یہ کائنات اللہ پاک کی نہایت سوچی سمجھی اسکیم کے تحت پیدا کی گئ ھے – یہ کوئی کسی کھلنڈرے کا کھیل یا کسی جذباتی کا جلدبازی میں اٹھایا گیا قدم نہیں ھے – اس کے بنانے والا آج تک کبھی پچھتایا نہیں ھے اور نہ ھی کوئی چیز اس کے لئے سرپرائز ھے – اس نے انسان کو ایک مقصد کے تحت پیدا فرمایا اور اسے ارادے کا بارِ امانت اٹھوایا – ایمان لانے کی صلاحیت اس میں پیدا فرمائی اور انکار کی جرأت بھی عطا کی ،، فألھمہا فجورھا و تقواھا ،، قد افلح من زکھا ،، و قد خاب من دسھا ،، کذبت ثمود بطغواھا ،،، ان چار آیات میں انسان کی کہانی اول تا آخر بیان کر دی –
یہ معلوم ھونے کے باوجود کہ یہ شخص ایمان نہیں لائے گا ، پھر بھی اس میں ھدایت کا بلبلہ ضرور رکھا ، ایمان کو قبول کرنے کی صلاحیت ضرور رکھی تا کہ قیامت کو حجت قائم ھو ،، فرعون نے آخر وقت میں ایمان لا کر ثابت کر دیا کہ اس میں ھدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود تھی مگر اس نے وقت پر اس کو استعمال نہیں کیا یوں خائب و خاسر ھوا –
اللہ پاک نے انسان کے اندر ھدایت کا جو فطری جزو رکھا ھے ، اس شرط کے ساتھ رکھا ھے کہ انسان جب تک اس کو استعمال نہیں کرے گا باھر کی ھدایت اس کے کسی کام نہیں آئے گی ، جس طرح دیکھنے کا عمل اندرونی و بیرونی دو اجزاء سے مل کر بنا ھے ، آپ کے اندر کا نور یعنی Visual System اور باھر کی روشنی دونوں ملتے ھیں تب دیکھنے کا عمل تشکیل پاتا ھے – اللہ پاک نے فرمایا ” و نفسٍ وما سواھا ،، قسم ھے نفس کی اور جس طور پر اس کو بنایا گیا ھے ، چنانچہ اس میں فجور اور تقوے کی صلاحیتین رکھ دی گئیں – کامیاب رھا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا – اور خائب ھوا وہ جس نے اس کو دبا دیا ، ثمود نے سرکشی کی وجہ سے ھدایت کو جھٹلا دیا ( نہ کہ لا علمی کی وجہ سے ) دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ ” فا ما ثمود فھدیناھم ، جہاں تک تعلق ھے ثمود کا تو ھم نے ان کو ھدایت دے دی تھی ، فاستحبوا العمی علی الھدی ،، انہوں نے ھدایت کی بجائے اندھے پن کو پسند کیا ،،، جب تک کوئی انسان خود انابت اور دلچسپی نہیں دکھائے گا باھر کی سفارش اس کے کام نہیں آئے گی اور نہ رشتے داری آگے بڑھ کر ھاتھ پکڑے گی ،،،،،،،،،،
قد افلح من زکٰھا ،، کامیاب و کامران رھا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا ،، تزکیئے کا عمل اگر سیکھنا ھے تو ایک مرغی اس کی بہترین مثال ھے – اکثر دیکھا گیا ھے کہ مرغی اپنے انڈوں کا بغور جائزہ لیتی اور ان کو الٹتی پلٹتی رھتی ھے – جب تک آکسیجن دریافت نہیں ھوئی تھی کسی نے مرغی کے اس عمل کی حقیقت نہیں جانی تھی ،، جبکہ وہ اس وقت بھی اتنی ھی سائنسدان تھی جب کوئی آکسیجن کا نام تک نہیں جانتا تھا -مرغی کے انڈے کے چپٹے حصے کی طرف اللہ پاک نے آکسیجن کا بلبلہ رکھا ھوتا ھے جب آپ انڈا ابالتے ھیں تو اسی کے بلبلے نکلتے ھیں اور جب چھلکا اتارتے ھیں تو آپ کو جھلی اور چھلکے کے درمیان خلا یا گڑھا سا نظر آتا ھے ، مرغی بغور دیکھ کر چپٹا حصہ اوپر کرتی رھتی ھے کیونکہ بچے کا منہ اوپر کی جانب بنتا ھے – اگر آکسیجن والا حصہ اوپر ھو گا تو بچے کو اتنی آکسیجن مل جاتی ھے کہ وہ اس کو استعمال کرتے ھوئے چھلکے کو توڑ کر باھر نکل آئے اور باھر آکسیجن کا سمندر اس کا استقبال کرنے کو تیار کھڑا ھے ، اس چھلکے کو توڑنے میں اس کی ماں بھی آخری لمحے میں اس کی مدد کرتی ھے ،، لیکن اگر لمبوترا حصہ اوپر ھو تو بچے کا منہ اس طرف بنتا ھے جہاں آکسیجن نہیں ھوتی یوں وہ بچہ انڈے میں ھی مر جاتا ھے ، اور مرغی کے خراب انڈے توڑ کر ایسے مکمل مگر مرے ھوئے بچے دیکھے جا سکتے ھیں ، عموماً مرغی کی استطاعت سے زیادہ انڈے رکھ دیئے جائیں تو پھر وہ خیال نہیں رکھ پاتی اللہ پاک نے یہ جاننے کے باوجود کہ کونسا انسان ایمان لائے گا اور کونسا کافر مرے گا تمام انسانوں میں ھدایت کا وہ بلبلہ رکھا ھے ،جس طرح یہ جاننے کے باوجود کہ کونسا انڈہ مرغی کے نیچے رکھا جائے گا اور کونسا آملیٹ بنا کر یا ابال کر کھا لیا جائے گا تمام انڈوں میں اکسیجن کا بلبلہ رکھا ھے ، یہ اللہ پاک کی سنت اور طریقہ کار ھے ،، اب انسان کا کام یہ ھے کہ وہ اپنے دل پر وقتاً فوقتاً نگاہ کرتا رھے اور اس کا تزکیہ کرے جس طرح مُرغی انڈوں پہ نظر مار کر ان کا تزکیہ کرتی رھتی ھے یعنی ان کا رخ درست کرتی رھتی ھے ، اسی طرح انسان بھی اپنے قلب کا رخ اوپر کی جانب مرکوز کرتا رھے ،، انسان بس پہلا قدم اٹھا لے ، پھر انسان چل کر آتا ھے تو اللہ دوڑ کر آتا ھے ،،