جانتا ھوں ثوابِ طاعت و زہد !
پر طبیـعت ادھـــر نہـیں آتـی !
مولوی ھونا یا مولوی کا بیٹا ھونا ! ایک ھی درجے کا جھٹکا دیتا ھے !
آپ اللہ سے ڈریں یا نہ ڈریں لوگوں سے ڈرنا واجب ھو جاتا ھے !
لوگوں سے ڈرنا اس وجہ واجب نہیں ھو جاتا کہ لوگ بہت پرھیز گار ھیں ،بلکہ اس لئے کہ لوگ آپ کو امام بناتے ھی اس وجہ سے ھیں کہ آپ روحانی طور پر صحتمند ھیں اور قربانی صحتمند جانور ھی کی لگتی ھے !
ویسے تو مولوی ، مولوی ھی ھوتا ھے گنہگار ھو یا بے گناہ ! کیونکہ گوشت یعنی سالن جل بھی جائے تو سالن ھی کہلاتا ھے دال نہیں بن جاتا ! ویسے تو کل بنی آدم خطاؤن،، و خیر الخطائین توابوں کے فرمانِ نبویﷺ کے مطابق ،آدم کے ھر بیٹے سے خطا ھوتی ھے اور خطا کاروں میں بہترین وھی ھیں جو پلٹ آتے ھیں ! مگر امام صاحب کی خطا کا ریٹ بھی ایک کے سات سو لگتا ھے،جبکہ عوام اپنا گناہ سستا بیچ دیتے ھیں یعنی ایک کے دس ،، اس معاملے میں وہ بہت انکساری سے کام لیتے ھیں ! امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ھیں کہ عام آدمی کا گناہ چھپانا واجب جبکہ عالم کا گناہ چھپانا فرض ھو جاتا ھے کیونکہ لوگ اس سے دلیل پکڑتے اور گناہ پر جری ھوتے ھیں !
خیر گنہگار تب تک ھی کام کی چیز رھتا ھے جب تک اسے احساس رھتا ھے کہ وہ گنہگار ھے ! اس احساس کے تحت اللہ پاک اسے اپنی رحمت کے آئی سی یو وارڈ میں رکھتا ھے اور اس کے قلب کا دورہ کرتا رھتا ھے،، مگر جب وہ سمجھتا ھے کہ وہ گنہگار نہیں ھے تو اللہ بھی اسے آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیتا ھے جہاں ھاؤس جاب والے ھی اسے ڈیل کرتے ھیں،، بندے کو یہ گھمنڈ ھو جائے کہ وہ نیک ھے یا یہ گمان ھو جائے کہ وہ بے گناہ ھے ! نتیجہ دونوں کا رب کی رحمت سے دوری ھے !! قصہ ابلیس اس معاملے میں ایک عبرت ناک مثال ھے،، سجدے سے اسے اس گھمنڈ نے روکا کہ وہ آدم سے بہتر ھے،، تو توبہ اسے اس گمان نے نہیں کرنے دی کہ اس کی تو کوئی غلطی ھے ھی نہیں توبہ کس بات کی ؟ مولوی جب خود نیک بن کر اور گناہگاروں کا وکیل بن کر تصور میں کالا کوٹ پہن کر رب کی عدالت میں پیش ھوتا ھے تو دھتکار دیا جاتا ھے، مگر جب خود کو بڑا پاپی سمجھ کر پاپیوں کے ساتھ جھکی اور ندامت زدہ آنکھوں کے ساتھ ،، شرمسار دل اور ضمیر کے ساتھ مجرم بن کر اللہ کے سامنے پیش ھوتا ھے تو پھر اپنے ساتھ دوسروں کی بخشش کا سامان بھی کر دیتا ھے !
ایک اللہ والے کے پاس بستی والے حاضر ھوئے کہ ” حضرت قحط سالی نے تباہ و بدحال کر کے رکھ دیا ھے – آپ اللہ کے مقبول و محبوب بندے ھیں ، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ھمیں اور ھماری خطائیں معاف کر دے ! وہ چونکہ اصلی اللہ والا تھا، اور اللہ پاک کا مزاج شناس تھا،، وہ تڑپ اٹھا ،، اس نے کہا لوگو ! جس کے کئے پر پکڑے گئے ھو اسی کو سفارشی بنانے چلے آئے ھو ؟ میں نے مانگا تو بارش کی بجائے لاوا برسے گا ! مجھے اس بستی سے نکل جانے دو پھر اللہ سے مانگو گے تو بارش برسا دے گا ! اس نے اپنے کپڑے سمیٹ کر ایک تھیلے میں ڈالے جوتے پہنے اور رو رو کر اللہ سے دعا کی ” یا اللہ میرے گناھوں کی سزا ان معصوموں کو نہ دے ،، میں یہ بستی چھوڑ رھا ھوں ،میری وجہ سے روٹھی ھوئی رحمت کو ان کی طرف متوجہ کر دے ،،بزرگ کے ساتھ لوگ بھی رو رھے تھے کہ آسمان بھی رو پڑا،، اس طرح ٹوٹ کر رحمت برسی کہ جل تھل کر دیا ! نہ صرف سات آسمان بلکہ خود اللہ کے ڈیرے بھی انسان کے اندر ھیں ،، حدیث قدسی میں فرمایا ھے کہ میں زمین آسمان میں نہیں سماتا مگر بندہ مومن کا قلب مجھے سمو لیتا ھے ! بارش انسان کے اندر سے برستی ھے اور اندر سے ھی روکی جاتی،، جب تک انسان کی آنکھ نم رھتی ھے آسمان بھی نمناک رھتا ھے،، جب انسان کے اندر شقاوت اور سختی پیدا ھوتی ھے تو آسمان بھی سختی اور خشکی سے تڑخ تڑخ جاتا ھے !
خیر عرض کر رھا تھا کہ گنہگار دو قسم کے ھوتے ھیں ایک تو وہ جو گنہگار ھوتے بھی ھیں اور اپنے آپ کو سمجھتے بھی ھیں،، دوسرے وہ جو گنہگار ھوتے تو ھیں مگر اپنے کو گنہگار سمجھتے نہیں بلکہ آداب کی وجہ سے انکساری کا اظہار کرتے ھوئے اپنے کو گنہگار کہتے ھیں اور اس پر بھی اجر کے امیدوار ھوتے ھیں کہ انہوں نے گنہگار نہ ھوتے ھوئے بھی گناہ کا اعتراف کیا ھے،جس طرح آپ مشین پہ بل جمع کراتے ھوئے بڑا نوٹ جمع کرا دیں تو مشین ایکسٹرا پیسے ایڈوانس آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کر دیتی ھے !
دعا مانگنے کا مزہ اصلی گنہگار کے پیچھے ھی آتا ھے،، نہ کہ اس کے پیچھے جو دعا کو احسان چڑھا کر مانگ رھا ھو ! جس طرح اصلی مریض کی چیخ و پکار اور درد سے تڑپنا دوسرے انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ھے یہی کیفیت اصلی گنہگار کے ساتھ کھڑے ھو کر ھوتی ھے !
حج کے دوران میدان عرفات میں تھے ،، 3 بجے کے لگ بھگ ھم دو تین ساتھی باھر نکلے کہ جبلِ رحمت کی طرف چلیں ! خیمے سے نکل کر کوئی 200 گز دور گئے ھونگے کہ اچانک رونے دھونے اور چیخ و پکار کی آوازیں کان میں پڑیں ،، سوچا کوئی حاجی بےچارہ اللہ کو پیارا ھو گیا ھے ،، پاس جا کر دیکھا تو مجمع لگا ھوا تھا، ایک موٹا تازہ اور لمبا دھڑنگا گنہگار رو رو کر اور بلک بلک کر اللہ سے معافیاں مانگ رھا تھا،، وہ اردو میں دعا کراتے کراتے اچانک پنجابی میں دہائی دینے لگتا ،، بس جناب دل کے سوتے کھل گئے سوچا رحمت تو ادھر برس رھی ھے ھمارے خیمے کے پاس ،، چونکہ وہ بھی بار بار مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈال رھے تھے ھم نے بھی ریت کی مٹھی بھری اور سر پر ڈال کر شروع ھو گئے،، رونے میں ھمیں بچپن سے کمال حاصل تھا، ماسٹر حسن اختر صاحب دوسری صف کو مار رھے ھوتے تھے اور ھم سامنے کی صف میں ایڈوانس رو رھے ھوتے تھے ! دعا جب ختم ھوئی تو میں اس گنہگار کے ھاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھا جس نے ھمیں دھوبی کی طرح نچوڑ کر گند نکال دیا تھا،، اگر وہ ” گنــد "ھم میدانِ عرفات سے بھی واپس لے آتے تو پھر وہ کسی لانڈری میں نہیں دھل سکتا تھا ! پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ ” آنجناب ” کا نام الیاس کاشمیری تھا جو غالباً پنجابی فلموں کے ولن تھے اور بڑے قد آور شخص تھے ! بس جو مزہ الیاس کاشمیری کے پیچھے دعا میں آیا وہ پھر کبھی نصیب نہ ھوا اگرچہ کئ چکر عرفات کے لگ گئے مگر کوئی الیاس کاشمیری نہ ملا جو ھمیں نچوڑتا !
مولوی کی اولاد ھونا بھی ایک مسئلہ ھے،، آپ گناہ سے اس لئے نہیں بچتے کہ وہ بری چیز ھے، بلکہ اس لئے بچتے ھیں کہ آپ امام صاحب کے بیٹے ھیں ! اسی طرح نیکی کو نیکی سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ھیں کہ آپ امام صاحب کے بیٹے ھیں،، بس گویا نیکی ایک چونگی ھے یا ٹول ٹیکس ھے جو آپ کو مولوی کا بیٹا ھونے کے ناطے ادا کرنا ھے،، آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے کیونکہ لوگ کیا کہیں گے کہ مولوی کا بیٹا ھو کر کرکٹ کھیلتا ھے ! آپ ٹوپی سر سے ھٹا کر اپنے کنگھی کردہ ریشمی بال کسی کو نہیں دکھا سکتے کیونکہ آپ امام صاحب کے بیٹے ھیں،، بلکہ سر کو ھر وقت اس طرح کس کر باندھے رکھنا ھے جس طرح دیہات میں لوگ پنجیری والے گڑوے کا منہ کپڑے سے کس کر باندھتے ھیں،، ھاں اگر ابا جی کو مسجد سے فارغ کر دیا جائے تو اب آپ بھی آزاد ھیں،، یا محلہ تبدیل کر لیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ! بچہ بچہ ھوتا ھے امام صاحب کا ھو یا وسیم اکرم کا ،،اس کا دل بچہ ھوتا ھے، اللہ نے اسے جو گریس پیریڈ دیا ھے ،جس میں وہ مرفوع القلم ھے اس کی برائیوں کی ابھی فائل نہیں بنی،، اس عرصے میں اسے اپنا بچپن انجوائے کرنے دیجئے ورنہ ابنارمل بچپن آگے چل کر مسائل پیدا کرتا ھے، اور پھر جب ایسا بچہ مولوی بنتا ھے تو دل پشوری کرنے کے لئے وھی کچھ کرتا ھے جو ھمارے بدعتی مولوی میلاد کے نام پر ھر سال نئے نئے میلے ٹھلے ایجاد کرتے ھیں ! یہ ان کا immature بچپن ھی ھے جو دین کو بگاڑ کر خراج وصول کر رھا ھے