قرآن میں اللہ پاک ہمیں اپنے بارے میں بتاتا ہے کہ اس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام فوراً ہو جاتا ہے، (اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ: ”اُس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔”
مگر دوسری جانب ہمیں بتایا جاتا ھے کہ جھنم ھل من مزید ،ھل من مزید کی گردان کرتی رہے گی یہانتک کہ اللہ تعالی اس میں اپنا قدم رکھے گا جس کی وجہ سے آگ کے کچھ حصے دوسروں پر چڑھ جاءیں گے اور وہ بس بس پکار اٹھے گی ،، گویا اللہ پاک آگ کو چپ کرنے کا حکم دینے کی بجاے اپنا قدم اس میں رکھ دیتے ہیں،، یا آگ کو حکم دیتے ہیں مگر آگ حکم نہیں مانتی اور مطالبہ جاری رکھتی ھے کہ اس کو بھرا جاءے، جس پر اللہ پاک اس میں اپنا قدم رکھ کر اس کو بھر دیتے ہیں جس کی وجہ سے جھنم پکار اٹھتی ہے کہ بس بس ،،
سورہ الانبیاء میں اللہ پاک کافروں سے فرماتا ھے کہ تم اور جن کی تم پوجا کرتے ہو سب جھنم میں جاؤ گے، یا جھنم پر پیش کئے جاؤ گے ، اگر یہ واقعی الہ ہوتے تو کبھی جھنم پر پیش نہ ہوتے ،،
(إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (98) لَوْ كَانَ هَٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ (99) الانبیاء))
مگر بخاری و مسلم نے خدا کو ہی جھنم میں ڈال کر اللہ کی دلیل کو اللہ پر ہی الٹ ڈالا ،کہ اگر واقعی الہ ہوتا تو جھنم کو اپنے وجود سے کیوں بھرتا؟ اور امت چودہ سال سے اس روایت کی چوسنی چوس رہی ہے ۔
((روى البخاري (6661)، ومسلم (2848) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَا تَزَالُ جَهَنَّمُ تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ ، حَتَّى يَضَعَ رَبُّ الْعِزَّةِ فِيهَا قَدَمَهُ ، فَتَقُولُ قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ ، وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ).