اللہ پاک نے چاھا کہ کوئی ایسی مخلوق تخلیق فرمائے جو اسے جبر سے نہیں بلکہ اپنی مرضی کے ساتھ Face Value پہ چاھے اور اپنا رب مانے ،، اس کے لئے اس نے ضابطہ یہ بنایا کہ ھدایت اسی کو نصیب ھو گی جو ھدایت خود طلب کرے گا ، و یھدی الیہ من ینیب ،،ھدایت اسی کو دے گا جو اس میں اپنی دلچسپی دکھائے گا ، اس کی طرف اپنا رجحان دکھائے گا ،، اس ضابطے میں کوئی استثناء نہیں رکھا ،، نوح علیہ السلام کی بیوی کو ھدایت نہیں چاھیئے تھی تو اللہ نے اسے ھدایت نہیں دی اگرچہ اس میں رسول پر انگلی بھی اٹھ سکتی تھی کہ جس کو اپنی بیوی جو سب سے زیادہ واقفِ حال ھوتی ھے نہیں مانتی اس کو ھم کیوں مانیں ؟ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو ھدایت نہیں چاھیئے تھی تو اللہ پاک نے اسے زبردستی ھدایت نہیں دی ،، اور نہ اس بات سے مجبور ھوا کہ لوگ کہیں گے جو بیٹے کو راہ نہیں دکھا سکا وہ ھمیں کیا راہ سجھائے گا ،، یا جس پر بیوی اور بیٹے نے اعتبار نہیں کیا ھم اس پر کیسے اعتبار کر لیں ،،یہی کیس ابراھیم علیہ السلام کے والد آزر اور لوط علیہ السلام کی بیوی اور نبئ کریم ﷺ کے چچاؤں کا بھی ھے ،، دنیا بغیر طلب دے دیتا ھے ،ایمان کے ساتھ طلب شرط رکھی ھے ،، گن پوائنٹ پہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو کسی لڑکی سے شادی پر مجبور کرے تو یہ اس ” لڑکی ” کی انسلٹ ھے اور اگر باپ لڑکی کو جبر کے ساتھ یا اپنی پگ اس کے قدموں میں رکھ کر کسی لڑکے سے شادی پر مجبور کرے تو یہ اس لڑکے کی توھین ھے ،جبر اخلاقی ھو یا فزیکل ،، دونوں صورتوں میں ناقابلِ قبول ھے ، اگر کسی کو گن پؤائنٹ پہ مسلمان بنایا جائے تو یہ اللہ کی توھین ھے ، اسی وجہ سے اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ” وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ ﴿ یونس-۹۹﴾ .
اگر آپ کا رب چاھتا تو اس زمین پر بسنے والے سارے کے سارے اجتماعی طور پر مومن بن جاتے ، جب رب مجبور نہیں کرتا تو اے نبی ﷺ کیا آپ لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ ایمان لائیں ؟
اس کے بعد اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ اللہ پاک بندے کے کفر پہ راضی نہیں ھے اگرچہ اسے کفر کرنے کا اختیار ضرور دیا ھے ،، ارشاد فرمایا ” إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر وإن تشكروا يرضه لكم” ( الزمر -7 ) اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ھے یعنی تمہارے کفر سے اس کا کوئی نفع جُڑا ھوا نہیں ھے ،اور وہ اپنے بندوں کے کفر پر خوش نہیں ھے ،، البتہ اگر وہ ایمان لائیں تو اس میں اس کی خوشی ھے ( کہ اس کے بندوں کا نفع ھو گا )
رضا اور مشیئت کا فرق !
جب ایک طالبِ علم کو کمرہ امتحان میں بٹھایا جاتا ھے تو پھر اسے غلط اور صحیح دونوں لکھنے کا اختیار دیا جاتا ھے ،، اگر اسے صرف صحیح لکھنے پر مجبور کیا جائے اور غلط لکھے ھوئے کو مٹا کر پھر جبر کے ساتھ درست لکھوایا جائے ،، تو پھر یہ کلاس روم ھے کمرہ امتحان نہیں ھے ،،، ملحد یہ چاھتے ھیں کہ ایک طرف اللہ پاک لوگوں کو یہ بتائے کہ دنیا تمہارے لئے دارالامتحان ھے ، و نبلوکم بالشرِ والخیر فتنہ ،، ھم تمہیں برے اور اچھے حالات و واقعات کے ساتھ بلوئیں گے جس طرح دھی میں مدھانی مار کر دودھ کو بلویا جاتا ھے اور مکھن نکالا جاتا ھے ،، اور دوسری طرف وہ قدم قدم پر ڈانٹ کر اور سزا دے کر ساتھ ساتھ Answer sheet میں درستگیاں بھی کراتا جائے ،، اس کا نام کرپشن ھے ،، امتحان نہیں ،،
میں ممتحن ھوں ، میرا ھی بیٹا میرے ھی پڑھائے ھوئے سبجیکٹ میں غلطی کر رھا ھے ، اور میں دیکھ رھا ھوں کہ وہ غلط لکھ رھا ھے ،، ایمانداری کا تقاضا یہ ھے کہ میں اسے دوسرے طلباء کی طرح ھی سمجھوں اور نہ تو اسے ڈانٹ کر اس کی غلطی سے آگاہ کروں نہ ھی کھنگار کر اور نہ ھی باڈی لینگویج سے بے قراری اور بے چینی ظاھر کر کے اسے سگنل دوں ،، اب اس کے غلط لکھنے میں میری مشیئت تو شامل ھے کیونکہ میں چپ کر کے اسے غلط لکھنے دے رھا ھوں ،مگر میرا اندر رو رھا ھے ، اس کے اس غلط لکھنے میں میری رضا شامل نہیں ھے ،، اب جب ریزلٹ آئے اور وہ بچہ اپنے فیل ھونے کا الزام مجھ پر لگائے کہ اگر آپ چاھتے کہ میں پاس ھو جاؤں تو آپ مجھے اس وقت بتا سکتے تھے کہ میں غلط لکھ رھا ھوں ،، یہ آپ ھی چاھتے تھے کہ میں فیل ھو جاؤں ورنہ آپ نے مداخلت کیوں نہیں کی ؟ کیا خیال ھے میرے بیٹے کا مجھ پر الزام درست ھے ؟ پھر ملحد یہ بات کیسے کہہ سکتا ھے ؟ جس رب نے انبیاء کے رشتے داروں کے معاملے میں مداخلت کر کے انہیں صحیح لکھنے پر مجبور نہیں کیا وہ ایک ملحد کو راہ پر لانے کے لئے کیوں مداخلت کرے ؟
جب وہ فرماتا ھے کہ ” یضل من یشاء "( ان یُضَل ) و یھدی من یشاء ( ان یُھدَی ) وہ گمراہ ھونے دیتا ھے اسے جو چاھتا ھے کہ گمراہ ھو ،، اور ھدایت دیتا ھے اسے جو چاھتا ھے کہ اسے ھدایت دی جائے ، علامہ محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ یہاں یہ دونوں باتیں محذوف ھیں ،یہاں مشیئت بھٹکنے والے اور ھدایت مانگنے والی کی مراد ھے ،،