امتوں کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان سب میں یکساں چیز جو پائی جاتی ھے وہ یہ ھے کہ اپنے زوال اور در بدری کے دور میں ان کا رجحان تعویز ،گنڈے ،وظیفے اور جادو کی طرف ھو جاتا ھے ، جو جھٹ ان کے زوال کو عروج اور ذلت کو عزت میں تبدیل کر دے ، یہود جو ھزاروں نبیوں پر مشتمل سب سے طویل مذھبی تاریخ رکھتے ھیں ، اور سب سے زیادہ ذلت اور رسوائی سے دوچار رھے ، جب بھی وہ پستی کی تہہ کو چھوتے تب تب تعویز گنڈا اور وظائف ان میں وبا کی صورت اختیار کر جاتے ،قرآن حکیم نے امتوں کی پستی کی نفسیات میں اس بیماری کو شامل کیا ھے کہ یہ امتیں جب اپنے رب کی رضا سے محروم ھو جاتی ھیں تو بجائے اس کے کہ اپنے رب کو راضی کر کے دوبارہ عروج کا سفر اختیار کریں انہوں نے شارٹ کٹس اختیار کرنا شروع کر دیئے یوں تاریخ کے جنگل میں بھٹک کر نسیاً منسیاً ھو گئے ،، آج ھم اپنا جائزہ لیں تو نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئ خبر کے مطابق یہود کے ساتھ اس طرح مشابہ ھیں جس طرح جوتی کے جوڑے کا ایک پاؤں دوسرے سے مطابقت رکھتا ھے ، انسان کے انسان کے ساتھ تعلقات ھوں یا انسان کے رب کے ساتھ تعلقات ھوں یہ ھمیشہ کچھ خامیوں کی وجہ سے خراب ھوتے ھیں ، ان غلطیوں کو درست کیئے بغیر وہ اللہ کو قابو کرنے کے وظیفے آزماتے پھرتے ، ساس اور بہو اپنی اپنی غلطیاں درست کیئے بغیر جادو کے ذریعے بیٹے اور شوھر کو قابو کرنے کی سعی کرتیں ، راتوں رات امیر بننے کے لئے اسمِ اعظم کی تلاش ،، اور سدا کی زندگی کے لئے آب حیات اور خواجہ خضر کی تلاش ،، سورہ البقرہ میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کے لئے جادو کا ذکر اسی پسِ منظر میں کیا گیا ھے کیونکہ یہ وہ واحد مسئلہ ھے جو ھر گھر میں موجود ھے اور یہی سب سے فوری تکلیف دہ مسئلہ بھی ھوتا ھے ،جبکہ اللہ پاک کی حدود کا خیال رکھے بغیر یہ مسئلہ جادو اور وظیفوں سے کبھی درست نہیں ھو سکتا بلکہ مزید ضرر رساں ھو سکتا ھے ، جس وجہ سے شوھر بیوی سے نفرت کرتا ھے وہ بیوی کو اچھی طرح معلوم ھے ، وہ وجہ ختم کیئے بغیر یا لطیف یا ودود کا وظیفہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ، بعض صورتوں میں وہ وجہ جائز بھی ھو سکتی ھے مثلاً بیوی شوھر کو ٹی وی نہ دیکھنے کا کہے یا تاش کھیلنے سے منع کرے یا اس کو نماز یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا کہے ،، جب بیوی کو پتہ ھے کہ اس کی اس قسم کی تبلیغ شوھر کو مشتعل کر دیتی ھے اور وہ سمجھتا ھے کہ ابھی بڑی ماں سے جان چُھوٹی نہیں کہ یہ بھی ماں بن کر مجھ پر مسلط ھونے کی کوشش کر رھی ھے ،، تو بیوی کو اپنے شوھر کو اس کے حال پہ چھوڑ دینا چاھئے ،، اور توجہ میاں بیوی کے باھمی تعلقات پر مرکوز رکھنا چاھئے ،، بعض دفعہ بیوی کی ضرورت سے زیادہ نیکی بھی شوھر کو بد دل کر دیتی ھے ،، وہ منہ سے کچھ کہہ کر گناہگار تو نہیں ھونا چاھتا مگر اس کے رویئے میں چڑچڑا پن صاف دیکھا جا سکتا ھے جو دن بدن بڑھتا جاتا ھے ، شوھر کوئی بات پوچھنا چاھتا ھے تو بیوی کو نماز مختصر کر کے اس کو پہلے جواب دینا چاھئے ،مگر وہ بھی ھر نماز تراویح بنا کر پڑھتی ھے ،، شوھر کہیں باھر نکلنا چاھتا ھے تو وہ قرآن پکڑ کر بیٹھ جاتی ھے ، شوھر کا اپنا پروگرام ھے اور بیوی روزہ رکھ کر بیٹھ جاتی ھے ،، ان وجوھات کا تدارک کیئے بغیر وظیفوں پر زور پستی کی نفسیات ھے ،، ابن عباسؓ کی روایت میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ھے کہ اب لکھے گئے کو صبر اور شکر کے ساتھ قبول کرنا اسلام کی تعلیم ھے ، کیونکہ” رفعت الاقلام و جفت الصحف” قلم اٹھا لی گئ ھے اور مقدر کا لکھا گیا صحیفہ خشک ھو گیا ھے ، جہاں تک نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سنت کا تعلق ھے تو وھاں سے بھی ھمیں صبر اور شکر کی ھی تعلیم ملتی ھے نہ کہ تعویز دھاگے اور ٹونے ٹوٹکے کی ،، نبئ کریم ﷺ نے غریبی نہیں مانگی تھی فقر پر صبر کیا تھا ،، جب تک غربت تھی گلہ نہیں کیا اور جب خیبر کی جاگیر اللہ نے عطا فرمائی تو اس کو واپس بھی نہیں کیا اور وہ آپ ﷺ کی رحلت کے بعد بھی امھات المومنین رضوان اللہ علیھن اجمعین کی گزر بسر کا ذریعہ بنی رھی ،، ابوھریرہؓ نے اپنے بارے میں جگہ جگہ لکھا ھے کہ وہ بھوک کے مارے بیہوش ھو جاتے تھے اور لوگ مرگی کا دورہ سمجھ کر پاؤں سے گردن دبا کر علاج کرنے کی کوشش کرتے تھے ، بعض دفعہ بھوک کے ھاتھوں مجبور ھو کر ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ سے مسئلہ پوچھنے کے بہانے ساتھ ساتھ بھی چل پڑتے کہ شاید وہ کھانے کی دعوت دے دیں ،، ان کو بھی حضور ﷺ نے غربت اور بھوک سے نجات کا کوئی نسخہ نہیں بتایا ، ابن مسعودؓ فرماتے ھیں کہ حضورﷺ ھم کو غزوہ خندق کے موقعے پر سورہ النساء کی تعلیم دے رھے تھے اور آپ ﷺ کے پیٹ پر پتھر بندھا ھوا تھا ،، اصحاب صفہ کو بھی کوئی وظیفہ یا ٹوٹکا یا کوئی سورت نہیں بتائی گئ تھی کہ جس کے نتیجے میں جبریل آسمان سے کوئی خوان لے کر نازل ھو جاتے ، نبئ کریم ﷺ لوگوں کو ان کی مالی مدد پر ابھارتے خوان کی بجائے قرآن نازل ھوتا کہ اللہ کو قرض کے نام پر ھی دے کر ان فقیر صحابہؓ کی مدد کرو کل تمہیں آخرت میں سات سو گنا ملے گا ،، اور مسجد نبوی سے ھمیشہ چندے کی اپیل کی جاتی وظیفے نقسیم نہیں کیئے جاتے تھے ، جو لوگ وظیفوں کی فیکٹریاں لگائے بیٹھے ھیں وہ خود اپنے مدارس وظیفوں سے نہیں چلاتے بلکہ ساون کے ٹدی دل کی طرح رمضان میں چندے کے لئے ملکوں ملکوں نکل کھڑے ھوتے ھیں ، نبئ کریم ﷺ نے فقر نہیں مانگا بلکہ فقر سے اللہ کی پناہ مانگی ھے اور بتایا ھے کہ فقر انسان کو کفر تک لے جاتا ھے ، اللّهمّ إنّی أعوذ بک من العجز و الکسل و الجبن و البخل و الهرم و القسوه و الغفله و العیله و الذّلّه و المسکنه و أعوذ بک من الفقر و الکفر و الفسوق و الشّقاق و
النّفاق و السّمعه و الرّیاء و أعوذ بک من الصّمم و البکم و الجنون و الجذام و البرص و سیّئ الأسقام، اس میں عیلہ کے نام پر تنگ دستی اور فقر کے نام پر غربت سے اللہ کی پناہ مانگی گئ ھے اور خود اختیار کردہ غریبی کے فلسفے کی نفی کی گئ ھے ،جس کا لوگ حوالہ دیتے پھرتے ھیں اور دوسری جانب یہ دعا صبح شام پڑھتے مگر اس تضاد پر غور نہیں فرماتے ، جب آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے کفر اور فقر کو جوڑ دیا ھے تو کیا یہ دونوں برابر ھیں تو آپ نے فرمایا کہ ” ھاں فقر انسان کو کفر تک لے جاتا ھے ” اللہ پاک نے فقر اور تنگدستی سمیت ھر مصیبت گنوا کر فرمایا ھے کہ میں تمہیں ان سب میں آزماؤں گا اور آخر میں یہ نہیں فرمایا کہ ” بشر الموظفین ” وظیفے کرنے والوں کو بشارت دے دو بلکہ فرمایا ” و بشر الصابرین ” صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو – وہ صابر جو ان مصائب کا جواب انا للہ و انا الیہ راجعون سے دیں کہ ھم اللہ کی طرف سے آئے ھیں اور یہ مصائب بھی اللہ کی طرف سے آئے ھیں اور ان کا اجر ھم نے اللہ ھی کے پاس پلٹ کر پانا ھے ،،
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (156) ( البقرہ )
وظائف انسان کو الحاد تک لے جاتے ھیں کیونکہ نیکی بدی کی حد تک تو یہ طے ھے کہ ان کے فیصلے حشر میں ھی ھوں گے ضروری نہیں کہ ان کا نتیجہ دنیا میں نکلے لیکن وظیفہ تو پیناڈول کی طرح دیا جاتا ھے اور اس کا مادی فائدہ دنیا مین نکلنے کا وعدہ کیا جاتا ھے اور اس وعدے کے جھوٹ نکلنے پر خدا پر ایمان بھی جھوٹا ھو جاتا ھے اور بندہ بے یقین ھو جاتا ھے ،آپ کو اس وظیفے کے نتیجے میں خود بھی امیر ھونا ھو گا اور کسی غریب کو امیر ھوتا دکھانا ھو گا کیونکہ یوروڈول بنانے والا اور دوائی کے طور پر تجویز کرنے والا یقین کے ساتھ بتاتا ھے کہ اس سے پیشاب زیادہ آئے گا ،، اور باتھ روم کے جوتے بھی گواھی دیتے ھیں کہ وہ سچ کہتے تھے کیونکہ جوتا ابھی گیلا ھوتا ھے کہ بندہ پھر پیشاب کرنے دوڑتا ھوا پہنچ جاتا ھے ،تمہارے وظیفے کو اسی طرح سچا ثابت ھونا ھے یا جھوٹا ثابت ھونا ھے ، اور یہ سوفیصد جھوٹے ثابت ھوتے ھیں اور لوگوں کے دل میں شک کا بیج بو جاتے ھیں کہ پتہ نہیں پھر باقی باتیں بھی سچ ھیں یا وہ بھی وظیفے کی طرح ھی ھیں ھلاکو کی آمد کے بعد وظیفوں کی بھٹیاں لگی ھیں اور یہی ھمارے زوال کی ابتدا تھی ، پھر یہود کی طرح ھم نے بھی ھر وہ کرتوت جو خود کیا اس کو اسلاف کی طرف منسوب کر دیا اور حدیثیں گھڑ لیں تا کہ خود کو حق ثابت کیا جا سکے ، یہود یہی کرتے تھے ھر برائی کو روایتوں کے زور پر اپنے نبیوں کی طرف منسوب کر دیتے تا کہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے ،یہانتک کہ انہوں نے زنا کو بھی اپنے نبیوں کی طرف منسوب کیا ، پھر ان نبیوں کی صفائی مین آدھا قرآن نازل کرنا پڑا ،، مگر ھمارے کیے اور کہے کے لئے تو یہ سہولت بھی میسر نہیں کہ کوئی اور نبی یا کوئی اور کتاب رسول اللہ ﷺ کی صفائی میں نازل ھو گی ، ھمیں تو لوگوں کی مخالفت مول لے کر خود ھی اپنے نبی ﷺ کا دامن صاف رکھنا ھو گا اور فیصلہ حشر میں ھو جائے گا ، اور فیصلہ بھی حشر کا ھی ھو گا !