ایسا نہیں ھوتا کہ بندہ گاجریں کھائے اور رنگا رنگ کی کھائے اور بے تحاشہ کھائے اور اس کے پیٹ میں درد نہ ھو !
ھندو ازم رنگ برنگے مذاھب نگلتا تو رھا مگر خود اس کا حال بھی برا ھوتا جا رھا تھا،، صاف ستھرے عقائد یونانی اور ایرانی فلسفوں کی ملاوٹ سے چوں چوں کا مربہ بن گئے تھے،، جس کے خلاف اس کے اندر سے بغاوتیں جنم لیتی رھیں ،،ان باغیوں کو راضی کرنے کے لئے عقائد کو زگ زیگ کیا جاتا رھا،، اور آخر کار تنگ آ کر تمام عقائد اور دنیاوی طور پر اٹھائے جانے والے سوالات سے بچنے کے لئے جو آخری حل سوچا گیا وہ حل بنا بنایا ،پکی پکائی تازہ روٹی کی مانند ھمیں پکڑا دیا گیا،جس پر ھم نے سبز رنگ چڑھایا اور اسے اسلام کی روح قرار دے کر اپنا لیا !
برھمنوں نے ھندو مذھب کی تشکیل جدید میں نجات ” مُکتی ” کو جوھر کے طور پر اپنایا،،اس مُکتی کا دارو مدار اس بات پر رکھا کہ انسان ذاتِ الہی کا مکمل عرفان حاصل کرے ،اس عرفان کے حصول کا طریقہ یہ ھے کہ انسان خارجی اور محسوس اشیاء سے توجہ ھٹا کر فکر اور مراقبے کی زندگی گزارنے پر تیار ھو جائے، اس ریاضت اور عبادت کے نتیجے میں انسان اپنے شہوانی اور جسمانی تقاضے مار دیتا ھے ، نیز اپنی سماجی ذمہ داریوں سے بھی کنارہ کش ھو جاتا ھے،جس کے نتیجے میں اس مذھبی ایلیٹ کلاس کا جنم ھوتا ھے، جو رب کے فرنچائزڈ مراکز ھوتے ھیں جہاں سے لوگوں کی داد رسی کی جاتی ھے ،، مشکلیں آسان کی جاتی ھیں،، روحانی آپریشن ھوتے ھیں،،
ھندو معاشرے میں یہ فرنچائزڈ مراکز سادھو کہلاتے ھیں ،ھمارے یہاں یہ پیر ھوتے ھیں،،جو زندہ ھوں تو لاکھ کے مگر مرنے کے بعد سوا لاکھ کے ھو جاتے ھیں،، سات لطیفے ھندو یوگ میں ھیں یہی ساتھ لطیفے ٹھیک اسی جگہ ھمارے یہاں بھی ھیں ! گیتا میں یہ بھی بتایا گیا ھے کہ خدا ( روح ) کی دو فطرتیں ھیں ،،ایک اعلی اور ایک ادنی ،، پہلی صورت اعلی ترین اور قائم بالذات ھے، ایک طاقتور روحانی قوت ھے جس کی قوت سے کائنات قائم ھے،، دوسری فطرت مادیت سے ملوث ھے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کا آدھا وجود مادی ھے،بلکہ اس کامطلب یہ ھے کہ مادہ خود کوئی چیز نہیں ھے،بلکہ خدا خود مادے میں رواں دواں اور حرکت پذیر ھے ،،
اس کے لئے ھمارے یہاں حدیثِ قدسی کوٹ کی جاتی ھے کہ ابن آدم جب زمانے ” دھر ” کو گالی دیتا ھے تو درحقیقت مجھے گالی دیتا ھے کیونکہ میں ھی تو زمانہ ھوں،،انا الدھر !
گیتا کے بقول جب کبھی زمانے میں خیر اور شر کا تناسب بگڑتا ھے اور شر غالب آنے لگتا ھے تو خدا ” کی روح اسفل ” ایک نئ شکل میں ظہور پذیر ھوتی ھے اور کسی اوتار کی صورت پیدا ہو کر کوشش کر کے نیکی کو غالب کرتی ھے،، یہ کانسیپٹ ساؤتھ انڈین فلموں میں فراوانی سے دستیاب ہے۔
ھمارے یہاں نبی کریمﷺ کو صوفیاء کے یہاں یہی مقام دیا جاتا ھے،، ان کے نزدیک نبیﷺ کریم حقیقت میں رب کے نور کا ظہور ھیں، یعنی وھی مادے سے تعلق رکھنے والا نورِ خدا ،،وہ عام لوگوں کے لئے پردہ پوش ھیں ،مگر جو لوگ اپنے قلب کو مصفی کر لیتے ھیں حقیقتِ محمدی ان کے قلب پر منعکس و منکشف ھوتی ھے وہ اب بھی ان سے رابطے میں ھیں،، حضورﷺ سے ملاقاتیں ھوتی ھیں،، دعوتیں ھوتی ھیں،، مدارس اور منہاج کا افتتاح کروایا جاتا ھے، ایک ھے نبی کریمﷺ کی ظاھر ھستی جو محمد بن عبداللہ کہلاتی ھے،،مگر دوسری ہستی حقیقت محمدی ھے کہ رب کی روح نے مادے سے رابطے کے لئے ان کی شکل میں ظہور فرمایا ھے ،،اس سے عام لوگ جس میں صحابہ بھی شامل ھیں واقف نہیں ھیں،سوائے دو یعنی، ابوبکر،ؓ اور علیؓ کے !
مادہ اور روح دونوں لافانی ھیں البتہ مادہ تغیر کو قبول کرتا ھے،یعنی زخمی اور بوڑھا ھوتا ھے،، جبکہ روح بلا تغیر رھتی ھے ! مادے پر جو بھی تغیرات اور کیفیات وراد ھوں روح ان سے بالکل غیر متأثر رھتی ھے ! یہ سارے عقائد اصلاً گیتا کے ھیں جو مختلف اصطلحات کے ذریعے اسلامائز کیئے گئے ھیں ! ان ساری باتوں کی ایک سالک کو سالوں تک خبر بھی نہیں ھونے دی جاتی،، اور جو سوال نہ کرے اسے ساری زندگی اس حقیقت کا پتہ نہیں چلنے دیا جاتا کہ وہ کس کے عقائد کو لئے چل رھا ھے،،
البتہ جب علماء آپس میں پیر اور مرید بنتے ھیں تو مختلف آیات اور احادیث کو موڑ توڑ کر اس میں سے اسلام کشید کرتے ھیں ،، جس کی ایک مثال میں نے حدیثِ قدسی سے دے دی ھے ! یہ باتیں باھر عام لوگوں سے کرنا تصوف کی دنیا میں ھائی ٹریژن یا غداری جیسا جرم ھے،، جس کی سزا اس بندے کو اسی دنیا میں مل جاتی ھے !
ترکِ دنیا اور رھبانیت !
اسلام سے پہلے جو تمدن کش رجحانات پائے جاتے تھے ان میں سب سے نمایاں یہ تھا کہ یہ دنیاوی زندگی ایک لعنت ھے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا انسانی نجات کے لئے ضروری ھے،بدھ مت نے ھندوستان میں اس رجحان کو زیادہ تقویت بخشی،اس نے مذھب کا دارومدار ھی ترک خواھشات پر رکھا اور نروان یا فنائے کامل کو مقصودِ حیات قرار دیا ! اس نے ایک نہایت وسیع منظم نظام خانقاھی تخلیق کیا ،،نتیجہ یہ ھوا کہ ھزاروں لاکھوں انسان جو اعلی درجے کی ذھنی صلاحیتیں رکھتے تھے اور انسانی سماج کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے تھے دنیا اور اس کے علائق سے الگ ھو کر جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں نفس کشی کی مشقوں میں اس زندگی کے جوھر کو ضائع کرنے میں لگ گئے !
ان کے لئے انسان ذکر و فکر اور مراقبوں کے لئے پیدا ھوا تھا،اسے اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ انسانیت کے تمدن کے وسائل کو ترقی دی جائے اور اسے اس کی مادی پستی سے بلند کر کے انسانی تعلقات کو ایک بہتر نظام اور اصول پر قائم کیا جائے بلکہ روح کی نجات اور تسکین کا ذریعہ صرف یہ قرار دیا کہ آدمی کسی گوشے میں بیٹھا زبان،کان ،آنکھ اور دل و دماغ کے دریچے بند کیئے صرف مراقبے اور فکر میں زندگی گزار دے ! نتیجہ یہ ہوا کہ تمام تر سائنسی ایجادات کا سہرا یورپ کے سر ہے، تمام تر دوائیوں اور ویکسینز کا سورس یورپ ہے جن کی لیبارٹریز ان کی خانقاہیں ہیں۔
آج میڈیکل نے یہ ثابت کیا ھے کہ جب کوئی انسان کسی ایسی جگہ ڈیرہ جما لے جہاں کوئی آواز رسائی نہ رکھتی ھو تو انسانی دماغ خود آوازیں تخلیق کر کے سنتا ھے،، اور آنکھوں کو سراب تخلیق کر کے دکھاتا ھے ! دوسری جانب عیسائیت نے بھی رھبانیت اور گوشہ نشینی کو اختیار کر لیا تھا،یوں نیک لوگ معاشرے سے الگ تھلگ ھو کر بیٹھ رھے اور بدکاروں کو کھل کھیلنے کا موقع فراھم کر دیا،، انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ انسانیت اس وقت کس عذاب سے دوچار ھے بلکہ انہیں صرف اپنی نجات کی فکر تھی، شادی بیاہ کو ترک کردیا گیا بلکہ نیک ھی اسی کو سمجھا جاتا جو شادی سے پرھیز کرتا ،،یوں رومن سلطنت بدکاری کے سیلاب میں گِر کر رہ گئ، اور بادشاہ کو شادی پر آمادہ کرنے کے لئے انعامات کا اعلان کرنا پڑا اور ٹیکس میں چھوٹ دینی پڑی،، بادشاہ خود شادی کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار تھا، تا کہ جوانوں کو شادی کی طرف مائل کیا جائے !
اس رجحان اور اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو نبی اکرمﷺ کے عملی طور پر اتنی شادیاں کرنے اور شادی کو اپنی سنت قرار دے کر اس سے پرھیز کرنے والے کو اپنی امت سے خارج کر دینے کی دھمکی کو سمجھنا آسان ھو جاتا ھے !
الغرض ھندومت ،بدھ مت اور عیسائیت میں راھبانہ سوچ کے غلبے نے مل کر نوفلوطینی فکر کو جنم دیا ،یہ تمدن کش راھبانہ فلسفہ حقیقت کے نام پر حقیقت کا منکر تھا اور مراقبہ اور کشف کو ادراکِ حقیقت کا اصل ذریعہ قرار دیتا تھا ،وجدان کو حواس پر اور کشف و الہام کو عقل پر ترجیح دیتا تھا ، اس نے خدا کے ساتھ اتصال اور فنا فی اللہ کا ایک مہمل نظریہ دیا پیش کیا ،جس نے بڑے بڑے عقلاء، علماء اور اعلی ذھنی صلاحیتوں کے حامل آدمیوں کو زندگی کی کشمکش اور تمدن کی خدمت سے ھٹا کر تزکیہ نفس کی مشقوں پر لگا دیا !
یونانی فلسفے میں تصوف کی آمیزش پہلے پہل فرقہ فلاطونیہ جدیدہ کی بنیاد پڑنے سے ھوئی، اس فرقہ کا بانی ایک مرتد عیسائی امونیس سیکاس تھا ،یہ اسکندریہ میں تیسری صدی عیسوی میں پیدا ھوا – اس نے اپنے فلسفے کی بنیاد اس مسئلے پر رکھی کہ علم مطلق انسان کو اسی وقت حاصل ھو سکتا ھے جب وہ تزکیہ باطن کے زریعے بیرونی اثرات سے یہانتک مستغنی ھو جائے کہ عالم و معلوم متحد ھو جائیں ( یہ ھے ھمارے تصوف کا اصل ماخذ نہ کہ ابوبکرؓ و علیؓ اور نہ ھی قرآن و سنت ) اس کا خیال تھا کہ عالم میں تین قوتیں ھیں،جوھر، عقلِ فعال ، اور قوتِ مطلق !
انسان کی سعادت یہ ھے کہ مکاشفہ کے ذریعہ اپنے باطن کا تزکیہ کرے کہ عقلِ فعال سے اس کا اتصال ھو جائے، امونیس سیکاس کے بعد اس کا شاگرد پلاٹینس جو 203 عیسوی میں پیدا ھوا اپنے استاد کی مسند پر بیٹھا،یہ اکثر روزہ دار رھتا اور عزلت کی زندگی گزارتا،اس کا خیال تھا کہ اس کو اپنی زندگی میں متعدد بار رؤیتِ باری تعالی نصیب ھوئی ھے، اور چھ مرتبہ اس کا جسم ،جسمِ خداوندی سے مماس ھوا ھے، اس کے نزدیک دنیا محض خواب و خیال ھے،خدا سے اتصال کامل انسان کی اصل سعادت ھے یہ اتصال اتنا کامل ھو کہ انسان اپنی ذات کو ذاتِ باری میں فنا کر دے،،
لیکن یہ محض کشف و مراقبے سے حاصل نہیں ھوتا بلکہ اس سعادت کا حصول اسی وقت ممکن ھے جب انسان خودی کو فنا کر کے بے خود ھو جاتا ھے اور اپنی شخصیت کو فنا کر کے فنا فی الکل کے رتبے پر پہنچ جاتا ھے، اس بے خودی اور فنا فی اللہی کی حالت میں اصلی حقیقت کے راز اس پر کھل جاتے ھیں اور انسان اس چیز سے متحد ھو جاتا ھے جس میں میں وہ اپنے کو فنا کر رھا تھا ،اور اس ھستی سے متصل ھو کر دائمی بقا پا جاتا ھے،، اس فنا سے بقا تک اور شخصیت سے کلیت تک اس کو صعود ھو جاتا ھے،یہی اس کی حیاتِ جاودانی اور حقیقی سعادت ھے !
آپ حضرات دیکھ سکتے ھیں کہ فنا اور بقا سمیت یہ سب اصطلاحات اصلاً مرتدین کی تعلیم ھے ،نہ کہ نبی کریمﷺ یا ابوبکرؓ و علیؓ اور یا دیگر صحابہؓ کی ،، اسلام اپنے مزاج اور پیغام دونوں میں اس قسم کے نظریات و تعلیمات سے مختلف ھے،، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام نے جس شدت سے ان نظریات کی نفی کی،، اور نبی کریمﷺ نے عملی طور پر اپنی سنت سے جس شد و مد کے ساتھ ان نظریات کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی ،،ھمارے تصوف کے ادارے نے اتنی ھی سختی کے ساتھ مرتدینِ عیسائیت کی ان اصطلحات اور نظریات کو دانتوں سے پکڑا ،، مگر سب سے بڑا ستم یہ کیا کہ ان اسلام دشمن ،دین دشمن نظریات کو اسلام کی روح اور اصل دین کہہ کر متعارف کرایا ،ان کی عظیم شخصیتوں کو دیکھتے ھوئے کسی کو شک بھی نہیں ھو سکتا تھا کہ وہ دین کے ساتھ کیا واردات کر رھے ھیں،یوں پولیس کی وردی میں ڈاکا ڈالے جانے کی یہ رسم جاری و ساری ھے !
قرآن جس قدر اختیارات کو اللہ کی ھستی میں مرتکز کرتا ھے، یہ اسی قوت کے ساتھ اسے مختلف ھستیوں میں بانٹتے چلے جاتے ھیں اور لطف کی بات یہ ھے کہ جو کھانستے بھی قرآن و حدیث کے حوالوں سے ھیں،، تصوف کی دنیا میں اللہ کے اختیارات پر ان بڑے بڑے ڈاکوں کی چونکہ کوئی دلیل قرآن و سنت سے پیش نہیں کر سکتے لہذا مجبوراً ان کو شریعت کے مقابلے میں طریقت کی اصطلاح ایجاد کرنی پڑی گویا طریقت شریعت سے الگ ایک ادارہ ہے لہذا اس پر کتاب وسنت کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا ،اور لوگ ان کی شخصیتوں کے رعب میں مبتلا ھو کر شرعی دلیل مانگتے بھی نہیں،،
آخر قرآن کیسے اس بات کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ھے کہ ” ھر بستی میں ایک قطب ھوتا ھے جو اس بستی کے لوگوں کا دافع بلیات ھوتا ھے اور ان کے ارزاق کا بندوبست کرتا ھے،، یہانتک کہ اگر کوئی بستی تمام تر غیر مسلموں پر مشتمل ھو تو اس بستی کا کوئی غیر مسلم قطب ھوتا ھے جو یہی ذمہ داری ادا کرتا ھے،، اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ ایسے غیر مسلم قطب کی پہچان کیا ھے،، تو اس کے لیئے اھل نظر کو جس غیر مسلم کا ادب کرتے دیکھے تو بھی اس کا ادب کر "” یہ عبارت ایک بہت بڑے مفسرِ قرآن اور دسیوں فقہی کتابیں لکھنے والے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب شریعت اور طریقت سے لی گئ ھے،،، یہ عبارت تصوف کی ہر کتاب میں مل جائے گی ۔ افسوس یہ ھے کہ اتنے بڑے جھوٹ اور توحید کے عقیدے پر کاری وار کی دلیل کوئی نہیں دی گئ،، یہ ان صوفیاء کا اپنی ذات پر اندھا اعتماد ھے کہ کوئی شاگرد ان سے پلٹ کر دلیل نہیں مانگے گا،،کیونکہ دلیل کا دروازہ بیعت کرتے وقت ھی بند کر دیا جاتا ھے !
شریعت اور طریقت کے جو جھگڑے پیدا ھوئے ان کی بنیاد شریعت میں نہیں بلکہ انہی ما قبل الاسلام نظریات و فلسفوں میں ھیں ،، شریعت اپنی تعلیم اور مطالبوں میں بہت واضح ھے، اور قرآن کی موجودگی میں قیامت تک ان میں کسی مغالطے کی گنجائش نہین ھے،،کیونکہ اس قسم کی گمراھی نئے نبی کا تقاضہ کرتی ھے جب کہ نبوت کا دروازہ بند کر کے اللہ پاک نے قیامت تک قرآن کی حفاظت کا ذمہ لے کر اس امت کی اصلاح یا Maintenance کا ذمہ اس قرآن کے سپرد کر دیا ھے جس کی عملی تعبیر محمد مصطفیﷺ کی سنت کی صورت میں قیامت تک موجود رھے گی،، مگر افسوس کا مقام یہ ھے کہ جب ڈاکٹر ھی ھیروئین بیچنا شروع کر دیں،، تو لوگ اعتماد کس پر کریں ؟ جب باڑ کھیت کی حفاظت کرنے کی بجائے کھیت کو کھانا شروع کر دے تو اس کھیت کو بچائے گا کون؟ جب پولیس والا ڈاکوؤں سے عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے خود ڈاکے ڈالنے شروع کر دے تو عوام کا جان ومال محفوظ کیسے رہ سکتا ھے !
Masters Are Monsters
ماسٹرز آر مانسٹرز یعنی بڑے آدمی ھی بڑے عفریت بنتے ھیں کے مصداق جتنے لمبے لمبے القاب والا اعلی حضرت ھے ایک سادہ لوح مسلمان کے لئے وہ اتنا ھی بڑا سفاک ڈاکو ھے جو اس کے ایمان کو لوٹ لیتا ھے،، اس صورت میں کسی کا توحید پر جمے رھنا ھی وہ کمال ھے کہ نناوے اعمال نامے جو مشرق سے مغرب تک لمبے ھونگے اور سب گناھوں سے بھرے ھوں گے، کے مقابلے میں ایک شخص کی صرف لا الہ الا اللہ پر اللہ تعالی اسے بخش دیں گے ، اسے حدیث بطاقہ یعنی پرچی والی حدیث کے نام سے روایت کیا جاتا ھے !
غیر مسلم تک یہ گواھی دیتے ھیں کہ اسلام کے عقائد ،سادہ ،مختصر اور قابل فہم و قابلِ عمل ھیں ,
1- ماسٹر تارا چند کی گواھی !
ھندوستان کے معروف اسکالر ڈاکٹر تارا چند کے لکھے چند جملے پڑھیئے اور سر دھنیئے کہ جس بات کو غیر مسلم محسوس کرتا ھے اس سے ھم اور ھمارے علماء کیونکر غافل ھیں ،وہ کیوں ان Man made عقائد کو نہ صرف دین کی روح قرار دیتے ھیں بلکہ ان کی بنیاد پر نیک و بد ،، اور غوث و قطب کا تعین کرتے ھیں ! تارا چند لکھتے ھیں ” پیغمبرِ اسلام نے جس دین کی تعلیم دی وہ انتہائی سادہ تھا – اس کے فرائض کم از کم تھے ۔ توحید اس دین کا مرکزی عقیدہ تھا،معاشرے میں اس کی اھم خصوصیات ” اخوت و مساوات ” تھیں – یہی وجہ ھے کہ اسلام میں پروھتوں کا کوئی طبقہ نہیں ! ( حالانکہ جتنے ھندؤں میں سادھو ،گیانی اور اچاریہ ھیں اس سے زیادہ مسلمانوں میں پیروں کی کھیپ تیار ھو چکی ھے ) عقیدہ توحید کی بدولت بتوں اور دیوی ،دیوتاؤں کی پرستش حرام قرار دے دی گئ ھے ! لیکن بعد میں اس سیدھے سادے دین کو فلسفوں اور منطق کی خراد پر چڑھا دیا گیا جس کے نتیجے میں عقائد میں پیجیدگی پیدا ھو گئ اور اس میں مختلف فرقے پیدا ھوگئے !
( The influence of Islam on Indian Culture)
2- ایم ڈی سورت کی گواھی !
محمد ﷺ کے دیئے گئے دین نے اپنی سادگی اور عام فہم تعلیمات و عقائد کی بنیاد پر بدھ مت اور عیسائیت کو شکست دی ،،کیونکہ وہ سماج کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیتوں سے لیس ھے ,
(The History Of Religions )
3- مشہور انگریز مؤرخ ڈریپر کی گواھی !
محمد ( ﷺ ) نے فلسفہ و کلام کی بحثوں میں پڑنے کی بجائے نوع انسانیت کی عملی خدمت کی اور اپنے آپ کو نوع انسان کی دینی و دنیاوی بہتری کے لئے وقف کر دیا ،،یہی وجہ ھے کہ ان کی سادہ تعلیمات گورکھ دھندوں میں الجھانے کی بجائے نجات کا رستہ دکھاتی ھیں !
( The History Of Intellectual Development Of Islam )
4- انگریز مؤرخ فلپ ھٹی لکھتا ھے !
اسلام نے اھلیت اور تعداد کے لحاظ سے اس قدر عظیم ھیروز پیدا کیئے کہ انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ھے ! وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ اس کی سادہ تعلیمات و عقائد میں اتنی کشش تھی کہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑے !
( The History Of Arabs )
( جبکہ آج صورتحال یہ ھے کہ ھندو اسلام کے تصوف کو دیکھتا ہے تو ھندو ازم اور اسلام میں کوئی خاص فرق نہ پا کر خواہ مخواہ اپنا دین چھوڑنا ضروری نہیں سمجھتا ،، جب اس کو وھی دودھ گھر پہ میسر ھے تو اسے مسلمانوں کی دکان سے لینے کی کیا ضرورت ھے )
5- ڈاکٹر ایچ جی ویلز لکھتا ھے !
اسلام سادہ اور قابلِ فہم مذھب ھے – اس نے بنی نوع انسان کے لئے اتنا عمدہ نظریہ پیش کیا ھے جس کی مثال نہیں ملتی ! یہی وجہ ھے کہ اسلام آج بھی زندہ ھے !
(History Of The World )
مگر آج وہ سادہ اسلام اور سادہ مسلمان ھیں کہاں ؟ تو اس کا جواب بھی ایک غیر مسلم سے ھی سن لیجئے ! دانشور ” گبن ” ایک طویل مقالے کے آخر میں لکھتا ھے !
Islam is in The Books and Muslims Are In The Graves۔