تیری قسم ھم نے تم کو محبت کا خدا جانا !
لوگوں کے سوالات اور کمنٹس سے جس حقیقت کا اظہار ھوتا ھے ، وہ حقیقت ان سے سوال کر کے بھی کبھی عیاں نہ ھوتی،، بعض دفعہ انسان خود کو بیان نہیں کر سکتا مگر اس کا کمنٹ اور اس کا سوال اس کی سوچ اور شخصیت کو نمایاں کر دیتا ھے ! لوگ اللہ پر ایمان تو رکھتے ھیں،،مگر سمجھ کر نہیں ! ان کا ایمان کاپی پیسٹ ٹائپ ایمان ھے ! اس لئے جب اللہ کی حقیقت بیان کی جاتی ھے تو وہ اس چیز کا ھی انکار کردیتے ھیں ،جو وہ سالوں سے سنبھالے پھر رھے ھوتے ھیں!سوچ سمجھ کر ایمان لانے اور باپ کا ایمان شیئر کر لینے میں یہی فرق ھوتا ھے ! ھم حج پہ جا رھے تھے یہ 1982 کی بات ھے،ھمارے قافلے میں ایک ایسے صاحب بھی تھے جو کسی اور کے پاسپورٹ پر حج پر جا رھے تھے ،، یہ وہ زمانہ تھا جس میں خلیجی ممالک میں کوئی خاص جدید نظام نہیں تھا کہ چیک کیا جاتا،،لوگ ایک دوسرے کے پاسپورٹ پکڑ کر پاکستان کا چکر بھی لگا لیا کرتے تھے ! خیر سب کے پاسپورٹ لینے اور انٹری اسٹیمپ کرنے کے بعد سعودی افسر ایک ایک آدمی کا نام لیتا اور بندے کے یس سر کہنے پر پاسپورٹ اس کے ھاتھ میں پکڑا دیتا یوں بندوں اور پاسپورٹوں کی گنتی ھو جاتی ! ایک آدمی کا نام بار بار پکارا جاتا مگر کوئی جواب نہ ملتا ،، وہ پاسپورٹ پھر رکھ لیا جاتا اور اگلے پاسپورٹ شروع کر دیئے جاتے،، مزے کی بات یہ ھے کہ جس بندے کا پاسپورٹ والا نام بلایا جا رھا تھا،وہ سعودی افسر کے بالکل سامنے کھڑا تھا،مگر جواب اس لئے نہیں دے رھا تھا کہ وہ اس کا اصلی نام نہیں تھا،، پاسپورٹ کسی اور کے نام والا دے کر وہ اپنے اصلی نام کے بلائے جانے کا انتطار کر رھا تھا،اچانک بس کے ڈرائیور نے اسے پیچھے پشتو میں کہا کہ ،یہ پاسپورٹ تمہارا ھے،، اب اسے بھی اپنی غلطی کا احساس ھوا اور اس نے تڑپ کر کہا،، نعم، ای وا ،، افسر نے کہا تم آدھے گھنٹے سے میرے سامنے کھڑے ھو اور میں نام پکار پکار کے مر گیا ھوں تم بولتے نہیں ھو،،اس کا مطلب ھے یہ پاسپورٹ تمہارا نہیں ھے،، اسے سعودی بارڈر پر گرفتار کر لیا گیا اور ھماری جان چھوٹی ! بالکل یہی حال لوگوں کے ایمان کا ھے،انہیں ان کے رب کی صفات ھی گنوائی جا رھی ھوں مگر وہ منہ کھولے یوں دیکھ رھے ھوتے ھیں جیسے یہ کسی اور کا رب ھے ! اب مجھے نہیں پتہ اس میں قصور کس کا ھے،رب کا تعارف کرانے والوں کا کہ انہوں نے لوگوں کو ان کے رب کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا یا خود ان کا جنہوں نے اپنے رب کو قرآن سے کبھی دریافت نہیں کیا ! جب اللہ کی شہنشاہانہ ھستی کا بیان کیا جاتا ھے،کہ اس کے دربار میں شوخی نہیں چلتی،، عبادت کے زور پر جنت کے بہترین حصے میں جگہ بنا لینے والے شوخی میں مجرد ایک بات ایسی کہہ دیتے ھیں جسے وہ ھلکا اور معمولی سمجھتے ھیں جس کی وجہ سے ان کی عبادت ان کے منہ پر مار کر انہیں جہنم کے بدترین حصے میں پھینک دیا جاتا ھے،، اور گناھوں کے وبال میں گرفتار کوئی شخص جہنم کے بدترین حصے کا باسی بن چکا ھوتا ھے کہ کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ھے جسے مصطفیٰ ﷺکے بقول وہ معمولی سمجھتا ھے مگر وہ کلمہ عرش الہی کو ھلا دیتا ھے،،اللہ پاک اس کے اس کلمے سے اس قدر خوش ھوتا ھے کہ اٹھا کر جنت کے بہترین حصے میں پہنچا دیتا ھے،، وہ جسے چاھتا ھے بخشتا ھے کوئی مائی کا لعل اس کے اس اختیار پر قدغن نہیں لگا سکتا،، وہ شہنشاہ اللہ اپنے اس اختیار پر نبی کریمﷺ جیسی ھستی جس کا چہرہ ابھی میدان احد میں لہولہان تھا، ان کا بھی ایک جملہ برداشت نہیں کرتا، جب نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ” اللہ اس قوم کو کیسے ھدایت دے گا،اور معاف کرے گا جس نے اپنے نبی کا چہرہ لہولہان کر دیا ؟ تو اللہ پاک نے فوراً ٹوک دیا،،لیس لک من الامرِ شئٓ او یتوب علیہم اور یعذبھم ،، اے نبی آپ کا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں چاھے اللہ ان کی توبہ قبول کرے چاھے انہیں عذاب دے،، کچھ لوگوں کو یہ احساس کھائے اور ستائے جا رھا ھے کہ قاری حنیف جس طرح اللہ کو بیان کر رھا ھے ،اس سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رھا ھے، اور لوگ اب چھٹی لے کر گناھوں کی طرف دوڑ لگا دیں گے ! یہ دو طرفہ غلط فہمی ھے،، رب کو بھی اپنی ذات پر قیاس کرتے ھیں اور لوگوں کو بھی اپنی ذات پر قیاس کرتے ھیں،، کبھی بھی سلیم الفطرت ،کریم النفس شخص اللہ پاک کی مٖغفرت اور بخشش کا سن کر گناھوں کی طرف نہیں دوڑتا وہ پلٹتا ھے اور اپنے رب سے لپٹتا ھے،اس کے اندر اپنے رب سے محبت کا شعلہ بھڑکتا ھے،یوں ایمان میں جو عنصر ناپید تھا وہ پیدا ھو جاتا ھے اور ایمان کا سرکٹ مکمل ھو جانے سے ان کے کردار کی گاڑی اسٹارٹ ھو جاتی ھے،، ایمان دو چیزوں کا مجموعہ ھے ان میں سے ایک چیز بھی کم ھو جائے یا نسبت کم و بیش ھو جائے تو ایمان کی ھیئت تبدیل ھو جاتی ھے جس طرح پانی دو گیسوں کا مجموعہ ان میں سے کوئی ایک بھی الگ ھو جائے یا اس کی نسبت تناسب تبدیل ھو جائے تو پھر گیس تو رھے گی پانی نہیں ھو گا! ایمان = غایۃ الحب +مع غایۃ الذل والخشوع ! ھم میں خشوع تو ھوتا ھے کہ ناک آ کر رگڑ لیتے ھیں،،مگر ایمان کا دوسرا عنصر یعنی حب اور وہ بھی انتہا درجے کی محبت،، وہ ناپید ھوتی ھے نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ پانچ وقتہ نماز سات وقتہ رشوت خور ھوتا ھے، یہ ناک رگڑنا آگ کے ڈر سے ھوتا ھے،، اللہ کی محبت میں نہیں ھوتا،لہذا وہ نتیجہ بھی نہیں دیتا جو خالص ایمان دیتا ھے،ایسا ایمان انسان پر ایک بوجھ ھوتا ھے ،اور جہاں بھی ذرا ضرورت ھوتی ھے وہ سب سے پہلے اس ایمان کو ھی بیچتا ھے ! وہ فرعون کے جادوگروں کی طرح سولی چڑھ کر بھی اس ایمان کو سینے سے نہیں لگا کر رکھتا ! تو جناب جب بندہ مومن یہ سمجھ لیتا ھے کہ اس کا رب گناھوں کے علی الرغم اس سے پیار اور محبت کرتا ھے،، وہ ابھی تک دروازے کھولے بیٹھا ھے اور اس کی آخری سانس تک اس کا انتظار کرتا ،، گناھوں کو ایکسچیج کر کے نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ھے ،،،، تو وہ لپکتا ھے اپنے رب کی رحمت کی طرف جس کی وسعت زمین آسمان سے زیادہ ھے اور جو رب نے اپنے اوپر فرض کر رکھی ھے ! گناھوں سے صرف محبت روک سکتی ھے،، کیونکہ اس میں انسان سوچ سوچ کر اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی ذات سے ان عیبوں کا نکال باھر کرتا ھے جو اس کے محبوب کو ناپسند ھوں،، مجازی محبت میں ھم دیکھتے ھیں کہ وہ بچہ جو والدین کے بار بار کہنے اور منتیں کرنے سے نہیں نہاتا،،بس محبت کی جاگ لگتے ھی بار بار نہانا اور کنگھی پٹی کرنا شروع کر دیتا ھے،،، والدین کو سمجھ لگ جاتی ھے کہ ریشماں جوان ھو گئ ھے ! یہی بات لڑکی کے بارے میں ھے،، جس لڑکی کو ماں سو بار کہے تو گھڑا بھرنے نہیں جاتی ، مجازی محبت کا تڑکا لگتے ھی بھرے ھوئے گھڑے کو خالی کر کے کنوئیں کی طرف دوڑ لگاتی ھے،، میاں محمد صاحب نے فرمایا ھے جس گھر میں محبت داخل ھوتی ھے اس گھر کے گھڑے پانی سے بھرے رھتے ھیں ! جی یہی محبت کے ایمان والے،فرضوں کے گھڑے الٹ الٹ کر نفلوں سے بھرنا شروع کرتے ھیں،،ساری ساری رات محبت ھی کھڑا رکھتی ھے،ڈر یہ کام نہیں کرتا،، نبی کریمﷺ کو نہ جنت کی لالچ تھی نہ جہنم کا ڈر،، مگر ساری رات قیام اور سجدوں میں گزر جاتی تھی ! جب کہ کچھ لوگ اللہ کو ایک سوپر کمپیوٹر ٹائپ چیز سمجھتے ھیں جس کے اپنے کوئی زندہ احساسات نہیں،،بس ٹھکا ٹھک نیچر کو چلا رھا ھے۔۔جہاں اسباب پورے کر دیئے جاتے ھیں وھاں وہ عطا کرنے پر مجبور ھے ،اس کے پاس کوئی متبادل آپشن موجود نہیں ھے، ایسا نہیں ھے وہ ایک زندہ جاوید ھستی ھے، وہ محبت کرتا ھے اور اعلان بھی کرتا ھے واللہ یحب المحسنین،،واللہ یحب المتطھرین،، واللہ یحب الصابرین،، اور پلٹ کر محبت کا تاقضہ بھی کرتا ھے اور محبت بھی کام چلاؤ نہیں بلکہ شدید محبت ‘جو ھر محبت کو اللہ کی محبت کے قدموں میں قربان کرنے پر تیار ھو ! والذین آمنوا اشدُۜ حباً للہ ،، جو کہتا ھے جو دو اللہ کی محبت میں دو اور جو روکو وہ اللہ کی محبت میں روکو ! وہ نفرت بھی کرتا ھے،،واللہ لایحب المعتدین ،، واللہ لا یحبالمسرفین ،،واللہ لا یحب الکافرین ،، اس کا غصہ بھڑک بھی جاتا و غضب اللہ علیہم و لعنھم ! اللہ وہ ھے جس سے میں اپنے دل کی باتیں اپنی زبان میں کر سکتا ھوں،رو رو کر اسے دل کے داغ دکھا سکتا ھوں،وہ جاننے کا محتاج نہیں وہ تو سب جانتا ھے،،میں بتانے کا محتاج ھوں کہ میرا دل بتائے بغیر ھلکا نہیں ھوتا،، میں تو اپنے رب سے ایک دوست کی طرح باتیں کرتا ھوں کہ ” اللہ پاک اگر ایسے ھو جائے ناں تو مزہ آ جائے،، اور مزہ آ بھی جاتا ھے،،میں نے اپنے رب کو اپنی ذات سے بھی زیادہ قریب پایا ھے،،