سوال و جواب !
قاری صاحب ایک حدیث کے بارے میں آپ سے سوال کرنا تھا ؎
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طبعی موت (قضاء و قدر) کے بعد میری امت کی اکثر اموات نظربد سے ہونگی ۔
صحیح الجامع للالبانی
پلیز قاری صاحب اس حدیث شریف کی آپ سے تشریح کی درخواست ھے !
الجواب !
محدثین کی اجتماعی بیماری ھے کہ یہ سند کے صحیح ھونے کے بعد متن پر کم ھی توجہ دیتے ہیں ، جس طرح کسی مشہور برانڈ کا نام پڑھتے ہی آپ ارتھ ھو جاتے ہیں اور اس میں کسی عیب کے ھونے کا سوچنا بھی عیب سمجھتے ہیں ، حقیقت یہ ھے کہ اصل کام راویوں کی زنجیر کے بعد شروع ھوتا ھے اور وہ ھے متن پر تحقیق ،، راوی ایک خبر پکڑاتے ہیں اس خبر کو قرآن و سنت پر پیش کرنا سننے والے پر واجب ہے ـ ھمارے محدثین نے اپنے شیوخ کو ھر قسم کی سماجی نفسیاتی بیماریوں کے باوجود جبرائیل کا درجہ دے رکھا ھے اور یہ بذاتِ خود ایک نفسیاتی معاملہ ہے کہ شیخ کو ۹۰ گز کا ثابت کرو تو اپنا قد ۸۹ گز خود بخود ثابت ھو جائے گا ۔ مجرد کسی کی داڑھی چار انگل کم ھونے پر اس کو فاسق قرار دے کر اس کے پیچھے نماز کو مکروہ تحریمی قرار دینے والے یہ اصحابِ دانش اپنے شیوخ کو فاسق ، فاجر ، ھونے کے باوجود بھی عظیم ھستیاں اس لئے قرار دیتے ہیں کیونکہ انہی کی شاگردی میں ھی ان کی اپنی عظمت چھپی بیٹھی ہے ، لہذا یحی ابن معین کا یہ قول یاد کریں کہ عبدالرزاق شیعہ کی بجائے مرتد بھی ھو جائے تب بھی ھم اس کی روایتیں ترک نہیں کریں گے [ کر لو جو کرنا ہے ] ان حضرات کا لکھا ھوا کل والا قطعہ ایک بار پھر ملاحظہ فرما لیجئے ۔۔۔۔۔ کوٹ
ہم راوی کے صدق و عدالت اور حفظ وضبط کو دیکھتے ہیں۔ اس کا بدعتی، مثلاً مرجی، ناصبی، قدری، معتزلی، شیعی وغیرہ ہونا مضر نہیں ہوتا۔ صحیح قول کے مطابق کسی عادل و ضابط بدعتی راوی کا داعی الی البدعہ ہونا بھی مضر نہیں ہوتا اور اس کی وہ روایت بھی قابل قبول ہوتی ہے جو ظاہراً اس کی بدعت کو تقویت دے رہی ہو۔
بدعت کی اقسام :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں :
(1) بدعت صغریٰ، (2) بدعت کبریٰ
بدعت صغریٰ کی مثال انہوں نے تشیع سے دی ہے جبکہ بدعت کبریٰ کی مثال کامل رفض اور اس میں غلو سے دی ہے۔ (ميزان الاعتدال : 5/1، 6)
انہوں نے ابان بن تغلب راوی کے بارے میں لکھا ہے :
شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه، وعليه بدعته .
’’ یہ کٹر شیعہ لیکن سچا تھا۔ ہمیں اس کی سچائی سے سروکار ہے۔ اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا۔ “ (ميزان الاعتدال : 5/1)
اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بدعتی راوی ثقہ اور عادل کیسے ہو سکتا ہے تو اس کا جواب ہم حافظ ذہبی رحمہ اللہ ہی کی زبانی ذکر کرتے ہیں، وہ لکھتےہیں :
وجوابه ان البدعة على ضربين، فبدعة صغرى كغلو التشيع او كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق، فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الاثار النبوية، وهذه مفسدة بينة ـ
بدعت کی دو قسمیں ہیں :
(1) بدعت صغریٰ جیسے غلو یا بلاغلو شیعیث۔ اس قسم کی رائے تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ باوجود یہ کہ وہ دیندار، پرہیزگار اور سچے تھے۔ اگر ان کی احادیث ردّ کر دی جائیں تو تمام احادیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور یہ واضح خرابی ہے۔ ان کوٹ
اس لئے ثقہ وقہ صرف ایک بندے کا اپنے شیخ سے حسنِ ظن ھے جو کبھی بھی یقین کے فیصلے نہیں کر سکتا ، ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً ،، اگر ایک راوی کو اپنے شیخ کے سچا ھونے کا گمان ھے اگرچہ اس میں ڈھیر سارا فسق بھی موجود ھے تو مجھے کونسی چیز مجبور کرے گی کہ میں اس راوی کے شیخ کو ویسا ھی سمجھوں جیسا وہ سمجھ رھا ھے ؟ یہاں تو باپ اپنے بیٹے کو ویسا نہیں سمجھتا جیسا کہ اس کی ماں سمجھ رھی ھوتی ھے ، اور بہو شوھر کی ماں کو ویسا نہیں سمجھتی جیسا کہ اس کا شوھر سمجھ رھا ھے ـ
اب آیئے اس روایت کے متن کی طرف ،، روایت اگر سچی ھوتی تو اس کی ابتدا رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے ھی ھونی چاہئے تھی اور صحابہؓ کی اکثریت کو نطرِ بد سے مرنا چاہئے تھا ، مگر144000 صحابہؓ میں سے صرف ایک راوی کے تھوڑی دیر کے بیمار ہونے کے واقعے کو پکڑ کر توھم پرستی کی پوری انڈسٹری لگا لی گئ ، کیا نظر بد کی بجائے لوگ دھماکوں سے زیادہ نہیں مر رھے ؟ ہیپاٹائٹس سے زیادہ نہیں مر رہے ؟ ہم آنکھوں کے سامنے کی بات کو چند راویوں کے کہنے پر کیسے جھٹلا دیں ،، محدثین اور ان کے شیوخ میں سے کتنے نظر بد سے مرے ؟ خود امام بخاری رحمہ اللہ کے حافظے کو کسی کی نظر نہیں لگی ،، قرآن اس قسم کے عقیدے کی دوٹوک نفی کرتا ھے اور مومنوں کو اپنے رب پر توکل کی دعوت دیتا ہے ،، مثلا قرآن تسلی دیتے ھوئے آخری حد تک جا کر نبئ کریم ﷺ کو موضوع بنا کر فرماتا ھے کہ اے نبیﷺ اگر اللہ پاک آپ کو کسی مشکل میں مبتلا کر دے تو [ اس کو آپ خود بھی اپنی ذات سے نہیں ہٹا سکتے دوسروں کی مشکل کشائی تو دور کی بات اپنی مشکل کشائی بھی نہیں کر سکتے ] اور اگر اللہ پاک آپ کو کوئی نفع دینا چاہے تو وہ ھر چیز پر قادر ھے ،، دوسری جگہ پھر یہی بات فرمائی کہ اگر اللہ آپ ﷺ کو کسی نقصان میں مبتلا کر دے تو اس کو کوئی ہٹا نہیں سکتا سوائے اس [ اللہ] کے اور اگر وہ آپ کو کوئی خیر عطا کرنا چاھے تو اس کو فضل کو کوئی پلٹا نہیں سکتا بندش نہیں کر سکتا ـ
[ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كَاشِفَ لَهُ إِلا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( الانعام ـ17) ]
[ وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (107) ھود
[ مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (2) فاطر
اللہ لوگوں کے لئے اپنی رحمت میں سے جو کھول دے کوئی اس کی بندش نہیں کر سکتا اور جس کو بند کر دے تو اس کو کھولنے والا کوئی نہیں ـ
ایسی ایمان بنانے والی تعلیمات کے بعد انسانوں کو انسانوں کی نظر سے اس قدر خوفزدہ کر دینا کہ وہ ھر چرسی بھنگی اور ننگ مننگے کے پس توڑ کے لئے دوڑتے پھریں یہ کسی بھی رسول کی بات نہیں ھو سکتی ،، صرف رسول اللہ ﷺ کی امت پر یہ نظر کا عذاب مسلط کیوں ھو گا ؟ باقی انسانوں پر کیوں نہیں ؟ کیا یہ ایمان والوں کو ایمان کی سزا دی جا رھی ہے ؟ قضا و قدر کے بعد میری امت کی اکثریت نظر سے مرے گی ، سوائے ایمان کے اور کس جرم میں ماری جائے گی ؟ یہ روایت صریحاً قرآن کی پوری تعلیم و تربیت کے خلاف ھے اور جو جتنا نیک اور دیندار ہے اُتنا ہی خوفزدہ اور اوھام کا شکار ھے ،