ھم اپنے اندر ،ھماری طرح کا لباس پہننے والے، ھماری طرح کی مادری زبان بولنے والے، ھمارے محلے میں پیدا ھونے والے،ھمارے ساتھ کھیل کر جوان ھونے والے عیسائی کو تو مسلمان کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاھتے اور اتنے پیسے خرچ کر کے ساری دنیا کا چکر لگاتے پھرتے ھیں آخر کیوں؟ کیا اس میں کمپنی کی مشہوری زیادہ ھے ؟ یا وھاں کے لوگ ھمارے سماجی معاملات سے واقف نہیں اس لئے ان کو دعوت دینا آسان ھے ؟ وجہ جو بھی ھے مگر حقیقت یہ ھے کہ جو مسلمان ھونے پر تلے بیٹھے ھیں،انہیں ھم مسلمان کر کے برابری کے حقوق دینے پر تیار نہیں ھیں،، جتنا عرصہ ھم نے ھندوستان پر حکومت کی ھے اور اسے لونڈی سمجھ کر روندا ھے، اس عرصے میں اگر ھم نے دعوت کی طرف توجہ فرمائی ھوتی اور اپنا کردار درست رکھا ھوتا تو ھندوستان میں آنکھ میں ڈالنے کو کوئی ھندو نہ ملتا ،،مگر ھم نے پلٹ پلٹ کر حملے کرنے میں ھی اسلام کی فتح و نصرت دیکھی ،، ھم نے ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے ھاتھ میں اپنا کردار لے کر دنیا فتح کرنے کی بجائے ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر دنیا فتح کرنے کی ٹھانی،، جواباً دوسرے ایک ھاتھ میں بائیبل اور دوسرے میں ڈیزی کٹر اور ٹوم ھاک میزائل لے کر نکل پڑے ،،، اگر ڈیزی کٹر اور ٹوما ھاک سے دنیا فتح نہیں ھو سکتی تو پھر تلوار سے بھی نہیں ھو سکتی،، اب دنیا کردار سے فتح ھوتی ھے،، آپ اسلام کو دنیا کے لئے نفع رساں ثابت کر دیجئے، یقین جانیں دنیا میں گھر گھر سے یوں ھی اسلام نکلے گا ، جس طرح آپ کے گھر کی ھر الماری اور ٹیبل کی دراز ، اور تکیئے کے نیچے سے پیناڈول نکلتی ھے، اپ کو نہیں جانا پڑے گا،، لوگ خود آ آ کر پیسے لگا کر لے جائیں گے جس طرح آپ فیلپس ٹیوب لائٹس اور سوزوکی اور ٹیوٹا کاریں لے کر آتے ھیں،، مگر اسلام کو دنیا کے لئے نفع رساں ثابت کرنے کے لئے پہلے اپنا کردار اور سماج بدلنا پڑتا ھے،محنت اپنے وجود ،گھر اور سماج پر کرنی پڑتی ھے جو ھم کرنا نہیں چاھتے یا کر نہیں پاتے ،، یاد رکھئے پہلی فلپس ٹیوب لائٹ نیدرلینڈ میں جلی تھی پھر دنیا اسے جلتے ھوئے اپنے گھر کے لئے لے کر آئی ھے،اب بھی راڈ لو تو دکاندار سے جلوا کر چیک کر کے لاتے ھیں،، فیوز لائٹ بھی کوئی نہیں لیتا تو فیوز اسلام کوئی کیوں لے گا ؟ روشنی کا دعوی کرنے والوں کے اپنے گھروں محلوں اور سماج میں گھٹاٹوپ اندھیرا ھے ،وہ لوگوں کو روشنی کی نوید سنا رھے ھیں،،مگر جہاں 99٪ مسلمان ھیں وھاں تو اسلام وہ بہار دکھانے میں ناکام رھا،، آخر اسلام کا وہ کونسا ورژن ھو گا جو وھاں روشنی کرے گا جہاں 2٪ مسلمان پائے جاتے ھیں ! مولانا محمد علی جوھر کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جن دنوں تحریکِ خلافت چل رھی تھی، وہ ناشتہ کرنے لگے تو گھر کی صفائی کے لئے مہتر داخل ھوا،، مولانا نے سوچا کہ اس کو دعوت نہ دینا بد اخلاقی ھو گی،، انہوں نے کہا کہ مہتر جی آؤ پہلے ناشتہ کر لو ،، مہتر چونک گیا اور معذرت کر کے کہنے لگا کہ جی میرے ھاتھ گندے ھیں ، آپ کی مہربانی، شکریہ بس آپ ناشتہ کیجئے میں اپنا کام ختم کر لوں،، محمد علی جوھر اٹھے اور فرمایا کہ مہتر جی تھوڑی دیر پہلے ھاتھ میرے بھی گندے تھے، یہ اللہ کا پانی ھے یہ سب کے ھاتھ صاف کر دیتا ھے، جسے آپ ٹوکرے میں اٹھاتے ھو،اسے ھم پیٹ میں اٹھائے ھوتے ھیں اور جسے تم بیلچے سے اٹھاتے ھو ، اسے ھم ھاتھ سے دھوتے ھیں،، آپ نے لوٹا اٹھایا اور خود اس کے ھاتھ دھلائے، اور اسے ناشتے کے لئے برآمدے میں لے آئے،، مہتر کرسی پر بیٹھنے سے ہچکچا رھا تھا، اسے کرسی پر بٹھایا تو اس نے ھاتھ آگے کر دیا کہ ” جناب میرے ھاتھ پر تھوڑا رکھ دیں میں کھا لوں گا،میری ھمت نہیں پڑتی کہ میں آپکی پلیٹ میں سے کھاؤں ،، مولانا نے اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنی پلیٹ میں ڈبو دیا اور کہا کہ مہتر جی آپ بھی اسی آدم کے بیٹے ھو جس کا میں بیٹا ھوں،،، ھم دونوں ایک ھی پلیٹ میں کھائیں گے،، ناشتے کے دوران مہتر کے آنسو مسلسل بہتے رھے،ناشتے کے بعد اس نے کہا کہ مولانا آپ کسی کو مسلمان کیسے کرتے ھیں،، آپ نے فرمایا بس یہ کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ھے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ھیں اور عیسی بھی اللہ کے رسول ھیں خدا نہیں ھیں،، مہتر نے اقرار کر لیا اور مولانا نے اسے سینے سے لگا کر مبارکباد دی،، مگر ھم یہ نہیں کر سکتے،، ھم میں سے کچھ لوگ گرمی کے روزے رکھ کر اسلام ثابت کرنے کی بجائے، عید والے دن سویاں کھا کھا کر اپنی مسلمانی اور دین سے ثابت کرتے ھیں،، تو کچھ مسجدوں کو آباد کر کے دین کی محبت ثابت کرنے کی بجائے ،گرجے جلا کر اور عیسائی بستیاں لوٹ کر مسلمانی اور اسلام سے محبت ثابت کرتے ھیں،، ھم محمد علی جوھر والے مسلمان بننے کی بجائے "گاما جرنل نالج "تائپ کے مسلمان ھیں!
گامے کا اصل نام تو غلام سرور تھا مگر وہ اپنی دینی معلومات یعنی اسلامک جنرل نالج کی وجہ سے لوگوں میں گاما جرنل نالج کے نام سے مشہور تھا،، مسجد میں تو کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا، مگر اسلام کے بارے میں اس کی معلومات اور دلی درد سے سب واقف تھے،،جہاں کہیں دین پر کوئی بات ھو رھی ھوتی تو گامے کے کان کھڑے ھو جاتے ،وہ چلتے چلتے رکتا اور مجمعے کے پاس چلا جاتا،، جیب کے اندر سے تہہ کردہ ٹوپی نکالتا اس کا ایک ایک بند یوں ادب سے کھولتا جیسے وہ بغدادی قاعدہ ھو ، اسے بڑے اسٹائل کے ساتھ سر پر رکھتا اور پھر کہتا کہ جی اب بات کرو کیا بات چل رھی تھی،، ٹوپی رکھے بغیر دین پر بات کرنا گامے کے نزدیک بغیر ھیلمٹ گارڈ کے فاسٹ بالر کو کھیلنے والی بات تھی،وہ اسے بے ادبی سمجھتا تھا،، بات شروع ھوتی تو گاما اپنے جنرل نالج سے مجمع الٹ دیتا،، ایک دفعہ ایک ھندو بنیا مسلمانوں پر اعتراض کر رھا تھا کہ یہ کیسا دین ھے جو ھفتے میں صرف ایک دن نہانے کو کہتا ھے،جبکہ ھمارا دین تو ھم کو روزانہ نہانے کو کہتا ھے، اشنان کے بغیر تو ھماری عبادت ھی نہیں ھوتی ! گامے جرنل نالج نے اس ھندو بنیئے سے کہا کہ اس کا جواب صبح آپ کو تالاب پر ملے گا،، صبح صبح جب ھندو بنیا تالاب پر پہنچا تو گاما اس کا انتظار کر رھا تھا،، گامے نے ٹوپی سر سے اتاری اسے تہہ کیا جیب میں رکھا اور کپڑے اتار کر ،، نعرہ تکبیر مار کر تالاب میں چھلانگ لگا دی ،، اور نیچے جا کر ایک پتھر پکڑ کر بیٹھ گیا،، سردی کا موسم تھا ،جب کافی دیر تک گاما باھر نہ نکلا تو ھندو بنیئے کے دانت کچھ سردی اور کچھ خوف سے بجنے لگے کہ یہ مُسلا تو میرے متھے لگ جائے گا،، وہ دھوتی سمیٹے بھاگنے کے چکر میں تھے کہ چھپاک سے گاما پانی سے باھر نکلا اور بولا کہ منیم جی،، ابھی میرا غسل آدھا ھی ھوا ھے میں صرف آپ کے بھاگنے کے خدشے سے جلدی نکل آیا ھوں،، دیکھو ،اس کا نام غسل ھے،اور اللہ نے کہا ھے کہ ایسا غسل مومنوں کے لئے ھفتے میں ایک ھی کافی ھے،، یہ جو آپ چار لوٹیاں سر پر ڈال کر سمجھتے ھو ناں کہ ھم نے غسل کر لیا ھے،تو تم لوگ غسل کی توھین کرتے ھو،ایسا مریل اشنان تو روز چار بار ھونا چاھئے،،یہ اشنان نہیں بلکہ تم کو بھگوان نے سزا دی ھوئی ھے !
مگر گاما بھی ایک دن اونٹ کی طرح پہاڑ کے نیچے آ گیا، ھوا یوں کہ وہ شہر میں مہمان گیا ھوا تھا،، وھاں اسے میزبان کے ساتھ مسجد بھی جانا پڑا،، مسجد میں مولوی صاحب سے جو چند سوال جواب ھوئے تو نمازیوں کے ساتھ ساتھ امام صاحب بھی اس کے علم سے بہت متأثر ھوئے، اور اس کی خوب واہ واہ ھوئی،،گامے کو دیہاتی مسلمانوں اور شہری مسلمانوں میں فرق صاف نظر آنے لگا،، وہ صبح کی نماز بھی میزبان کے ساتھ پڑھنے چلے گئے اور اتفاق سے مولوی صاحب سوتے رہ گئے ! نمازیوں نے گامے کے نہ چاھنے اور جان چھڑانے کے باوجود اسے دھکیل کر آگے کر دیا کہ آپ کی موجودگی میں کوئی اور نماز پڑھانے کی جرات کیسے کر سکتا ھے ! یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ گامے کے اندر سے دعا نکلی کہ مولا عزت رکھنا،، نماز میں تو جو گامے نے پڑھا وہ خود اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو مقتدیوں کی سمجھ میں کیا آیا ھو گا،،مگر اس نے کافی کوشش کے ساتھ ھر حرف کو خوب گلے سے نکالنے کی کوشش کی،جس کی وجہ سے کئ دفعہ زبان دانتوں تلے آئی تو کئی دفعہ عین گلے میں پھنسی،، خدا خدا کر کے التحیات کا پرسکون سیگمنٹ شروع ھوا،، یہی وھی کیفیت تھی جو حاجی پر مکے سے مدینے آنے پر طاری ھوتی ھے،جب وہ بےساختہ کہتا ھے،یا رسول اللہﷺ آپ کا مدینہ کتنا خوبصوت اور پرسکون ھے،ادھر صفا مروہ بھی نہیں ھے اور دَم بھی نہیں ھے،، التحیات آخری مراحل میں تھی کہ گاما مشکل میں پھنس گیا اسے چھینک آنا شروع ھو گئ تھی، ادھر التحیات کافی لمبی ھو گئ تھی کیونکہ گامے نے اسے تین بار پڑھا تھا،، وہ درمیان میں بھول جاتا تھا اور پھر نئے سرے سے شروع کرتا تھا،،،، نمازی سیفٹی کیچ ھٹا کر تیار بیٹھے تھے کہ گامے کی گردن کو حرکت ھوئی،، نمازی جن کو امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی عادت ھوتی ھے،وہ اس کی گردن کو کن اکھیوں سے یونہی دیکھ رھے تھے جیسے رن آؤٹ کو ری پلے کر کے تھرڈ ایمپائیر دیکھ رھا ھوتا ھے، گردن کا ھلنا تھا کہ نمازیوں نے سلام سمجھ کر السلام علیکم کہہ کر گردن پھیر لی،مگر ان کی گردن ابھی رستے میں تھی کہ گامے کی چھینک نے ان کا تراہ نکال دیا،، اب ان کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ وہ گردن واپس لے جائیں یا رھتی کسر بھی نکال لیں،، ادھر نمازیوں کے سلام کو دیکھ کر گامے نے بھی بوکھلا کر ایک طرف چھینک پھیری اور دوسری طرف منہ پھیر کر و علیکم السلام و رحمۃ اللہ کہہ دیا ! اب نمازی گامےکا منہ دیکھ رھے ھیں اور گاما نمازیوں کا منہ دیکھ رھا ھے کہ آج تو نماز کے ساتھ وہ واردات ھو گئ ھے جو عید والے دنوں میں موسمی قسائی بکرے اور اس کی کھال کے ساتھ کرتے ھیں !