میں ترس کھا کر ایک دن سمندر سے کیکڑا پکڑ کر گھر لایا ، اور اسے میٹھے پانی کی بوتل میں ڈال دیا ،، سوچتا رھا کہ یہ اللہ کا شکر ادا کر رھا ھو گا کہ کھاری نمکین پانی سے جان چھوٹی اور میٹھا پانی میسر آیا ھے ،، میں اس کے پاس سے گزر کر جب مسجد کی محراب کی طرف جاتا تو سوچتا کہ جب میں اسے دوبارہ کھارے پانی میں جا کر اسی جگہ ڈالوں گا تو یہ اپنے دوست و احباب اور بھائی بھتیجوں کو خوب سٹوریاں سنائے گا کہ اسے سرخ ٹوپی والا ایک جن اٹھا لے گیا تھا اور کیا کیا موجیں کرائی تھیں ،،،،،،،،،
مگر وہ دوسرے دن مردہ پایا گیا ،، ماھرین کیکڑا جات سے پتہ کیا تو ڈاکٹر نعیم صاحب نے بتایا کہ نمکین پانی کی مخلوق میٹھے پانی میں survive نہیں کر سکتی ،،، ھم سمندر کے کھارے پانی کے لکھاری ھیں ھمیں کنوئیں کا میٹھا اور پرسکون پانی مار دے گا ،، رہ گئ اگلی بات کہ ھم پلٹ کر ایک مخصوص مکتبِ فکر کے باجے بن بھی جائیں تو آبِ زم زم سے دھل جائیں گے اور غامدیت ،مودودیت ،پرویزیت کے طعنے ھمارا پیچھا چھوڑ دیں گے تو ایسا ممکن نہیں ھے ،، جتنا ھم حق کی خاطر لکھتے ھیں اس سے دگنا اپنی صفائی میں لکھیں گے تب بھی یہ الزامات زندگی بھر ھمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے ،، گھر سے نکل گئ لڑکی صحیح سلامت واپس بھی آ جائے تو اس کا سابقہ اسٹیٹس کبھی بحال نہیں ھوتا اور نہ اس کی معصومیت پر کوئی اعتبار کرتا ھے ،، اس لئے دھوتی پہننے والے اس جٹ کی طرح روز نعرے مارنے سے کچھ نہیں ھوتا، جسے گھر والوں نے پینٹ شرٹ پہنا کر بس میں بٹھا دیا تھا اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسمسا کر نعرہ مار دیتا تھا کہ ” اوئے مینوں چھڈو ” حالانکہ اس کو صرف اس کی پینٹ نے جکڑ رکھا تھا ،،،،،،، ھمیں دین کے مسخ تصور کو بحال کرنا ھے ،، اس کی سادگی اور صاف راہ مستقیم کو واضح کرنا ھے ،،
هرچه باداباد ما کشتی در آب انداختیم ،،،،،