ہم اپنے بارے میں کئ بار عرض کر چکے ہیں کہ ہم جدی پشتی بریلوی تھے ،دادا جی کا نام پیراں دتہ تھا ،، خود پانچویں کلاس میں بھنگالی شریف بیعت کی تھی اور پھر چل سو چل ـ ہم مئ کے مہینے میں پیدا ھونے والوں کی ایک خاصیت مشترکہ ہے کہ ہم پرفیکشن کے دلدادہ ہوتے ہیں ،، کنارے کنارے رہ کے نہ ہم سے نیکی ہوتی ھے نہ گناہ ہوتا ھے ،، گویا ؎
ہم دل والوں کی بات مت پوچھو جی ،
پیار کیا تو پیار کیا، نفرت کی تو نفرت کی ـ
جب بچپن میں بھانڈوں کا تماشہ دیکھا کرتے تھے جس میں لڑکے لڑکیوں والے کپڑے پہن کر اور میک اپ کر ناچتے اور گاتے تھے ، بجلی نہیں ہوتی تھی مشعلوں کی روشنی میں یہ کام ہوتا تھا ، رات بھر میں چار پانچ لڑکیاں باری باری آتی تھیں اور گا بجا کر صبح کر دیتی تھیں ـ میدان میں ایک کڑاھی رکھی ہوتی تھی جس میں مٹی کا تیل ھوتا تھا ، مشعل والے گھوم پھر کر جب مشعل کی لو دھیمی ہوتی تھی تو اسی تیل بھری کڑاھی میں مشعل گھسا کر اس کو ری فیول کرتے تھے ،، ہم ہمیشہ اس کڑاھی کے پاس بیٹھا کرتے ،، جب وہ مشعل گھسا کر اٹھاتے تو تیل کے گرم گرم قطرے ہماری گود اور رانوں پر گرتے مگر ہم نے کبھی پرواہ نہ کرتے ، صبح ہماری رانوں پر سے چمڑی اتری ہوئی ہوتی اور رانیں خون کی طرح سرخ ،، امی جی اس کو الرجی سمجھتیں اور اس دن اسکول کی چھٹی کرا دیتیں اور ہم جی بھر کر دن بھر سوتے ـ
جب دین کی طرف آئے تو سیدھے منبر پر پہنچے ـ پستول کا لائسنس بنانے گئے تو سیدھے ڈی سی آفس میں جا گھسے ،، ڈی سی کامران لاشاری صاحب جو کہ کوئی اھم میٹنگ کر رہے تھے سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہمیں مونہوں منہ دیکھنے لگ پڑے ،، نہایت اطمینان اور تجوید کے ساتھ ان کو سمجھایا کہ مجھے پستول کا لائسنس چاہیئے ،، انہوں نے کہا کہ اسلحہ برانچ سے فارم لے آؤ ،، ہم گئے اور اسلحہ فارم لے کر پھر ڈی سی صاحب کے دفتر ،، انہوں نے تعجب سے دیکھا کہ یہ تو کنوارہ پیپر لے آئے ہیں ،کچھ لکھا لکھایا ہی نہیں ،، میری طرف دیکھا ،، پھر دیکھا اور خالی فارم پر دستخط کر کے دے دیا کہ باہر ٹائیپسٹ سے ٹائپ کروا لیں ،اور پھرایس ایس پی آفس لے جائیں ،، میں نے فارم فل اپ کرایا اور ایس ایس پی آفس چلا گیا ، انہوں نے جب دیکھا کہ ڈی سی صاحب تو پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں تو انہوں نے بھی دستخط کر کے کہا کہ پچھلی سائڈ اسپیشل برانچ میں لے جائیں ،
اسپیشل والوں نے جب دیکھا کہ ڈی سی اور ایس ایس پی کے دستخط تو پہلے ہی ہو چکے ہیں انہوں نے دستخط کر کے فارم ہاتھ میں پکڑایا اور کہا کہ یہ گوجرخان ڈی پی او کے آفس لے جائیں ، ڈی پی او نے بھی کھڑے کھڑے دستخط کر کے کہا کہ اس کو تھانے لے جائیں ، عصر کے بعد تھانے پہنچے تو ایس ایچ او نے بھی دستخطوں کی لائن دیکھ کر جھٹ سائن کر دیئے اور کہا کہ صبح اپنے نمبردار سے دستخط کروا کر اسلحہ برانچ جمع کرا دینا ،، ہم نے اسی وقت جا کر گرما گرم نمبردار محمد حسین بھٹی سے دستخط کروائے اور اسلحہ برانچ جمع کرا دیا ،، زندگی میں یہی معمول رہا اللہ پاک سے منظوری لے کر نکلے اور پھر دستخط ہوتے چلے گئے ـ
ایک سول کیس کرنا تھا ، پہلی دفعہ کچہری گیا تھا ،کسی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ کیس وہ سامنے والے جج کے پاس لگتا ہے ،، میں منہ اٹھا کر جج کی طرف چل دیا ،چیمبر کا دروازہ کھُلا ھوا تھا اور جج منصف خان منہاس کے پاس ریزیڈنٹ میجسٹریٹ رشید احمد رازی صاحب بیٹھے ہوئے تھے [ رازی صاحب کا نام بعد میں پتہ چلا اور وہ میرے قریبی دوست بھی بن گئے تھے ، جج منصف خان منہاس سے بھی دوستی ھو گئ تھی ] میں نے سیدھا جا کر کہا کہ سر جی یہ مسئلہ ہے اور کیس کرنا ہے ،، جج صاحب بھی بہت سادے تھے ،، میری بات سن کر مسکرائے ، ایک پیپر اٹھایا اس پر متعلقہ دفعہ لکھی اور کہا کہ کسی وکیل کے پاس جائیں اور اس کو کہیں کہ اس دفعہ کے تحت درخواست لکھ دے ،، اللہ پاک پر توکل اور اس کی محبت نے ساری زندگی اک عادت سی ڈال دی کہ اوپر سے نیچے کی طرف چلتے چلے گئے اور ہر دفتر کا دروازہ کھلتا چلا گیا ـ
خیر عرض کر رہا تھا کہ پانچویں کلاس میں بیعت کی اور چھٹی یا ساتویں سے باقاعدہ چلہ کشی شروع کی ـ لوگ بریلویت میں گھٹنے گھٹنے ہوتے ہونگے ہم ناک تک ڈوبے ہوئے تھے ،، جو لوگ سلفی گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں وہ جب بریلویت کی تفصیلات بیان کرتے ہیں تو ھاسا نکل جاتا ھے ، مثلاً ایک سلفی دوست نے پوچھا کہ کیا بریلوی کے پیچھے نماز ہو جاتی ھے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہو جاتی ہے جو مسجد بھی سڑک کنارے مل جائے اتر کر نماز پڑھ لیں ،، اس پر انہوں نے کہا کہ مشرک کے پیچھے نماز کیسے ہو سکتی ھے ؟ وہ یہ بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کرتے ہیں، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے بریلویت کے بارے میں نہ بتائیں آپ نے یہ سب کچھ کتابوں میں پڑھا ہے جبکہ میں خود بنفسِ نفیس بریلوی رہا ہوں ، میرے تو ذہن مین کہیں دور دور تک یہ نہیں تھا کہ اللہ کا کوئی شریک ہے ،یا یہ بابے اللہ کے شریک ہیں ،، کلمے کی لا میں، اس وقت بھی میں اتنا ہی خالص تھا جتنا آج خالص ہوں ،، کتابی بریلویت اور ہے اور سماجی بریلویت کچھ اور ،، کتابی دیوبندیت بھی کوئی اور چیز ہے اور عملی دیوبندیت بھی کچھ اور ـ بریلوی کتابوں میں یا صوفیا کی شاعری اور قوالیوں میں جو کچھ کہا جاتا ھے شاید دو فیصد بریلوی بھی وہ اعتقاد نہیں رکھتے ـ مثلا شاعری میں کہا جاتا ھے کہ خود خدا ان اولیاء کا روپ دہار کر آتا ھے ،جیسے ھندوؤں میں بھگوان کے اوتار آتے ہیں ،، مثلا
کدی خواجہ پیا بنڑ آناں ایں ،کدی گنج شکر بنڑ جاناں ایں ـ
نت نویں تو روپ وٹاناں ایں ،میں پھڑیا جاں جے میں ہوواں ـ
تیرے ھندیاں سوہندیاں محبوبا تیرا مجرم ہاں جے میں ہوواں ـ
مگر عملی طور پر کوئی بریلوی ان بزرگوں کو خدا کا یا رسول اللہ ﷺ کا اوتار نہیں سمجھتا ، اللہ کے پیارے سمجھ کر سفارش کی تلاش میں رہتے ہیں ـ
اسی طرح دیوبندی سوانح عمریوں میں جس طرح ان کے بزرگوں کو مافوق الفطرت ہستیاں اور اصحابِ تکوین نیز مشکل کشا بیان کیا گیا ہے عملی طور پر کوئی دیوبندی ایسا نہیں سمجھتا ـ
ایسا ہی کچھ معاملہ قادیانیوں کے ساتھ بھی ہے ، ان کی کتابوں میں جو کچھ لکھا ھوا ہے ، ان کی اکثریت ان سے واقف نہیں ، موٹی موٹی باتیں ان کو بتائی گئ ہیں ، ان کی کتابوں میں مرزا غلام احمد کے جتنے بھی دعوے لکھے گئے ہیں کہ میں محمد بھی ہوں اور احمد بھی ہو اور کرشنا بھی ہوں اور فلاں بھی ہوں ،، عملی طور پر قادیانی اس کو محمد اور احمد ہر گز نہیں سمجھتے ، کسی قادیانی کو پاس بٹھا کر پیار سے اس کو مرزائی لٹریچر پڑھا دیں تو بیچارہ خود پریشان ہو جاتا ھے ـ ہمارے ایک دوست ہیں ایکس قادیانی ہیں ،جامعہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہیں درسِ نظامی سمیت دورہ حدیث بھی کر رکھا ہے ،، دنیاوی تعلیم میں بھی ماسٹر کر کے امریکہ میں جاب کرتے ہیں پلٹ کر مسلمان ہو گئے ہیں ،، ان کا قولِ زریں ہے کہ مجھے سب سے زیادہ نفرت مرزا غلام احمد قادیانی سے ہے ،، اور مجھے سب سے زیادہ ترس قادینیوں پر آتا ہے ـ
وہ سب کچھ مسلمانوں سے بڑھ کر کر رہے ہیں ـ بہترین اخلاق کے ساتھ پانچ نمازوں کے پابندی کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھنا اور اللہ کے آگے گڑگڑانا ، مسلمانوں سے زیادہ اپنی کمائی خلیفہ کے ہاتھ میں دے دینا ،، مگر اپنے والدین کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں خود قادیانی لٹریچر پڑھنے کا وقت نہیں یا عزم نہیں ،،
جو کوئی پلٹ آتا ھے وہ کٹی پتنگ بن کر رہ جاتا ھے ، قادیانیوں سے کٹ جاتا ھے اور مسلمان اعتبار کرنے کو تیار نہیں ، نہ کوئی ان کو رشتہ دیتا ھے نہ رشتہ کرتا ھے ، بلکہ وہ کسی شادی میں شریک ھوں تو مومنین اس شادی کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں ، کوئی کام کاروبار کرے تو مومنین اس کی دکان سے سودا خریدنا کفر سمجھتے ہیں ـ
ان کے بقول دوسری بات یہ کہ جو لوگ عام طور پر قادیانیت سے توبہ کر کے پلٹتے ہیں ان کی اکثریت علمی دلیل کی وجہ سے نہیں بلکہ کئی دیگر وجوہات کی بنا کر آتے ہیں ،، کچھ وہاں کی گھٹن کی وجہ سے ، کچھ مالی بوجھ کی وجہ سے ، کچھ فنڈز میں خرد برد کرنےکی جوابدہی سے فرار ہو کر مسلمان بن جاتے ہیں اور مسلمانوں میں خوب خدمت کراتے ہیں ، اسی طرح بعض کسی لڑکی محبت میں بھی مسلمان بن جاتے ہیں ،جس طرح بعض مسلمان لڑکے کسی لڑکی کی محبت میں قادیانی بن جاتے ہیں ـ
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان نوجوانوں سے دوستی کر کے ان کو پاس بٹھا کر ان سے بات کی جائے ، ان کو پیار محبت سے سمجھایا جائے تو کام ہو سکتا ہے ، مجرد گالی گلوچ سے وہ وہاں مزید جم جاتے ہیں ،، ان کو راہ دیں اسپیس دیں ،،