی شرح (۹/۲۱۰) میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے قاضی عیاض کا قول نقل کیا ہے کہ ”بعض مخطوبہ کے چہرے کو دیکھنا مکروہ سمجھتے ہیں۔” یہ غلط ہے اور صریحاً اس حدیث کے خلاف ہے اور امت کے اس اجماع کے خلاف ہے کہ خریدو فروخت، شہادت اور دیگر ضروریات کے پیش نظر صرف عورت کا چہرہ اور ہاتھ دیکھنے جائز ہیں، کیونکہ وہ عورۃ (ستر) نہیں ہیں۔
چوتھی حدیث
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ ہم مومن عورتیں نماز فجر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی موجود ہوتی تھیں۔ پھر نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتی تھیں اور آخر شب کی تاریکی کی وجہ سے کوئی ہمیں پہچان نہ سکتا تھا۔
تخریج: بخاری اور مسلم نے اس کی تخریج اسی طریقہ سے کی ہے، جیسے میں (علامہ) نے اپنی کتاب ”صحیح سنن ابی داؤد” صفحہ ۴۴۹پر کی ہے۔ علامہ البانی نے حضرت عائشہ کے الفاظ ”آخر شب کی تاریکی کی وجہ سے ہم پہچانی نہ جاتی تھیں” سے دلیل پکڑی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تاریکی نہ ہوتی تو وہ پہچانی جاتیں۔ عادتاً تو وہ صرف کھلے چہرے سے پہچانی جاتی تھیں جسے تاریکی میں دیکھنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ اس سے ہمارا مقصد پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا۔
یہی مفہوم شوکانی نے اپنی کتاب ”نیل الاوطار” (۲/۱۵) میں اباجی سے نقل کیا ہے۔ پھر اس بارے میں ہمیں واضح روایت مل گئی جس کے الفاظ یوں ہیں: ”اور (تاریکی کی وجہ سے) ہم ایک دوسرے کے چہرے پہچانتی نہیں تھیں۔” اس روایت کو ابویعلیٰ نے اپنی مسند (ق۱۲ ۳۱۴) میں صحیح سند سے حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے روایت کیا ہے۔
پانچویں حدیث
فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص نے غیر موجودگی میں انھیں قطعی طلاق دے دی جس کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا (ایک روایت میں ہے کہ تین طلاقوں میں سے آخری طلاق) وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر میں عدت گزارے، پھر آپ نے کہا کہ وہ ایک ایسی عورت ہے جس کے یہاں میرے صحابہ کا آنا جانا ہے تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزارو، وہ نابینا ہے تم (اس کے یہاں) اپنے کپڑے، یعنی اوڑھنی اتار سکتی ہو (ایک روایت میں ہے کہ تم ام شریک کے یہاں منتقل ہو جاؤ اور ام شریک مال دار انصاری خاتون ہے۔ اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے۔ اس کے یہاں مہمان آتے جاتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گی۔ پھر آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرنا۔ ام شریک کے یہاں بہت زیادہ مہمان ہوتے ہیں۔ مجھے یہ ناپسند ہے کہ تمھاری اوڑھنی گرپڑے یا تمھاری پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے جسم کے اس حصہ کو دیکھ لیں جس کا دیکھنا تجھے بھی ناپسند ہو، لیکن تو ابن ام مکتوم (نابینا) کی طرف منتقل ہو جاؤ… ان کا تعلق اسی قبیلہ سے ہے جس سے تمھارا تعلق ہے (جب تیرے سر پر اوڑھنی نہ ہو گی، وہ تمھیں دیکھے گا نہیں) تو میں اس کے یہاں منتقل ہو گئی۔ جب میری عدت پوری ہو گئی تو میں نے پکارنے والے کی پکار سنی: ‘الصلٰوۃ جامعۃ’ (مسجد میں نماز کے لیے جمع ہو جاؤ) تو میں مسجد کی طرف گئی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھینماز پڑھی۔ جب آپ نے نماز ادا کر لی تو منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: بخدا، میں نے تمھیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لیے نہیں اکٹھا کیا ہے، میں نے تمھیں اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم الداری ایک نصرانی تھا۔ اس نے آکر بیعت کی ہے اور اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس نے مجھے ایک روایت سنائی ہے جو اس کے مطابق ہے جو میں تمھیں مسیح دجال کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔…)
تخریج: مسلم نے صحیح (۴/۱۹۵۔ ۱۹۶،۸/۲۰۳) میں اس کی تخریج کی ہے (مسلم نے اسے ”کتاب الطلاق” اور ”کتاب الفتن” میں روایت کیا ہے)۔ ظاہری طور پر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ قیس کی بیٹی کو لوگ اس حالت میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے سر پر اوڑھنی ہو۔ ‘خمار’ سرپوش کو کہتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح سر کو چھپانا واجب ہے، اس طرح چہرہ چھپانا واجب نہیں۔ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں دوپٹا سر سے سرک نہ جائے اور وہ چیز نہ ظاہر ہو جائے جسے ظاہر کرنا نص کے مطابق حرام ہے۔ چنانچہ آپ نے اس چیز کا حکم دیا جو اس کے لیے محتاط تھی، یعنی ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارنا جو نابینا تھے تاکہ جب وہ دوپٹا اتارے، وہ اسے دیکھ نہ سکیں۔ (ایک شبہ ہو سکتاتھا کہ ابن ام مکتوم تو اندھے تھے، مگر وہ اندھی نہ تھی اس سلسلہ میں وہ ام سلمہ سے مروی حدیث میں اللہ کے رسول کا قول ‘افعمیا وان انتما’ (کیا تم دونوں اندھی تو نہیں) کے متعلق فرماتے ہیں: اس کی سند ضعیف ہے اور متن منکر۔ میں نے اس کی تحقیق ”سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ” (رقم ۵۹۵۸) میں کی ہے (اس حدیث کا ذکر ذرا آگے چل کر کیا جائے گا)۔
علامہ البانی لکھتے ہیں کہ ”زیر نظر حدیث میں مذکور سارا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دنوں میں ہوا، کیونکہ فاطمہ بنت قیس رضی اﷲ عنہاخود کہہ رہی ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تمیم الداری کی حدیث اپنی عدت پوری ہونے کے بعد سنی۔ اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ تمیم ۹ھ میں مسلمان ہوا۔ پس اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ واقعہ آیت جلباب کے بعد کا ہے۔ چنانچہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں۔”
امام نووی ”کتاب الطلاق” کی روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں: صحابہ ام شریک کے گھر میں مہمان بن کرکثرت سے اس لیے آتے جاتے تھے، کیونکہ وہ صالح عورت تھی۔ جہاں لوگ کثرت سے آتے جاتے ہوں وہاں ایک خاتون کا قیام خود اس کے لیے گھٹن کا باعث بنتا ہے۔ گھر میں خاتون ہر وقت اوڑھنی اوڑھے نہیں رہتی کبھی نہ کبھی تو وہ سر سے سرک جاتی ہے۔ پس اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں عدت گزارنے کا حکم دے کر واپس لے لیا، حالاں کہ وہ عورت تھیں اور ان کے چچا زاد ابن ام مکتوم مرد۔ قاضی عیاض ”اکمال المعلم بفوائد مسلم” (۵/ ۶۵) میں اس حدیث کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد عورت کے یہاں جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کے بارے میں مطمئن ہوں (کہ وہ صالحہ ہے)۔”
ابو محمد بن قدامہ المقدسی نے ”المغنی” (۷/ ۴۶۵۔۴۶۶) میں فرمایا ہے: ”عورت کے لیے مرد کو دیکھنا جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کو کہا: ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا ہے تو اوڑھنی اتارے گی تو وہ تجھے دیکھ نہ پائے گا۔” اور حضرت عائشہ کا قول ہے: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے ڈھانپے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔” یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام نووی مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ”بعض لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عورت کے لیے اجنبی مردوں کو دیکھنا جائز ہے، جبکہ مرد کے لیے اجنبی عورت کو دیکھنا جائز نہیں۔” یہ قول ضعیف ہے، صحیح وہ ہے جو جمہور علما اور اکثر صحابہ کی راے ہے کہ عورت کے لیے اجنبی مرد کو دیکھنا اسی طرح جائز ہے، جس طرح اجنبی مرد کے لیے عورت کو دیکھنا۔ اللہ نے مومن مردوں اور عورتوں، دونوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ فتنہ دونوں میں مشترک ہے۔ابن العربی المالکی کی بھی یہی راے ہے۔
اب آتے ہیں اس حدیث کی طرف جس کا مضمون زیربحث حدیث سے ملتا جلتا ہے، لیکن حکم اس سے متصادم ہے۔ وہ حدیث یوں ہے: ”ام سلمہ کے آزاد کردہ غلام نبہان سے روایت ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے سامنے حدیث بیان کی کہ میں اور میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں تو ابن ام مکتوم آگئے اور یہ ہمارے لیے حجاب کے حکم کے بعد کا واقعہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اس سے پردہ کرو تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول، کیا وہ نابینا نہیں جو نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہمیں پہچان سکتا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم اسے دیکھ نہیں سکتیں!”
تخریج: اس روایت کی تخریج ابن ماجہ کے علاوہ تمام اصحاب سنن نے امام زہری کی سند سے کی ہے۔ علامہ البانی نے ”ارواء الغلیل” (۶/ ۲۱۰) میں کہا ہے کہ اس روایت کو ابوبکر الشافعی نے ”الفوائد” (۳/ ۴۔۵) میں اسامہ سے روایت کیا ہے اور ام سلمہ اور میمونہ کی جگہ حضرت عائشہ اور حفصہ کے نام ہیں۔ ابن قدامہ کی روایت میں بھی یہی نام ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ”اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی وہب بن حفص کی تکذیب ابو عروبہ نے کی ہے اور دارقطنی کا کہنا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کرتا تھا۔”
نبہان والی روایت کے بارے میں علامہ ”ارواء الغلیل” میں فرماتے ہیں کہ ”امام ذہبی نے نبہان کا تذکرہ ”الضعفاء” کے ذیل میں کیا ہے اور امام ابن حزم کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے۔ امام بیہقی نے حدیث بیان کرنے کے بعد نبہان کے مجہول ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ جن اہل علم پر مجھے اعتماد ہے، ان میں سے کسی نے اس حدیث کو ثابت نہیں کیا۔” ابن قدامہ ”المغنی” (۷/۴۶۵۔۴۶۶) میں کہتے ہیں کہ ”امام احمد کا قول ہے کہ نبہان نے دو عجیب و غریب حدیثیں روایت کی ہیں، یعنی زیربحث حدیث اور یہ حدیث کہ جب تمھارے یہاں کوئی آزاد غلام ہو تو اس سے پردہ کرو گویا کہ انھوں نے نبہان کی روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، کیونکہ اس سے صرف یہی دو حدیثیں مروی ہیں جو اصول سے متصادم ہیں۔” حافظ ابن عبدالبر کا قول ہے کہ نبہان مجہول ہے، وہ صرف زہری کی روایت سے جانا جاتا ہے۔ فاطمہ بنت قیس کی روایت صحیح ہے، اس لیے وہ لازمی طور پر قابل حجت ہے۔ امام قرطبی نے نقل کیا ہے کہ نبہان کی روایت اہل حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ابن قدامہ دونوں متعارض احادیث کی بحث کو سمیٹتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صحیح حدیث پر عمل کرنا اس حدیث پر عمل کرنے سے بہتر ہے جس کی سند مفرد ہو، یعنی فاطمہ بنت قیس کی روایت صحیح ہے اور نبہان کی روایت کی سند مفرد ہے۔
متن کے لحاظ سے دو متفق علیہ احادیث نے اس حدیث کے مضمون کی نفی کی ہے: ایک فاطمہ بنت قیس کی حدیث نے، دوسرے حضرت عائشہ کی حدیث جس کے مطابق وہ مسجد میں حبشیوں کا کھیل دیکھ رہی تھیں۔
امام ابو داؤد نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ”یہ حدیث ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ فاطمہ بنت قیس نے ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزاری۔” حافظ ابن حجر نے ”تلخیص الحبیر” میں کہا ہے کہ ابوداؤد نے دونوں حدیثوں کے درمیان بڑی خوبصورت موافقت پیدا کی ہے اور منذری نے بھی اپنے حواشی میں اس طرح کی موافقت بیان کی ہے اور ہمارے شیخ نے اس موافقت کو سراہا ہے۔ ابن قدامہ نے ”المغنی” (۷/۴۶۶) میں اثرم کا قول نقل کیا ہے کہ ”میں نے ابو عبداللہ (امام احمد) سے پوچھا: یوں لگتا ہے کہ نبہان والی روایت ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے اورفاطمہ کی روایت سب لوگوں کے لیے عام ہے، امام احمد نے فرمایا: ہاں، امام قرطبی نے ”الجامع لاحکام القرآن” (۱۲/ ۲۲۸) میں کہا ہے کہ اگر نبہان کی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ ازواج مطہرات کے احترام کے پیش نظر اسی قسم کی سختی ہے، جیسی حجاب کے معاملہ میں ان پر کی گئی ہے۔”
نبہان کے بارے میں امام احمد، امام شافعی، امام ابن حزم، امام بیہقی، امام قرطبی اور ابن عبدالبر جیسے محققین کے قول کے مقابلہ میں شیخ حمود التویجری اور اس کے ہم نواؤں نے ”فتح الباری” میں حافظ ابن حجر کے قول ‘اسنادہ قوی’، یعنی نبہان کی اسناد قوی ہیں، کا حوالہ دیا ہے۔ علامہ البانی نے ”الردالمفحم” کے صفحہ ۶۲، ۶۴ اور ۶۵ پر امام ابن حجر کے اقوال پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد ”فتح الباری” (۱/ ۵۵۰) میں ان کا قول نقل کیا ہے: ”اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے۔”
چھٹی حدیث
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز میں موجود تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اگر میں چھوٹا نہ ہوتا تو عید میں موجود نہ ہوتا(آپ عید کے لیے نکلے) یہاں تک کہ کثیر بن الصلت کے گھر کے پاس اس جگہ پہنچے جہاں عید گاہ کا نشان تھا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی (راوی کا قول ہے کہ پھر آپ نیچے اترے۔ گویا کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے نیچے بٹھا رہے ہیں پھروہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے عورتوں تک آئے اور آپ کے ساتھ بلال تھے۔ (پھر کہا: ”اے نبی، جب تمھارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی” (الممتحنہ ۶۰: ۱۲)) پھر آپ یہ آیت پڑھنے کے بعد فارغ ہوئے تو پوچھا: کیا تم اس بات پر ہو؟ (یعنی اس بات پر بیعت کرتی ہو)۔ ایک عورت کے سوا کسی نے آپ کو جواب نہ دیا۔ اس نے کہا: ہاں، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، (راوی کا قول ہے کہ آپ نے ان کو وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کا حکم دیا) (راوی کا قول ہے: پھر بلال نے کپڑا پھیلا دیا اور کہا: آؤ۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں)، پھر میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ بڑھا بڑھا کر صدقہ کو (ایک روایت میں ہے کہ وہ چھلے اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں) بلال کے کپڑے میں ڈال رہی ہیں۔ پھر آپ بلال کے ہمراہ اپنے گھر چلے گئے)۔
تخریج: اس کی تخریج بخاری (۲/ ۲۷۲) اور اسی سند سے ابن حزم (۲/۲۱۷)نے؛ ابوداؤد (۱/۱۷۴) اور اسی سند سے بیہقی (۳/ ۳۰۷)؛ نسائی (۱/۲۲۷)؛ احمد (۱/۳۳۱) اور اضافہ انھی کی ایک اور روایت کا ہے۔ اسی طرح ابن جارود نے المنتقیٰ (رقم ۲۶۳)؛ اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح(۲/۳۵۶، رقم ۱۴۵۸) میں روایت کی ہے۔
ابن حزم نے ”المحلیٰ” (۳/۲۱۶۔ ۲۱۷) میں سینوں پر اوڑھنیاں جمانے والی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نص گردن اور سینے کو چھپانے کے لیے ہے اور لازمی طور پر چہرہ ننگا رکھنے کے جواز کے لیے ہے۔ اور پھر کہتے ہیں: ”یہ ابن عباس ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں کو دیکھ رہے ہیں۔ پس ص<
کہ عورت کے ہاتھ اور چہرہ ستر میں داخل نہیں اور ان دونوں کے علاوہ جو کچھ ہے، اسے چھپانا فرض ہے۔”
علامہ البانی کاقول ہے کہ ”اس روایت میں عورتوں کی بیعت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ فرضیت جلباب کے بعد کا ہے، کیونکہ جلباب ۳ ھ میں فرض ہوا، جبکہ بیعت والی آیت ۶ھ میں نازل ہوئی۔” مزید تحقیق کرتے ہوئے علامہ البانی فرماتے ہیں کہ ”الدر” (۶/۳۰۹) میں ہے کہ ”مقاتل کے قول کے مطابق بیعت والی آیت فتح مکہ کے دن نازل ہوئی۔” پھر ”الدر” (۶/ ۲۱۱) میں ہے کہ ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت امتحان کے بعد نازل ہوئی اور بخاری میں مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ آیت امتحان صلح حدیبیہ کے دن نازل ہوئی جو صحیح روایت کے مطابق ۶ھ میں ہوئی۔اور آیت حجاب ۳ھ میں نازل ہوئی اور ایک روایت میں ہے ۵ھ میں نازل ہوئی، جیسا کہ ”الاصابہ” میں ام المومنین زینب بنت جحش کے ترجمہ میں ہے، اس کی تائید حافظ ابن حجر کی ”فتح الباری” (۲/ ۳۷۷) میں موجود قول سے ہوتی ہے کہ عید میں ابن عباس کی حاضری فتح مکہ کے بعد ہوئی۔
عورتیں عید کی نماز ادا کرنے کے بعد اسی حالت میں عید گاہ میں بیٹھی ہوئی تھیں جبھی تو ان کو پتا چلا کہ بلال کپڑا پھیلائے صدقات اکٹھے کر رہے ہیں۔ اگر چہرے چھپے ہوتے تو کیسے پتا چلتا صدقات کپڑے میں گر رہے ہیں یا زمین پر، پھر ہاتھ بڑھا بڑھا کر صدقات ڈال رہی تھیں ہاتھ ننگے تھے جن کو ابن عباس دیکھ رہے تھے۔ عہد نبوت کی مسجد اور عید گاہ کو پاکستان کی مسجدوں اور عید گاہوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں عورتوں کو اوٹ کے پیچھے بٹھایا جاتا ہے۔ اس حدیث کا مضمون وہی ہے جو اس مضمون میں مذکور پہلی حدیث کا ہے۔
ساتویں حدیث
سبیعہ بنت حارث سے روایت ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں جس کی وفات حج وداع میں ہو گئی اور وہ بدری صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن سے پہلے ہی بیوی نے بچے کو جنم دیا۔ جب وہ نفاس سے فارغ ہوئیں تو ابوسنابل بن بعکک کی ان سے ملاقات ہوئی اس حالت میں، جبکہ بیوہ نے سرمہ ڈالا ہوا تھا (اور مہندی لگا کر تیاری کی ہوئی تھی) ابو سنابل نے کہا: اپنے آپ پر مہربانی کرو یا اس قسم کی بات کہی شاید تو نکاح کرنا چاہتی ہے؟ یہ تو تیرے شوہر کی وفات سے چار ماہ اور دس دن کے بعد ممکن ہے۔ سبیعہ کا قول ہے: ”پس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ان سے ابو سنابل بن بعکک کے قول کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا: جب تونے بچہ جن لیا تو نکاح حلال ہو گیا۔
تخریج: امام احمد (۶/ ۴۲۲) نے راویوں کے دو سلسلوں سے اس حدیث کی تخریج کی ہے، انھی سے ایک سلسلہ صحیح، جبکہ دوسرا حسن ہے۔ اس کی اصل صحیحین وغیرہ میں ہے اور ان کی روایت میں ‘تجملت للخطاب’ (منگنی کے لیے وہ بنی سنوری) کے الفاظ ہیں اور ان میں یہ بھی ہے کہ ابو سنابل نے اس کا ہاتھ مانگا تھا، مگراس نے نکاح سے انکار کر دیا تھا۔ نسائی کی روایت میں ہے: ‘تشوقت لأزواج’ یعنی وہ شادی کی خاطر بنی ٹھنی تھی۔
حدیث اس بات پر واضح دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کی بیویوں کے دستور میں کم از کم ہاتھ اور اسی طرح چہرہ اور آنکھیں ستر میں داخل نہیں تھے، وگرنہ سبیعہ ان مقامات کو ابوسنابل کے سامنے ظاہر نہ کرتی اور خاص طور پر، جبکہ اس نے اس کا ہاتھ مانگا تھا اور وہ راضی نہ ہوئی تھی۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن القطان فاسی کی ”النظر فی احکام النظر” (۲/ ۶۷، ۲/ ۶۸) کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
آٹھویں حدیث
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کرنے آئی۔ اس کے ہاتھوں کو مہندی نہیں لگی ہوئی تھی، آپ نے اس سے بیعت اس وقت تک نہ لی، جب تک اس نے ہاتھوں کو مہندی نہ لگا لی۔
تخریج: یہ حدیث حسن ہے یا صحیح جس کی تخریج ابو داؤد (۲/ ۱۹۰) نے کی ہے اور ان سے بیہقی (۷/ ۸۶) اور (طبرانی المعجم الاوسط ۱/ ۲۱۹، رقم ۳۹۱۸) نے کی ہے۔ اس کے بہت سے شواہد ہیں جنھیں میں نے ”الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ و الکتاب” میں بیان کیا ہے۔
حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔
نویں حدیث
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ مجھے ابن عباس نے کہا: کیا میں تمھیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: یہ کالی عورت۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے مرگی کادورہ پڑتا ہے تو میں ننگی ہو جاتی ہوں۔ میرے لیے دعا کیجیے، آپ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر لے تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں اللہ سے دعا کروں کہ تجھے عافیت عطا کرے۔ تو اس نے کہا: میں صبر کروں گی، پھر کہنے لگی کہ میں ننگی ہو جاتی ہوں، اللہ سے دعا کریں کہ میں ننگی نہ ہوں تو آپ نے اس کے لیے دعا کی۔
تخریج: بخاری (۱۰/ ۹۴)؛ مسلم (۸/ ۱۶) اور احمد (رقم ۳۲۴۰) نے اس کی تخریج کی ہے۔
(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا نے جس عورت کی طرف اشارہ کیا، اس کا چہرہ ننگا تھا جبھی تو ان کو پتا چلا کہ اس کا رنگ کالا ہے)۔
دسویں حدیث
حضرت ابن عباس ہی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی، وہ حسین تھی اور حسین ترین لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا (ابن عباس نے کہا: نہیں اللہ کی قسم، میں نے اس جیسی عورت کبھی نہیں دیکھی تھی)۔ کچھ لوگ آگے بڑھ کر پہلی صف میں چلے جاتے تھے کہ کہیں ان کی نظر اس پر نہ پڑ جائے اور کچھ لوگ پیچھے رہ کر آخری صف میں کھڑے ہو جاتے تھے جب رکوع کرتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے دیکھتے (وہ اپنے دونوں بازووں کو ہٹا کر رکھتے تھے تو اللہ نے یہ آیت نازل کی: ”ہم تم میں سے آگے بڑھنے والوں کو بھی جانتے ہیں اور پیچھے ہٹنے والوں کو بھی۔”الحجر ۱۵: ۲۴)
تخریج: حاکم کی طرح اصحاب سنن نے اسے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اور اس کا مرتبہ بھی وہی ہے جو انھوں نے بتایا ہے۔ میں نے ”الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب” (الصلوٰۃ) میں اور ”سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ” (رقم ۲۴۷۲) میں اس کی تخریج کی ہے اور شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح گردانا ہے اور یہ بات شیخ تویجری کے قول کو قطعی باطل قرار دیتی ہے۔ اس کا قول ہے: ”جو عورت اجنبی مردوں کے سامنے ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنا چہرہ چھپا لے، خواہ وہ حالت نماز میں ہو۔” اور انھوں نے یہی بات امام احمد سے نقل کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: عورت نماز پڑھ رہی ہو تو اس کی کوئی چیز یہاں تک کہ ناخن بھی نظر نہیں آنے چاہییں (میں نے اپنی کتاب ”چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب” کے صفحہ ۳۳۶ پر امام احمد کے اس قول کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے)۔ اے اللہ کے بندو، کیا یہ ممکن ہے۔ اسے لازمی طور پر تکبیر کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھانے پڑیں گے اور رکوع، سجود اور تشہد میں ان کو نیچے کرنا پڑے گا۔ یہ اس اجماع کے منافی ہے جس کی طرف ابن بطال نے خثعمیہ کے قصہ میں یہ کہہ کر کیا ہے کہ ”اس قصہ میں یہ دلیل ہے کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ ڈھانپنا فرض نہیں، کیونکہ اس بات پر علما کا اجماع ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی، خواہ اجنبی اس کی طرف دیکھ رہے ہوں۔”
گیارھویں حدیث
ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا، وہ آپ کو اچھی لگی وہ اپنی بیوی سودہ کے پاس آئے جو خوشبو بنا رہی تھیں اور ان کے پاس عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جنھوں نے آپ کو تنہائی فراہم کی۔ آپ نے اپنی حاجت کو پورا کیا، یعنی مجامعت کی۔ پھر فرمایا: جو آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو وہ اٹھ کر اپنی بیوی کے پاس آئے، کیونکہ اس کے پاس بھی وہی کچھ ہے جو اس عورت کے پاس ہے۔
تخریج: دارمی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کی تخریج کی ہے۔ یہ الفاظ اسی کے ہیں۔ مسلم اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ ابن قطان نے ”النظر” (ق ۱۸/ ۱۲) میں اس کی تصحیح کی ہے۔ احمد نے اسے ابی کبشہ الانماری سے روایت کیا ہے اور میں نے ”سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ” (رقم ۲۳۵) میں اس کی تخریج کی ہے۔
بارھویں حدیث
عبداللہ بن محمد نے اپنے قبیلے کی ایک عورت سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول میرے یہاں آئے تو میں بائیں ہاتھ سے کھا رہی تھی اور میں بایاں ہاتھ استعمال کرنے والی عورت تھی۔ آپ نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی تو لقمہ نیچے گر گیا۔ آپ نے فرمایا: بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمھارا دایاں ہاتھ بنایا ہے یا یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے دائیں ہاتھ کو کھلا چھوڑا ہے۔
تخریج: احمد نے مسند (۴/ ۶۹، ۵/۳۸۰) میں تخریج کی ہے اور ہیثمی نے ”مجمع الزوائد” (۵/ ۲۶) میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور احمد کے راوی سب ثقہ ہیں۔ میں کہتا ہوں: اس کے راوی، جیسا کہ اس نے کہا ثقہ ہیں، وہ سب شیخین کے راوی ہیں سوائے عبداللہ بن محمد کے، وہ ابن عقیل المدنی ہے جو میرے خیال میں حسن الحدیث ہے۔
تیرہویں حدیث
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنت ہبیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ میں سونے کی بڑی انگوٹھی تھی۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھڑی سے اس کے ہاتھ کو مارنے لگے اور کہنے لگے: کیا تمھیں اس بات سے مسرت ہو گی کہ اللہ تیرے ہاتھ میں آگ کی انگوٹھی ڈال دے۔
تخریج: میں کہتا ہوں کہ اپنی خواہش کی پیروی کرنے والے لوگوں کی ناگواری کے باوجود اس کی سند صحیح ہے۔ ابن حزم، حاکم، ذہبی، منذری اور عراقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ میں نے ”آداب الزفاف” (صفحہ ۱۷۔ ۳۰) میں تحقیق کی ہے، پھر میں نے ابن القطان کی ”الوہم والایہام” (۱/۲۷۸) دیکھی، ان کا میلان بھی اس کی تصحیح کی طرف ہے۔
”جلباب المرأۃ المسلمہ” میں ان تیرہ احادیث کو بیان کرنے کے بعد امام البانی فرماتے ہیں کہ یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ اور ہاتھ ننگے کرنا جائز ہے اور یہ پہلے دی گئی عائشہ کی حدیث کی تائید کرتی ہیں۔ پس واضح ہو گیا کہ اللہ کے قول ‘اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا’ (النور۲۴: ۳۱) سے مراد بھی یہی ہے اور اللہ کا قول ‘وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ’،”اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر جما لیں” (النور ۲۴: ۳۱) اسی بات پر دلالت کرتا ہے جس پر مذکورہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ چھپانا واجب نہیں۔
اب آتے ہیں اس بنیادی حدیث کی طرف جس کی تائید میں علامہ البانی نے مذکورہ تیرہ احادیث پیش کی ہیں۔ یہ حدیث بنیادی اس لیے ہے کہ اکثر و بیش تر مفسرین نے اسی حدیث کو ابن عباس کے اس قول کی تائید میں پیش کیا ہے جو انھوں نے ‘اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا’ کی تفسیر میں کہا ہے۔ اپنی کتاب ”چہرے کا پردہ: واجب یا غیرواجب” میں صفحہ ۲۷۶ سے ۲۸۳ تک میں نے قدیم و جدید ان بیس تفسیروں کا حوالہ دیا ہے جن میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب نے ابو داؤد کی حضرت عائشہ سے روایت اور ابن عباس کے قول سے استدلال کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر مکتب فکر کے فقہا نے اپنی کتابوں میں ستر کی بحث میں اس روایت اور ابن عباس کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس حدیث کو بنیادی قرار دیا ہے۔ یہ حدیث یوں ہے:
ابوداؤد کی حضرت عائشہ سے روایت
سنن ابی داؤد ”کتاب اللباس” میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا اور فرمایا: جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ اس کے سوا نظر آئے اور آپ نے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔
تخریج: ابو داؤد (۲/ ۱۸۲۔۱۸۳)؛ بیہقی (۲/ ۲۲۶، ۷/۸۶)؛ طبرانی مسند الشامیین (صفحہ ۵۱۱۔۵۱۲) میں، ابن عدی الکامل (۳/ ۱۲۰۹)میں سعید بن بشیر نے قتادہ سے، اس نے خالد بن دریک سے، اس نے عائشہ سے۔ ابوداؤد نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے: یہ روایت مرسل ہے، کیونکہ خالد بن دریک نے حضرت عائشہ کا زمانہ نہیں پایا۔ میں کہتا ہوں: سعید بن بشیر ضعیف ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ”تقریب التہذیب” میں کہا ہے۔
علامہ البانی کا قول ہے کہ اس حدیث کی تقویت مندرجہ ذیل روایات سے ہوتی ہے:
۱۔ قتادہ نے سند صحیح کے ساتھ اسے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے ”مراسیل” میں رقم ۴۳۷ کے تحت بیان کیا ہے۔ ہشام نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک، لڑکی جب حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب نہیں کہ اس کے چہرے اور جوڑ تک ہاتھوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی دے۔” یہ ہشام ثقہ اور ثبت ہے اور شیخین کے راویوں میں سے ہے۔ قتادہ جلیل القدر تابعی ہیں، حافظ ابن حجر نے ”تقریب التہذیب” میں ان کو ثقہ اور ثبت کہا ہے۔ میں کہتا ہوں: یہ مرسل صحیح ہے جس کو بعد میں آنے والی روایت تقویت دیتی ہے، اس میں نہ راوی خالد بن دریک ہے نہ سعید بن بشیر۔
۲۔ طبرانی نے ”المعجم الکبیر” (۲۴/ ۱۴۳، رقم ۳۷۸) اور ”المعجم الاوسط” (۲/ ۴۳۰، رقم ۸۹۵۹) میں اور بیہقی نے ابن لہیعہ سے، اس نے عیاض بن عبداللہ سے، اس نے ابراہیم بن عبید بن رفاعہ انصاری سے سنا کہ اس نے اپنے باپ سے اور میرا خیال ہے اس نے اسماء بنت عمیس سے خبردی کہ انھوں نے کہا: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے پاس آئے اور ان کے پاس ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر موجود تھیں جنھوں نے کھلی آستینوں والے شامی کپڑے پہنے ہوئے تھے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو اٹھ کر باہر نکل گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پرے ہٹ جاؤ، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات دیکھی ہے جو ان کو ناگوار گزری ہے تووہ پرے ہٹ گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے تو حضرت عائشہ نے پوچھا: آپ کیوں اٹھ کھڑے ہوئے؟ تو آپ نے فرمایا: اس کی ہیئت کی طرف نہیں دیکھ رہی ہو؟ مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ اس کے سوا اس کی کوئی چیز نظر آئے اور آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پکڑا (بیہقی میں ہے کہ درست یہ ہے کہ اپنی دونوں آستینوں کو پکڑا، تخریج کے دوسرے مآخذ میں یہی ہے) اور ان سے اپنی ہتھیلیوں کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دیا یہاں تک کہ ہتھیلیوں کی انگلیوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا، پھر آپ نے دو ہتھیلیوں کو اپنی دونوں کنپٹیوں پر نصب کیا یہاں تک کہ چہرے کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس روایت میں ابن لہیعہ ہے جس کا نام ابو عبدالرحمان عبداللہ الحضرمی ہے اور وہ مصر کے قاضی تھے، وہ ثقہ اور فاضل انسان تھے۔ وہ اپنی کتابوں سے حدیث روایت کیا کرتے تھے، وہ کتابیں جل گئیں توحافظہ سے روایت کرنے لگے جس کی وجہ سے اختلاط ہو جاتا تھا، بعض متاخرین ان کی روایت کو حسن مانتے ہیں اور بعض صحیح۔ ہیثمی نے طبرانی کی ”المعجم الکبیر” اور ”المعجم الاوسط” کی اس روایت کے بعد ”مجمع الزوائد” (۵/ ۱۳۷) میں لکھا ہے کہ اس میں ابن لہیعہ ہے جس کی مروی حدیث حسن ہے اور اس کے باقی راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔ امام ابن تیمیہ نے ”مجموع الفتاویٰ” (۱۸/۲۵۔۲۶) میں ابن لہیعہ کے بارے میں انھی خیالات کا اظہار کیا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ متابعات اور شواہد میں اس کی روایت حسن کے مرتبہ سے گرتی نہیں۔ حضرت عائشہ کی حدیث اور ‘اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا’ کے بارے میں ابن عباس کی تفسیر بیان کرنے کے بعد ایک اور پہلو سے بیہقی نے حدیث کو قوی ثابت کیا ہے، ان کا قول ہے کہ اس حدیث کے ساتھ اگر صحابۂ کرام کے اس قول کو دیکھا جائے جو زینت ظاہرہ میں سے ان اعضا کے بارے میں ہیں جن کا دیکھنا اللہ نے جائز قرار دیا ہے تو حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ امام ذہبی نے ”تہذیب سنن البیہقی” (ا/۸۳) میں بیہقی کے قول کی تائید کی ہے۔ جن صحابہ کی طرف بیہقی نے اشارہ کیا ہے، ان سے مراد عائشہ، ابن عباس اور ابن عمر ہیں۔ ابن عمر کے الفاظ یہ ہیں کہ زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ پھر ذہبی کا قول ہے: ”اس کے مفہوم کو ہم نے عطاء بن ابی رباح اور سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے اور یہی امام اوزاعی کا قول ہے۔”
ابن ابی شیبہ نے ”المصنف” (۴/۲۸۳) میں روایت بیان کی ہے کہ زیاد بن ربیع نے ہمارے سامنے حدیث بیان کی، اس نے صالح الدہان سے سنی، اس نے جابر بن زید سے اور اس نے ابن عباس سے کہ انھوں نے فرمایا کہ ”’لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا’ سے مراد ہتھیلی اور چہرے کی ٹکڑی ہے۔” اسی طرح ابن القطان (النظر۱/ ۲۰) کے مطابق اسماعیل القاضی نے اسے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے مذکورہ اثر کو روایت کیا ہے جس کی سند بھی صحیح ہے۔
ابن نجیم نے ”البحر الرائق” (۱/ ۲۸۴) میں لکھا ہے کہ اسماعیل قاضی نے ابن عباس کے قول کو جید سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ قتادہ کی روایت کی سند صحیح اور نظیف ہے۔ حضرت عائشہ کی مرسل روایت اور قتادہ کی مسند روایت ایک دوسرے کے متن کی تائید کرتی ہیں اور مرسل روایت کی تائید اگر مسند روایت سے ہو تو وہ قابل حجت ہوتی ہے۔ اور تیسری حدیث جو اسماء بنت عمیس سے مروی ہے، وہ ان دونوں کی شاہد ہے۔
تقویت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ تینوں حدیثوں کے راویوں نے جو کہا ہے، اس پر عمل بھی کیا ہے۔ چنانچہ:
۱۔ حضرت عائشہ نے احرام والی عورت کے بارے میں فرمایا ہے: ”اگر وہ چاہے تو کپڑا اپنے چہرہ پر اس طرح لٹکاسکتی ہے کہ وہ چہرے سے نہ لگے (یعنی سدل کر سکتی ہے)۔” اسے بیہقی نے ”سنن” میں روایت کیا ہے۔ علامہ البانی کا قول ہے کہ احرام والی عورت کو حضرت عائشہ کی طرف سے سدل کی آپشن دینا، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں، وگرنہ وہ سدل کو احرام والی عورت کے لیے واجب قرار دیتیں۔
۲۔ قتادہ نے ‘اِدْنَاء’ والی آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ نے عورتوں پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنے ابرووں کو نہ کہ چہروں کو ڈھانپ لیں۔ طبری نے اسے روایت کیا ہے۔
۳۔ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کے بارے میں صحیح روایت ہے کہ قیس بن ابی حازم اپنے باپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر کے یہاں آئے تو حضرت ابوبکر کے پاس اسماء بیٹھی ہوئی تھیں جو سفید رنگ کی تھیں اور ان کے ہاتھ گودے ہوئے تھے اور وہ پنکھا ہلا کر اپنے شوہر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مکھیاں ہٹا رہی تھیں۔
محدثین کا مسلمہ اصول
علماے حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ جب شواہد سے مرسل روایت کی تقویت ہو جائے تووہ قابل حجت ہو جاتی ہے۔ امام احمد کا قول ہے کہ مرسلات میں ضعیف ترین روایات حسن اور عطاء بن ابی رباح کی ہیں۔ اس کے باوجود امام شافعی نے حسن کی مرسل ‘لا نکاح الا بولی وشاہدی عدل’ (ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں) کو قوی قرار دیا ہے، ان کا قول ہے کہ اگر جمہور علما مرسل پر عمل کریں تو وہ قوی ہو جاتی ہے۔ جو بات حسن کی مرسل کے بارے میں کہی گئی ہے، وہ قتادہ کی مرسل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، کیونکہ اکثر علما اس پر عمل پیرا ہیں۔ جن میں امام احمد بھی شامل ہیں، جیساکہ ابن قدامہ نے ”المغنی” (۷/۴۶۲) میں لکھا ہے کہ امام احمد نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔
بیہقی نے ”السنن الکبریٰ” میں، منذری نے ”الترغیب والترہیب” میں اور ابن حجر نے ”تہذیب التہذیب” میں اس حدیث کی تقویت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کا ”تلخیص الحبیر” میں قول ہے کہ اس حدیث کا ایک شاہد ہے جسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔ زیلمی اور امام شوکانی نے بھی اس کی تقویت کی ہے۔
اسی اصول کے پیش نظر سنن ترمذی ان احادیث سے بھری پڑی ہے جو حسن لغیرہٖ ہیں۔
حاکم ”مستدرک” (۱/۳۱۹) میں صلوٰۃ تسبیح کی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تبع تابعین کے زمانہ سے لے کر ہمارے زمانہ تک ائمہ اس حدیث پر مسلسل عمل کرتے آرہے ہیں۔ اور لوگوں کواس کی تعلیم دیتے رہے ہیں، انھی میں عبداللہ بن مبارک ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ”مجموع الفتاویٰ” (۱۳/ ۳۴۷) میں اس اصول پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے جسے علامہ البانی نے اپنی کتاب ”الردالمفحم” کے صفحہ ۹۶۔۱۰۰ پر نقل کیا ہے۔
ایک طرف تو حضرت عائشہ کی روایت کا یہ حال ہے کہ امام طبری سے لے کر ڈاکٹر وہبہ الزحیلی تک ہر مفسر اس سے استدلال کرتا ہے اور امام ابوحنیفہ سے لے کر یوسف القرضاوی تک ہر فقیہ اسے بطور دلیل پیش کرتا ہے تودوسری طرف تویجری، سندی اور عدوی جیسے سعودی علما اس حدیث پر ٹوٹے پڑے ہیں۔ اس حدیث پر ان کا سب سے بڑا اعتراض اس کے دو راویوں خالد بن دریک پر ہے، اس اعتراض کے جواب میں علامہ نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن میں دونوں راوی موجود نہیں ہیں۔ پھر ان دونوں راویوں کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے معترضین نے جو حوالے دیے ہیں، ان میں ان کی علمی دیانت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ”الرد المفحم” کے صفحہ ۸۰ پر فرماتے ہیں کہ ”مخالفین کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ ناقدین حدیث کے صرف ان اقوال کا ذکر کریں جن میں راویوں پر جرح کی گئی ہے اور ان اقوال کو چھپا لیں جن میں ان راویوں کو ثقہ قرار دیا گیا ہے”۔ مثال کے طور پر عبدالقادر السندی نے اپنی کتاب ”الحجاب” میں امام ذہبی کی ”میزان الاعتدال” کا حوالہ دیا ہے کہ سعید بن بشیرمنکر الحدیث ہے، مگر اسی ”میزان الاعتدال” میں محدثین کے درج ذیل اقوال کو قلم زد کر دیا ہے جس سے تنقید کا توازن بگڑ گیا ہے:
۱۔ ابو حاتم کا قول ہے: ‘محلہ الصدق’ (وہ سچائی کے مقام پر ہے)۔
۲۔ شعبہ کا قول ہے کہ وہ ‘صدوق اللسان’ (زبان کا بہت سچا ہے)۔
۳۔ ابن الجوزی کاقول ہے: شعبہ اور دحیم نے اسے ثقہ گردانا ہے۔
۴۔ ابن عدی کا قول ہے: ”مجھے ان کی روایت میں حرج نظر نہیں آتا اور اس پر صدق غالب ہے۔” ہمارے نزدیک تعدیل جرح پر مقدم ہے، خاص طور پر اگر وہ شعبہ اور دحیم جیسے سخت گیروں کی طرف سے ہو۔
ابو حاتم کا قول ہے: ”کتاب الضعفاء” میں سے اسے نکال دیا جائے۔
شیخ سندی نے ان اقوال کو تو لے لیا جو اس کی مرضی کے تھے اور مذکورہ بالا اقوال کو چھوڑ دیا جن سے ان کی راے کی نفی ہوتی تھی۔ اس نے ابن عدی کی ”الکامل” کے علاوہ اور مآخذ کے حوالے دیے ہیں جن میں ایسے اقوال ہیں جو سعید بن بشیر کے شدید ضعف کی نفی کرتے ہیں۔
۱۔ ”التاریخ الکبیر” للبخاری (۲/۱/۴۶۰)۔ بخاری کا قول ہے کہ لوگ اس کے حافظے کے بارے میں کلام کرتے ہیں۔
ابن عساکر نے ”التاریخ” (۷/۲۱۵) اور ابن حجر نے ”تہذیب التہذیب” میں کہا ہے کہ وہ گوارا ہے۔
۲۔ اگر آپ ابن ابی حاتم کی ”الجرح و التعدیل” کی طرف رجوع کریں تو اس میں آپ کو یہ اقوال ملیں گے:
ا۔ ابن عیینہ کا قول ہے کہ وہ حافظ ہے (زیادہ صحت کی موجودگی میں معمولی سی غلطی معاف ہوتی ہے، جیسا کہ ابن حبان کا قول ہے کہ بڑے بڑے ثقہ ائمہ بھی وہم اور غلطی سے مبرا نہیں)۔ اتقان (پختگی میں تھوڑی سی کوتاہی راوی کو صحیح سے حسن کے درجہ تک تو اتار سکتی ہے، مگر ضعف کے درجہ تک ہرگز نہیں)۔
ب۔ ابو زرعہ دمشقی سے روایت ہے کہ ”میں نے دحیم سے پوچھا: جن لوگوں کا تو نے زمانہ پایا ہے، ان کا سعید بن بشیر کے بارے میں کیا قول ہے؟ تو اس نے جواب دیا: وہ اسے ثقہ گردانتے ہیں اور وہ حافظ ہے۔”
ج۔ میرے باپ اور ابوزرعہ نے کہا ہے کہ ”ہمارے یہاں اس کا مقام سچائی کا ہے۔”
د۔ میں نے اپنے باپ سے ان لوگوں کا انکار سنا ہے جو اسے ”کتاب الضعفاء” میں داخل کرتے ہیں۔ اس کا قول ہے کہ ”اسے اس کتاب سے نکالا جائے۔”
۳۔ ابن عدی نے ”الکامل” (۳/۳۷۶) میں اس کے حالات کے آخر میں کہا ہے: ”ولید بن مسلم اس سے جو روایت کرتا ہے، اس میں کوئی مضایقہ مجھے نظر نہیں آتا۔”
۴۔ ابن الجوزی نے ”الضعفاء” (۱/ ۳۱۵) میں ان لوگوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد، جو اسے ضعیف سمجھتے ہیں، لکھا ہے: ”شعبہ اور دحیم نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔