سوال ،،
سر کیا ہمارے گناہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہونے دیتے ؟
الجواب !
دعا تو ابلیس کی بھی قبول ہو گئ تھی جو گناہ کا موجد تھا ، اس نے رب سے قیامت تک مہلت مانگی فورا دے دی گئ، ھدایت مانگتا تو بھی مل جاتی ، معافی مانگتا تو بھی مل جاتی آدم علیہ السلام کی طرح ،،
رب سے مانگی ہوئی دعا کبھی رد نہیں ہوتی، اس نے جہاں دعا کا حکم دیا ہے استجابت کا وعدہ فرمایا ہے ، کسی بھی گناہ کی وجہ سے رد کرنے کی دھمکی نہیں دی ـ
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (الغافرـ60)
البتہ تکبر کی وجہ سے دعا نہ مانگنے والوں کو جھنم کی دھمکی ضرور دی ہے ،، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اعمال تقریبا سب کے ہی جواب دے جائیں گے ،اللہ کا فضل ہی جنت میں جانے کا سبب بنے گا ـ
اپنی حکمت کے تحت کچھ دعائیں قبول فرما لیتا ھے اور کچھ کو محفوظ کر لیتا ہے ، جب حشر میں اعمال کا ناپ تول مکمل ہو جائے گا تو پھر اللہ پاک دعاؤں والا فولڈر کھولے گا ،، دعا والا فولڈ صرف رب العزت کی کسٹڈی میں ہو گا ،جبکہ اعمال والا فرشتوں کراما کاتبین کی کسٹڈی میں ہو گا ـ ناپ تول کے بعد انسان کے پاس جو بچے گا ، سب سے پہلے انسان کے قرضے ان میں سے چکائے جائیں گے ، یعنی جو حقوق العباد اس کے ذمے تھے ،کچھ نیکیوں کی کٹوتی اس ضمن میں ہو جائے گی اور وہ نیکیاں متعلقہ مظلومین کے کھاتے میں ٹرانسفر کر دی جائیں گے ،، کچھ لوگوں کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ قلاش یعنی بینک رپٹ قرار دے دیئے جائیں گے ، جن لوگوں کے حقوق باقی ہونگے ، ان کے گناہ اس بندے کو ٹرانسفر کیئے جائیں گے ،،
جن کو اللہ پاک بخشنا چاہے گا ، ان کی دعاؤں کا فولڈر منگوائے گا اور جو دعائیں دنیا میں قبول نہ کر کے محفوظ کی گئ تھیں، ان کا ریٹ انسان کی اس وقت کی ضرورت کے مطابق لگا کر وہ سارے چالان اللہ پاک اپنے خزانے سے بھر دے گا اور بندے کی بخشش ہو جائے گی ،، بعض لوگوں کے معاملات بارگیننگ کے ذریعے نمٹا دے گا ، مثلا ایک شخص سے فرمائے گا کہ اگر تم اپنے بھائی کو اپنے حقوق معاف کر دو تو اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت چلے جاؤ، وہ بندہ یہ پیشکش فورا قبول کر لے گا اور یوں دو گنہگار جنت چلے جائیں گے ،، جو لوگ اعمال کے ناپ تول سے جنتی قرار پائیں گے ان کی دعائیں ان کے درجات میں بلندی کے کام آئیں گی ،، اس دن وہ لوگ کہ جن کی دعائیں دنیا میں قبول کر لی گئ تھیں ، حسرت کریں گے کہ کاش ہماری دعائیں بھی دنیا میں قبول نہ ہوتیں ،،
انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا (21) .الاسراء
دیکھو کس طرح ہم نے دنیا میں ان کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے، جبکہ آخرت میں زیادہ فضیلتیں اور زیادہ درجات ہونگے ـ
رب سے مانگا کبھی خالی نہیں جاتا ـ اس لئے دعا ہر حال میں مانگی جانی چاہئے، ہمارے گناہ کبھی بھی ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان حائل نہیں ہوتے ، بلکہ بعض دفعہ گنہگاروں کی ندامت نیکوں کی بےنیازی پر غالب آ جاتی ہے ـ اور ان کو جھٹ سے آئی سی یو میں لے جایا جاتا ھے ـ جبکہ نیکوں کو پروسیجرز سے ہی فارغ کر دیا جاتا ہے ـ