کسی بھی شخص کی گمراھی یا ھدایت کا فیصلہ اس کے عمل کو نہیں بلکہ عقیدے کو دیکھ کر ھوتا ھے ،، عمل کی بنیاد میں اگر عقیدہ فاسد ھے تو عمل بعض دفعہ جرم بن جاتا ھے ،، زنا اور ازدواجی رشتے میں عمل کو کوئی فرق نہیں ،ھر چیز وھی ھے ،فرق صرف ” قبول ھے ” کے ایک جملے کا ھے جو حق مہر کے ساتھ شرعی ناطے کو جوڑتا ھے ،، نمازیں عبداللہ ابن ابئ بھی نبئ کریم ﷺ کی اقتدا میں پہلی صف میں پڑھا کرتا تھا اور جہاد کے سفر میں بھی ساتھ جایا کرتا تھا ،صرف عقیدے نے اسے قیامت تک کے لئے رئیس المنافقین بنا کر رکھ دیا ،،،
میرے عمل میں بھی کوتاھی ھے اور یہ ھر انسان کے عمل میں ھوتی ھے ،، یہ کوتاھی میرے والد اور دادا کے عمل میں بھی تھی ،، یہ کوتاھی مولانا سلیم اللہ خاں ،، مفتی تقی عثمانی ، مفتی رفیع عثمانی ،مفتی شفیع ،، اشرف علی تھانوی ،حسین احمد مدنی ،سید موددی ،، جاوید احمد غامدی کے عمل میں بھی ھے ،، عمل کی کوتاھی علی ھجویری ، خواجہ غریب نواز ، نظام الدین چشتی ،مجدد الف ثانی میں بھی تھی ، عمل کی کوتاھی امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد میں بھی تھی ،عمل کی کوتاھی امام بخاری ، امام مسلم ، امام ترمذی اور ان کے شیوخ میں بھی تھی ، عمل کی کمزوری صحابہ میں بھی تھی اور قرآن نے انہی کو ٹوک ٹوک کر ھمیں سبق دیا ھے ، ،، الغرض بطور عقیدہ ھم اس امت میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو معصوم سمجھتے ھیں ،، اگر کسی کا عقیدہ عصمت اس سے ماسوا ھے تو وہ اسے قرآن و سنت سے ثابت کرے ،، رہ گئ رب کی رضاء ، تو وہ کوتاھیوں کے علی الرغم اس کے رحمت کے صدقے ممکن ھے ،جو کسی کی عصمت کا جواز نہیں بن سکتی ، ،،، جو لوگ دوسروں پہ گندگی اچھالتے ھیں ،، اور اپنے اکابر کو معصوم عن الخطا سمجھتے ھیں ، اور ان کی خطاوں پہ بھی سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے اور ان کا جواز گھڑتے ھیں وہ اصل میں اپنے اکابر کو رسالت اور نبوت کی کرسی پہ بٹھاتے ھیں ،،،،،،،،
اب آیئے عقیدے کی طرف !
جیسا کہ اوپر لکھا گیا ھے کہ عمل کی کوتاھی کے علی الرغم اللہ پاک کی رضا کا حصول اس کی رحمت کے طفیل ممکن ھے ، اس میں انسان کی استطاعت اور احوال کا جائزہ لیا جاتا ھے اور ” فاتقوا اللہ ما استطعتم ” کا اصول لاگو ھوتا ھے ،،مگر عقیدے میں کوتاھی کسی صورت برداشت نہیں ،، اس کے لئے ” اتقوا اللہ حق تقاتہ ” کا اصول لاگو ھوتا ھے ، اور فیصلہ ” إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا (48 النساء ) کی صورت سنایا جاتا ھے ،،، اللہ یہ تو ھر گز معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے البتہ اس کے علاوہ جو گناہ ھو گا جس کا بھی ھو گا بخش دے گا ، اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ھے وہ یقیناً بہت بڑا گناہ گھڑتا ھے ، میں ھمیشہ عقیدے کی بنیاد پر ھی معاملہ کرتا ھوں ،،
عقائد کے لحاظ سے 21 مئ 1866. کو مسلمانوں کی ایک نئ قسم کو متعارف کروایا گیا ،، باقی تمام امت کے فیصلے حشر میں قیامت کے دن ھونے ھیں ،مگر مسلمانوں کی اس نئ قسم کے تمام اکابر چونکہ معصوم ھوتے ھیں لہذا مرتے ھی ملاءِ سفلی کے فرشتوں میں جا شامل ھوتے ھیں اور اپنے معتقدین و متبعین کی حاجات روائی شروع کر دیتے ھیں ،، وہ جو جیتے جی ایک پکار پر بحرِ عرب میں جا کر ڈوبتے بحری جہاز کو بچا لیتے ھیں ، وہ جن کی دعا سے میٹھے پانی کا چشمہ سمندر میں دوڑتا ھوا جہاز کے پاس آ جاتا ھے اور جب حاجی خوب سیر ھو جاتے ھیں تو واپس چلا جاتا ھے ،، وہ مرنے اور ترقی پا کر فرشتوں میں شامل ھو کر اپنے مریدین کے لئے کیا کچھ کرتے ھونگے اس کا اندازہ ان کی سوانح عمریاں پڑھ کر لگ جاتا ھے ،، جن کے اکابر فرشتے ھوں ،معصوم ھوں ،بے عیب ھوں ،حشر سے پہلے جن کو بخش دیا گیا ھو وہ دوسروں کو جو عیب بھی لگا دیں ان کا حق بنتا ھے ،،،
جب بات کرو تو جواب ملتا ھے کہ ” کیا ھم یہ بطورِ کرامت مانتے ھیں یا بطور عقیدہ ،،
یہ بالکل یہود کی طرح چربی گلا کر گھی بنا کر پراٹھے کھانے والی بات ھے ،، گویا بطور کرامت جو مرضی ھے مانتے پھرو کوئی شرک نہیں ، اور کوئی حرج نہیں ،، البتہ عقیدہ رکھ کر مت کرو ،،،، گویا کسی کو خاوند سمجھ کر زنا نہ کرو ،، بغیر خاوند سمجھے سب چلتا ھے ،، یہاں سے وہ اولیاء کی کرامت اور معجزات بیان کرنا شروع کر دیں گے ،، سوال یہ ھے کہ آپ کے بزرگ ولی اللہ ھیں یہ فیصلہ حشر سے پہلے ھو کیسے گیا ؟ کس نے آسمان والے کی طرف سے آپ کو گارنٹی دی ؟ کہیں گے الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ،، سوال پھر کھڑا ھو گیا کہ آپ کے بزرگ ولی اللہ ھیں اس کا ثبوت کسی آسمانی کتاب سے دے دیں ،، ایک طرف تو اصحابی اصحابی کی پکار کا جواب ملتا ھے کہ ” آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا گُل کھلائے ” دوسری جانب اپنے اکابر فرشتوں میں شامل کر لیئے ! جبکہ اکابر سر سے پاؤں تک شرک کا مرقع تھے ،شرک کی ھر قسم ان میں موجود تھی ،، قادیانیوں سے ھمارا اختلاف ختم رسالت کی بنیاد پر ھے اور ایک نئے نبی پہ ایمان لانے کے سبب انہیں کافر کہا جاتا ھے ،، توحید کے عقیدے میں وہ ان سے بڑھ کر مؤحد ھیں ان میں شرک کی رمق بھی نہیں ،،،،،،
پاک و ھند میں 24 کیرٹ کے سونے کی طرح خالص توحیدی عقیدہ اھلِ حدیث کا ھے جن کو غیرمقلدین اور سلفی بھی کہا جاتا ھے ،، اس کے علاوہ سب دڑے کا مال ھے ،بناسپتی چاول میں ٹوٹا مکس کیا ھوا ھے ،،،
الحمد للہ میں نے غامدی صاحب میں مسائل میں مشاھیر امت کے ساتھ اختلاف دیکھا ھے مگر توحید کے معاملے میں وہ 24 کیرٹ کے سونے کی طرح خالص ھیں ،، اس لئے ان کے ساتھ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ،، نہ یہاں نہ وھاں ،،،