بات چلی تھی راویوں کی اور ھمارے دوست ایموشنل بلیک میلنگ کے طور پر اس کو لے گئے ھیں امہات المومنینؓ کی گستاخی کی طرف – حالانکہ اللہ بخوبی جانتا ھے کہ ھم نبئ کریم ﷺ فداہ ابی و امی اور امہات المومنین سلام اللہ علیہن کے دامن کے دھبے دھونے کی جدوجہد میں دل وجاں سے مصروف ھیں ، اور اس کام میں جان کے جانے کو فوزِ عظیم سمجھتے ھیں –
راویوں کی طاقت کو سمجھیں ، یہود راویوں کو بھگت چکے ھیں ، ان راویوں کا قبضہ مذھبی طبقے کے دل و دماغ پر عفریت کی طرح کامل اور مکمل ھوتا ھے ، یہ لوگ وہ سوچ، سوچ سکتے ھی نہیں جو عام آدمی سوچ لیتا ھے ، یہود کے انبیاء ان راویوں کے سامنے بےبس تھے ، وہ جو چاھتے تھے نبیوں میں عیب لگا دیتے تھے ، اور لوگ راویوں کی لائن دیکھ کر اس کو کلام اللہ سمجھ کر ایمان کا حصہ بنا لیتے ، عیسی علیہ السلام کی جان لینے کے فتوے اسی مافیا کی جانب سے آئے تھے !
ان راویوں نے سلیمان علیہ السلام کی طرف جادو کو منسوب کر دیا کہ وہ جادوگر تھے اور جادو کے زور پر جنات کو قابو کر رکھا تھا اور ان کی عظیم الشان سلطنت اللہ کی عطا نہیں بلکہ جنات کے زور پر قائم تھی ، اور وہ جادو ان کی کرسی یا عرش کے نیچے دفن تھا ، اسی لئے انہوں نے سلیمان علیہ السلام کو تورات میں نبیوں کی فہرست میں جگہ نہیں دی بلکہ الگ سے بادشاھوں کی فہرست میں رکھا –
ان راویوں نے حضرت سلیمان پر الزام رکھا کہ انہوں نے ایک مشرکہ ملکہ کو اپنے محل میں رکھا اور اس کو بتوں کی عبادت کی اجازت دی اور اس کا جنسی استحصال کیا ، ان الزامات کی تردید اللہ پاک نے قرآن میں کر دی ، ما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا — کفر یعنی جادو سلیمان نے نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کیا تھا ،، ملکہ بلقیس کے بارے میں فرمایا کہ ( ( قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) وہ تو پہلے دن ھی تائب ھو کر مسلمان ھو گئ تھی اس نے کہا تھا کہ اے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ” شرک کا ارتکاب کر کے” اور میں سلیمان کے ساتھ رب العامین کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ھوں
حضرت داؤد علیہ السلام پر اپنے ایک سپاھی کی بیوی پر عاشق ھو کر اس کے شوھر کو خطرناک جنگ میں بھیج کر مروا دینے اور اسکی بیوہ سے شادی رچانے کا الزام لگایا ، راویوں کی طاقت کے سامنے نبوت کی عظمت ھار گئ اور یہود نے اس الزام کو سچ مان لیا قرآن نے اس الزام کی بھی تردید کی ، حضرت ھارون علیہ السلام پر شرک اور گوسالہ بنا کر دینے کا الزام جس کی صفائی اللہ پاک نے دی ، ولقد قال لھم ھارون یا قوم انما فتنتم بہ و ان ربکم الرحمٰن فاتبعونی و اطیعوا امری ،، اس کے علاوہ ھمت نہیں پڑتی کہ وہ کچھ لکھوں جس کی بنیاد پر چرچل نے کہا تھا کہ اگر اپنی اولاد کے کردار کو ٹھیک رکھنا چاھتے ھو تو ان کو بائیبل سے دور رکھو – اور لوگ راویوں کے قد کاٹھ ناپ کر سب کچھ مانتے اور اپنی کتابوں میں لکھتے چلے گئے –
یہ جو آپ قرآن میں بار بار ان رسولوں کے بارے میں پڑھتے ھیں ناں کہ ” انہ کان من الصالحین ، انہ کان من عبادنا الصالحین ، کانوا لنا خاشعین ، کانوا لنا عابدین ،، یہ اصل میں ان نبیوں پر لگے الزامات کا جواب دیا جا رھا ھے اور ان کے دامن کے دھبے صاف کر کے انسانیت سے اللہ پاک کے آخری خطاب میں ان کو باعزت بری کیا جا رھا ھے ،،
اللہ کے حبیب ﷺ نے یہ فرما دیا تھا کہ تم یہود کی قدم بقدم پیروی کرو گے ، اور بالکل ان جیسے بن جاؤ گے ،اور جس طرح جوتوں کے جوڑے کا ایک پیر دوسرے پیر سے بالکل مشابہ ھوتا ھے اسی طرح تم یہود سے مشابہ ھو جاؤ گے، ایک ایک قدم اور اک ایک چپہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں گھسا ھے تو تم بھی گھسو گے –
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” سَتَتَّبِعُونَ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بَاعًا بِبَاعٍ ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ ، وَشِبْرًا بِشِبْرٍ ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ فِيهِ ” ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى ؟ قَالَ : ” فَمَنْ إِذًا ؟ ”
ھم بالکل اسی راہ پر چلے اور ھم نے اپنے نبی ﷺ پر ھر وہ الزام لگایا جو بنی اسرائیل نے اپنے نبیوں پر لگایا ، اور ھم کتابوں کے تقدس کے نام پر اور راویوں کی فہرست کے نام پر ہپناٹائز ھو کر سب قبول کرتے چلے جاتے ھیں ، ھم اس قدر بےحس ھیں کہ چونکتے تک نہیں کہ یہ کس کی بات کی جا رھی ھے ؟ یہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج مطھرات سلام اللہ علیہن کی بات ھو رھی ھے جن کے بارے میں قرآن کی گواھی ھے کہ تم جیسی کوئی عورت نہیں ، لستن کاحدٍ من النساء ،،
سوال یہ ھے کہ سابقہ رسولوں کی صفائی تو قرآن نے دے دی ،، محمد مصطفیﷺ کی صفائی کون دے گا ؟ تمہیں سارے راوی تو مصوم لگتے ھیں کیونکہ رجال کی کتابوں میں انہی جیسے انسانوں نے کہہ دیا ھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ، وہ قابلِ اعتماد ھے ، مگر جس محمدﷺ کے خلق اور کردار کی رب قسمیں کھاتا ھے وھی قابلِ اعتماد نہیں ؟ ان کی عصمت کی کسی کو فکر نہیں ؟
گستاخ قاری حنیف ھے یا تمہارے راوی !
1- ( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا)
نبئ کریم ﷺ سے عالمِ عرب کی ایک عورت کی خوبصورتی کا تذکرہ کیا گیا ، آپ ﷺ نے ابا اسید الساعدیؓ کو حکم دیا کہ اس کو لانے کے لئے بندہ بھیجو، چنانچہ اس کو لانے کے لئے بندہ بھیج دیا گیا –
اب آپ غور فرمائیے ،، نبی ﷺ سے لوگوں کی بہوبیٹیوں کے حسن وجمال کے تذکرے ھو رھے ھیں اور وہ بھی وصال سے دو ماہ یا دو ہفتے پہلے – اور یہ تذکرہ سنتے ھی عورت کو بلانے کے احکامات پھر ان احکامات پر فوری عمل اور وہ عورت لا کر ایک باغ میں اتار دی گئ –
2- نبئ کریم ﷺ سے اس عورت کی پہلی ملاقات –
واضح رھے نبئ کریم ﷺ کی تمام شادیوں کا ریکارڈ موجود ھے کہ آپ کی طرف سے وکیل کون تھا ، لڑکی کی طرف سے کون تھا اور حق مہر کتنا مقرر ھوا اور حضورﷺ نے خود ادا فرمایا یا آپ کی جانب سے نجاشی نے دیا یا حضرت ابوبکرؓ نے دیا یا حضرت علیؓ نے دیا، یہ واحد شادی ھے جو کبھی ھوئی ھی نہیں ،نہ ایجاب و قبول ھوا ، نہ لڑکی کے وکیل کا پتہ، نہ حق مہر معلوم ، ایک لڑکی کو اس کے حسن کی بنیاد پر راویوں نے اٹھوایا اور ایک باغ میں لا اتارا ،، اب اللہ کے رسول ﷺ کو اس نام نہاد دلہن کے پاس کس شان سے لایا جا رھا ھے ذرا ملاحظہ فرمایئے ،،
وروى البخاري أيضا في صحيحه (5255) عَنْ أَبِى أُسَيْدٍ رضى الله عنه قَالَ :
( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ ، فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اجْلِسُوا هَا هُنَا . وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِىَ بِالْجَوْنِيَّةِ ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ ، وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا –
ابا اسید جن کے ذمے لڑکی کو لانا تھا وہ فرماتے ھیں کہ ھم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہانتک ھم ایک احاطے تک پہنچے جس کو شوط کہتے تھے – یہانتک کے ھم دو احاطوں یا دو دیواروں کے درمیان پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ یہاں بیٹھو- اور خود داخل ھو گئے ،جونیہ عورت لے آئی گئ تھی اور امیمہ بنت النعمان بن شراحیل کے گھر اتاری گئ تھی ،، یہاں جونیہ امیمہ کے گھر میں مہمان اتری ھے ،مگر یہی لوگ الٹا امیمہ بنت نعمان کو حضورﷺ کی بیوی بنا دیں گے ، اس کو کہتے ھیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ھوتے
ملاحظہ فرمایئے وھی بخاری شریف ، وھی راوی حضرت ابااسیدؓ جو اوپر والی حدیث میں فرما رھے ھیں کہ جونیہ عورت لا کر امیمہ بنت النعمان بن شراحیل کے گھر اتاری گئ تھی ،
وروى أيضا رحمه الله (رقم/5256) عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِيهِ وَأَبِى أُسَيْدٍ قَالاَ : ( تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أُمَيْمَةَ بِنْتَ شَرَاحِيلَ ، فَلَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا ، فَكَأَنَّهَا كَرِهَتْ ذَلِكَ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُجَهِّزَهَا وَيَكْسُوَهَا ثَوْبَيْنِ رَازِقِيَّيْنِ –
وھی اس حدیث میں فرما رھے ھیں کہ رسول اللہ کی شادی امیمہ بنت نعمان سے ھوئی ، اب جونیہ فسانہ بن گئ ھے – جب یہ امیمہ رسول اللہ سے اللہ کی پناہ مانگے گی اور حضور ﷺ کو سوقہ Layman کہہ کر بےعزت کر دے گی ،، تو یہی لوگ اسٹوری کو نیا ٹوسٹ دیں گے کہ اس عورت کو پتہ ھی نہیں تھا کہ یہ اللہ کے رسول ھیں ، اوئے ظالمو امیمہ مدینے کی رھنے والی ھے مدینے میں اس کے باغات ھیں اور گھر ھے پھر بھی وہ نبی کو نہیں جانتی ؟ اور جب کسی عورت کو پتہ ھی نہیں ھوتا کہ اس کی شادی کس سے ھوئی ھے تو کیا وہ شادی منعقد ھو جاتی ھے ؟ اگر وہ مدینے کی امیمہ تھی تو اس کے حسن و جمال کا چرچا ” عالم عرب کی ایک عورت” کہہ کر کرنے کا کیا مقصد تھا ؟ مدینے کی ایک عورت نہیں کہہ سکتے تھے ؟
عجلہ عروسی کی کہانی !
حدیث (5255)
، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي .
قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
جب رسول اللہ ﷺ حجرے میں داخل ھوئے تو اس سے کہا کہ اپنا آپ مجھے ” ھبہ کر دو ” یعنی بغیر حق مہر کے گفٹ کر دو ، تو اس نے کہا کہ ” کیا کوئی ملکہ کسی بازاری آدمی کو اپنا آپ سونپ سکتی ھے ؟ ( علماء کوشش کرتے ھیں کہ سوقہ کو عام آدمی کہہ کر اس جملے کی سختی اور گستاخی کو کم سے کم کیا جائے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ جب کہنے والی نفرت اور کراھت کے طور پر کہہ رھی ھے تو مطلب سخت ترین ھی لے رھی ھے – اب آپ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اس عورت کو پرسکون کرنے کے لئے اس پر ہاتھ رکھا ، جس پر اس نے کہا کہ ” میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ھوں ” تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کی پناہ مانگی ھے جس سے مانگی گئ پناہ لاگو ھوتی ھے ، پھر نکل کر ھمارے پاس آ گئے اور کہا کہ ابا اسید اسے کپڑوں کا جوڑا دے کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو ،
اگر آپ کا دماغ سن نہیں ھوا اور آپ تقدس کے نشے میں عقل و شعور کھو نہ چکے ھوں تو یہ سوچنا واجب ھوتا ھے کہ اندر حجرے کے ڈائیلاگ باھر کیسے نکلے ؟
کیا رسول اللہ نے اندر کی بات چیت کی تفصیل بتائی ھے ؟
ایسا ممکن نہیں کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے صحیح حدیث میں عجلہ عروسی کی روئیداد باھر بیان کرنے والے کو کتے سے تشبیہہ دی ھے جو رستے میں اپنی حاجت پوری کر لیتا ھے-
کیا کوئی مائیک سسٹم تھا ؟ ظاھر ھے یہ بھی ممکن نہیں ۔۔
کیا یہ حضرات خوب کان لگا کر سن رھے تھے ، یعنی جاسوسی کر رھے تھے کسی کی پرائیویسی کی ؟
میں سمجھتا ھوں کہ اگر یہ صحابیؓ ھیں تو ایسا ھر گز نہیں کر سکتے ،راوی بےشک ان کو بدنام کریں ،،
پھر اگر انہوں نے چند جملے سن لئے تھے تو نبئ کریم ﷺ کا اس عورت پر ہاتھ رکھنا انہوں نے دیکھ کیسے لیا ؟ کیا کوئی کیمرہ لگا ھوا تھا یا ان لوگوں نے آنکھ لگا رکھی تھی اس حجرے یا خیمے کے کسی سوراخ سے ؟ ظاھر ھم کسی صحابیؓ پر یہ بدگمانی نہیں کر سکتے بےشک راوی ھمیں ان سے بدگمان کریں ،،
پھر اگر انہوں نے سن ھی لیا تھا اور دیکھ ھی لیا تھا تو کیا کسی کی عجلہ عروسی کی باتیں باھر بیان کرنا جائز ھے ، اور خاص طور پر اپنے رسول ﷺ کے حجرے کی باتیں باھر کرنا تو خیانت ھو گئ – پھر عزت افزائی ھوئی ھوتی تو بھی کوئی بات تھی کہ چلو اس بیان سے بیویوں کو بتانا مقصود تھا کہ شوھروں کو اس طرح ویلکم کرتے ھیں – ایک تو رسول اللہ ﷺ کی انسلٹ کرائی اوپر سے سب کو بتاتے بھی پھرتے ھیں ،ھم تو صحابہؓ سے یہ گمان نہیں رکھتے ،،
اس کے بعد آپ بخاری شریف کی آج تک لکھی جانے والی ساری شرحیں دیکھ لیں آپ کو نچلے درجے کی کتابوں سے روایتیں لے کر اس اسٹوری کو مزید آگے چلایا جاتا ھے –
سب سے پہلے اس داغ کو دھونے کی کوشش کی گئ کہ اس نامعلوم عورت نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدتمیزی کیوں کی !!
( آپ نے وہ ایڈ دیکھی ھو گی جس میں واشنگ پاؤڈر کا ایجنٹ پہلے ھر قسم کا داغ لگاتا ھے پھر کہتا کہ پہلی دھلائی میں سارے داغ صاف – بالکل یہی پالیسی ان راویوں کی ھے ،پہلے داغ لگاتے ھیں پھر دو چار قسم کی متضاد احادیث لا کر ان داغوں کو صاف کرنے کی سعی کرتے ھیں )
پہلی دھلائی –
. فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ ،،
لوگوں نے اس عورت کو کہا کہ کیا تجھے معلوم ھے کہ یہ کون تھے ؟ اس نے کہا کہ نہیں ،،
انہوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ تھے جو تجھ سے شادی کرنے آئے تھے ، اس نے کہا کہ میں اتنی خوش قسمت نہیں ،، غور فرمایئے جب یہ لوگ اس کو امیمہ بنت نعمان کہیں گے تو بھول جائیں گے امیمہ تو مدینے کی باسی ھے کیا وہ دس سال میں رسول اللہﷺ سے ھی واقف نہیں تھی حالانکہ اس زمانے میں عورتیں بھی نماز مسجد میں پڑھتی تھیں ؟ مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ھوتے –
دوسری دھلائی –
امہات المومنین کی توھین ،،
فیصلہ کیجئے کہ قاری حنیف کرتا ھے یا راوی کرتے ھیں –
ويذكر بعض أهل العلم أن سبب استعاذتها من النبي صلى الله عليه وسلم ما غرها به بعض أزواجه صلى الله عليه وسلم ، حيث أوهموها أن النبي صلى الله عليه وسلم يحب هذه الكلمة ، فقالتها رغبة في التقرب إليه ، وهي لا تدري أن النبي صلى الله عليه وسلم سيعيذها من نفسه بالفراق إن سمعها منه .
اھل علم کہتے ھیں کہ اس عورت کا رسول اللہ ﷺ سے پناہ مانگنا اس وجہ سے تھا کہ اس کو رسول اللہ کی بعض بیویوں نے دھوکے سے پٹی پڑھائی تھی کہ رسول اللہ ﷺ اس کلمے یعنی اعوذ باللہ منک کو بہت پسند فرماتے ھیں – تو اس عورت نے رسول اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے یہ جملہ بولا ھو ،، اور اس بیچاری کو پتہ ھی نہ ھو کہ اس کلمے کے نتیجے میں رسول اللہ اس کو فارغ ھی کر دیں گے –
اب یہ بعض ازواج مطھرات کون تھیں یہ بھی پڑھ لیجئے –
، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك ،،
حفصہؓ نے عائشہؓ سے کہا یا عائشہؓ نے حفصہؓ سے کہا کہ تم اس کو مھندی لگاؤ اور میں اس کو کنگھی کرتی ھوں ،،تو دونوں نے ایسا ھی کیا ( جب وہ ان سے اس خدمت کے نتیجے میں مانوس ھو گئ ) تو انہوں نے اس کو کہا کہ رسول اللہ ﷺ عورت سے اعوذ باللہ کو بہت پسند فرماتے ھیں ،،
اس کا انجام بھی پڑھ لیجئے ،، ابن سعد طبقات میں لکھتا ھے کہ جب رسول اللہ کو بتایا گیا کہ آپ کی ازواج نے اس بیچاری کا حسن دیکھ کر اسے دھوکے سے یہ پٹی پڑھائی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کی ” یہ یوسف والی عورتیں ھیں ،یعنی مکار اور چالباز ( فلما سمعت بمکرھن ) ( ان ربی بکیدھن علیم ) سورہ یوسف میں سے ان عورتوں کا تعارف پیش کر دیا گیا ھے جس سے اللہ نے اور یوسف علیہ السلام نے ان کو پکارا تھا ، اب اس جملے کی ضرب کو ناپ تول لیجئے کہ ” انھن صواحب یوسف ” یہ یوسف کے قصے والی عورتیں ھیں یا سورہ یوسف والی عورتیں ھیں ،،
وإنما خدعت لما رؤي من جمالها وهيئتها ، ولقد ذكر لرسول الله من حملها على ما قالت لرسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنهن صواحب يوسف )
وہ بےچاری اپنے حسن اور قد و کاٹھ کی خوبصورتی کی سزا میں فریب دی گئ عورت تھی جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا کہ اس کو یہ جملہ کہنے پر کس نے آمادہ کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ وھی یوسف والی عورتیں ھیں –
اب بتایئے گستاخ قاری ھے یا راوی ؟