ھم ھوئے،تم ھوئے کہ مِیر ھوئے-اس کی زلفوں کے سب اسیر ھوئے
January 4, 2014 at 8:16pm
ھندوستان کی مٹی آدم خور نہیں مگر مذھب خور ھے،، جس مذھب کے حامل بھی اس پر حملہ آور ھوئے اس نے اپنے دروازے ان کے لئے کھول دیئے گویا وہ کب سے کسی تازہ مذھب کی منتظر تھی،، آنے والا فاتح کہلانے کی خوشی میں ھی پھولا نہ سمایا اور اس کی نظر اس طرف اٹھ کر نہ گئ کہ اس کی روح ،اس کا مذھب آئستہ آئستہ سبز سے ھلکا براؤن ھو رھا،، وہ مر رھا ھے ،سسک رھا ھے اور کوئی اور اژدھا نما بلا اسے آئستہ آئستہ نگلتی جا رھی ھے، نگلنے کے اس عمل کا نقطہء کمال یہ ھوتا ھے کہ ھندوستان کا مذھب ھی فاتح کے مذھب کا روپ دھار کر معصومیت سے اس کی انگلی پکڑ لیتا ھے،اور انسان اسے اپنا بچہ سمجھ کر پالنا اور اور اپنا مذھب سمجھ کر پوجنا شروع کر دیتا ھے ! یہ واردات بدھ مت ،جین مت ،زرتشت کے عقائد ،سکھ ازم اور پھر اسلام کے ساتھ ھوئی،، سارے مذھب نگل جانے کے باوجود اسلام آسمانی کتاب اور اللہ کے حقیقی کلام کی بدولت ابھی تک مزاحمت کر رھا ھے ، اسلام کے نام پر تاریخ میں پہلی دفعہ ھندوستان کی تقسیم ھوئی ،یوں اسلام نے اپنے زندہ ھونے کا ثبوت دیا،، یہ الگ بات ھے کہ کلام اللہ نے اپنا وجود برقرار رکھا،اور ھندوؤن کے اسکرپٹ کا حصہ نہ بنی،مگر مسلمانوں کو ھند کی مٹی نے اپنا لیا،اسکی ایک وجہ تو مسلمانوں کا وراثتی طور پر اس مٹی اور ھندومت سے تعلق تھا، وہ جب اسلام میں داخل ھوئے تو پچھلا ڈیٹا یاعقائد فارمیٹ کر کے نہیں آئے تھے بلکہ وہ فائلیں بھی ساتھ ھی لے آئے تھے، بس ان کے دیوتاؤں کے نام تبدیل ھو گئے تھے اگرچہ شکتیاں پرانے دیوتاؤں والی تھیں،،آج بھی ھندو خواجہ غریب نواز کو اپنا دیوتا ھی سمجھتے ھیں اور ھر امید ان سے بر آنے کی امید لے کر آتے ھیں،، ھر فلم کے مہورت سے پہلے تحفوں کے ٹوکرے لئے امیتابھ بچن اور ایشوریا رائے خواجہ کی درگاہ پر ننگے پاؤں ٹوکرا لیئے حاضر ھوتے ھیں جسے وصول کر کے سبز چادر ان کے کندھوں پر سجا کر سجادہ نشین انہیں تحفے کی قبولیت اور مقصد میں کامیابی کی نوید سناتے ھیں !
کدی خواجہ پیا بن جانا ھیں -کدی گنج شکر بن آنا ایں !
نت نویں توں روپ وٹاناں این – میں پھڑیا جاں جے میں ھوواں !
میں اسی عقیدے کا اظہار کیا گیا ھے ! ھمارے یہاں قطب و غوث کے اختیارات کا ایڈمنسٹریٹیو ٹری مکمل طور پر ھندو مذھب کا چربہ ھے اور یہی ھندو نما مسلمان یا مسلمان نما ھندو پیدا کرتا چلا جا رھا ھے، اسلام اس قسم کے تصرفات اور تقدیروں کی ملکیت کسی اور کو سونپنے کے بالکل خلاف ھے،، قرآن و سنت اس قسم کے عقیدے کو بالکل سپورٹ نہیں کرتے بلکہ پورا قرآن ببانگِ دھل ان عقائد کی نفی کرتا ھے اور اللہ کے قریب ترین اور عزیزی ترین بندوں یعنی انبیاء کی مثالیں دے دے کر عملاً ثابت کرتا ھے کہ وہ قطب و غوث کے اختیارات نہیں رکھتے تھے بلکہ ھمارے بندے تھے اور ھر چیز ھم سے مانگ مانگ کر لیا کرتے تھے اور مانگتے بھی گڑگڑا گڑگڑا کر تھے اور ھر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے اللہ کی ذات سے رجوع کرتے تھے، مثلاً موسی علیہ السلام کی سورہ قصص والی دعا،، رب انی لما انزلت الی من خیر ” فقیر "( القصص 24 ) ان کی بےبسی کی تصویر کشی کرتی ھے،،اے پروردگار،، آج تو تُو جو بھی جتنی بھی خیر بھیج دے میں سخت محتاج ھوں ! یہ دعا کوٹ کرنے کا مقصد ھی ان کی قطبیت و غوثیت کی نفی کرنا تھا ! پھر سورہ الانبیاء میں تمام مشہور نبیوں کے مصائب اور پھر ان کی دعا اور پھر اللہ کی طرف سے ان کی مدد کے واقعات اس بات کو واضح کرنے کے لئے بیان کیئے گئے کہ،،عام آدمی ھو یا رب کا مقرب پیغمبر سب کا حقیقی ہتھیار دعا اور صرف دعا ھے،، کوئی اپنی غوثیت بھی نہیں کر سکتا تو دوسروں کی فریاد کو کیا پہنچے گا ! ھمارے بزرگوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن ان کے ان عقائد میں نہ صرف ان کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ سب سے بڑا مخالف اور سب سے بڑی رکاوٹ اور اڑچن ھے،،تو انہوں نے قرآن کے ظاھر اور باطن کا نظریہ گڑھا،یعنی گویا قرآن کا متن ھمارا ساتھ نہیں دیتا مگر قرآن کا باطن جو اصل چیز ھے وہ ھمارے ساتھ ھے،،محمدﷺ کے اگر اقوال ھمارے خلاف ھیں تو کوئی بات نہیں مگر حقیقتِ محمدی ھمارے ساتھ ھے،، یوں ھر چیز کا ظاھر اور باطن الگ کر کے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا گیا،،مگر یہ باطنیت بھی ایک تھیوری ھی رھی،ثابت نہ کی جا سکی،،میں ان سے کہتا ھوں کہ قرآن کا ظاھر اور باطن ایک ھے،، محمدﷺ کا ظاھر اور باطن ایک ھے،،کعبے کا ظاھر اور باطن ایک ھے،، کائنات کا ظاھر و باطن ایک ھے،، ھاں آپ کا ظاھر اور باطن جدا جدا ھے ! آپ کا ظاھر مسلمان مگر آپ کا باطن کچھ اور ھے! ھندوستان کا ھر مذھب بے کلچر ھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اسوہ نہیں ،،کوئی معلوم ایک ھستی نہیں کوئی زرخیز سنت نہیں جہاں سے وہ راہ پائیں ،یہ کمال اللہ پاک نے اسلام کو دیا ھے کہ اس کی کتاب بھی معلوم،، نبی کی سنت بھی معلوم ،، نبی کی قبر بھی معلوم اور اس کے نبی نے اپنی گیارہ بیویوں چار بیٹیوں اور ڈھیر سارے رشتے داروں کے ساتھ بھرپور معاشرتی زندگی گزاری،جس میں پیدائش ،شادی بیاہ،موت عید میلہ اور خرید فروخت سمیت ھر وہ چیز موجود ھے جسے کلچر کے نام پر متعارف کرا کر دوسرے مذھب میں گھسایا جاتا ھے ،، الحمد للہ اسلام اس لحاظ سے بھی بنیانٓ مرصوص رکھتا ھے،،اسے غیر سے کلچر اڈاپٹ کرنے کی ضرورت ھی نہیں ،، لہذا میرے نزدیک ھندو ازم کو کلچر کے طور پر اختیار کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا !
کدی خواجہ پیا بن جانا ھیں -کدی گنج شکر بن آنا ایں !
نت نویں توں روپ وٹاناں این – میں پھڑیا جاں جے میں ھوواں !
میں اسی عقیدے کا اظہار کیا گیا ھے ! ھمارے یہاں قطب و غوث کے اختیارات کا ایڈمنسٹریٹیو ٹری مکمل طور پر ھندو مذھب کا چربہ ھے اور یہی ھندو نما مسلمان یا مسلمان نما ھندو پیدا کرتا چلا جا رھا ھے، اسلام اس قسم کے تصرفات اور تقدیروں کی ملکیت کسی اور کو سونپنے کے بالکل خلاف ھے،، قرآن و سنت اس قسم کے عقیدے کو بالکل سپورٹ نہیں کرتے بلکہ پورا قرآن ببانگِ دھل ان عقائد کی نفی کرتا ھے اور اللہ کے قریب ترین اور عزیزی ترین بندوں یعنی انبیاء کی مثالیں دے دے کر عملاً ثابت کرتا ھے کہ وہ قطب و غوث کے اختیارات نہیں رکھتے تھے بلکہ ھمارے بندے تھے اور ھر چیز ھم سے مانگ مانگ کر لیا کرتے تھے اور مانگتے بھی گڑگڑا گڑگڑا کر تھے اور ھر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے اللہ کی ذات سے رجوع کرتے تھے، مثلاً موسی علیہ السلام کی سورہ قصص والی دعا،، رب انی لما انزلت الی من خیر ” فقیر "( القصص 24 ) ان کی بےبسی کی تصویر کشی کرتی ھے،،اے پروردگار،، آج تو تُو جو بھی جتنی بھی خیر بھیج دے میں سخت محتاج ھوں ! یہ دعا کوٹ کرنے کا مقصد ھی ان کی قطبیت و غوثیت کی نفی کرنا تھا ! پھر سورہ الانبیاء میں تمام مشہور نبیوں کے مصائب اور پھر ان کی دعا اور پھر اللہ کی طرف سے ان کی مدد کے واقعات اس بات کو واضح کرنے کے لئے بیان کیئے گئے کہ،،عام آدمی ھو یا رب کا مقرب پیغمبر سب کا حقیقی ہتھیار دعا اور صرف دعا ھے،، کوئی اپنی غوثیت بھی نہیں کر سکتا تو دوسروں کی فریاد کو کیا پہنچے گا ! ھمارے بزرگوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن ان کے ان عقائد میں نہ صرف ان کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ سب سے بڑا مخالف اور سب سے بڑی رکاوٹ اور اڑچن ھے،،تو انہوں نے قرآن کے ظاھر اور باطن کا نظریہ گڑھا،یعنی گویا قرآن کا متن ھمارا ساتھ نہیں دیتا مگر قرآن کا باطن جو اصل چیز ھے وہ ھمارے ساتھ ھے،،محمدﷺ کے اگر اقوال ھمارے خلاف ھیں تو کوئی بات نہیں مگر حقیقتِ محمدی ھمارے ساتھ ھے،، یوں ھر چیز کا ظاھر اور باطن الگ کر کے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا گیا،،مگر یہ باطنیت بھی ایک تھیوری ھی رھی،ثابت نہ کی جا سکی،،میں ان سے کہتا ھوں کہ قرآن کا ظاھر اور باطن ایک ھے،، محمدﷺ کا ظاھر اور باطن ایک ھے،،کعبے کا ظاھر اور باطن ایک ھے،، کائنات کا ظاھر و باطن ایک ھے،، ھاں آپ کا ظاھر اور باطن جدا جدا ھے ! آپ کا ظاھر مسلمان مگر آپ کا باطن کچھ اور ھے! ھندوستان کا ھر مذھب بے کلچر ھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اسوہ نہیں ،،کوئی معلوم ایک ھستی نہیں کوئی زرخیز سنت نہیں جہاں سے وہ راہ پائیں ،یہ کمال اللہ پاک نے اسلام کو دیا ھے کہ اس کی کتاب بھی معلوم،، نبی کی سنت بھی معلوم ،، نبی کی قبر بھی معلوم اور اس کے نبی نے اپنی گیارہ بیویوں چار بیٹیوں اور ڈھیر سارے رشتے داروں کے ساتھ بھرپور معاشرتی زندگی گزاری،جس میں پیدائش ،شادی بیاہ،موت عید میلہ اور خرید فروخت سمیت ھر وہ چیز موجود ھے جسے کلچر کے نام پر متعارف کرا کر دوسرے مذھب میں گھسایا جاتا ھے ،، الحمد للہ اسلام اس لحاظ سے بھی بنیانٓ مرصوص رکھتا ھے،،اسے غیر سے کلچر اڈاپٹ کرنے کی ضرورت ھی نہیں ،، لہذا میرے نزدیک ھندو ازم کو کلچر کے طور پر اختیار کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا !