از: محمداللہ خلیلی قاسمی
تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے سرزمین عرب کی کفر وشرک اور جہالت و وحشت بھری تاریک فضا میں جو روشنی دکھائی وہ علم کی روشنی تھی۔ اسلام نے روز اول ہی سے علم کی اہمیت پر زور دیا اور مسلمانوں کوتعلیم جیسی دولت بے بہا کو حاصل کرنے کی تاکید کی۔ ابتدائے عہد اسلام میں جبرئیل امین علیہ السلام کے واسطہ نازل ہونے والا الٰہی فرمان اور دربار نبوت سے صادر ہونے والے الفاظ و اعمال یعنی قرآن و حدیث ہی مسلمانوں کے نظام تعلیم کا نصاب تھا۔ قرآن کی موقعہ بہ موقعہ نازل ہونے والی آیات کو لکھنے ، پڑھنے اور یاد کرنے کا خاص التزام کیا جاتا تھا۔ حدیث کے مذاکرہ کا رواج تھا، کچھ صحابہ حدیث کو لکھنے کا بھی اہتمام کرتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدیقی دورخلافت میں قرآن کریم کی تدوین کی طرف توجہ ہوئی اور اسے ایک مصحف میں نہایت اہتمام و احتیاط کے ساتھ جمع کیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی مملکت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا اور اسلام عرب سے نکل کر بلاد عجم تک پہنچ گیا اور نت نئی تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔ چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جملہ شعبہائے حیات اور خصوصاً شعبہٴ تعلیم میں زبردست انقلابی تبدیلیاں کیں اور ترقیات کی بنیاد ڈالی۔
پہلی صدی ہجری میں احادیث مبارکہ کی تدوین کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس کے بعد کی دو صدیاں تدوین و ایجادات کی صدیاں ثابت ہوئیں۔ خلافت اسلامیہ کے بعداموی و عباسی ادوار میں اسلام دنیا کے متمدن علاقوں تک پہنچ چکا تھا۔ دین اسلام کے بڑھتے دائرہ اور نت نئے مسائل و واقعات کے پیش نظرحرفتوں، علوم اور فنون کی تدوین و ایجاد شروع ہوئی۔ قرآن و حدیث کے معانی و مطالب کو سمجھنے کے لیے عجمیوں کو نحو و صرف جیسے علوم کی ضرورت ہوئی اور یہ علوم ایجاد ہوئے، ادباء و علمائے نحو پیدا ہوئے۔ ترقیات کی کثرت اور عالم اسلام کی وسعت کے لحاظ سے نئے مسائل و حالات پیدا ہوتے رہے اور علماء و فقہاء کی ایک بڑی تعداد قرآن و حدیث کی روشنی میں ان مسائل و حالات کے حل نکالنے میں مشغول ہوئی، اس طرح فقہ و اصول فقہ کی تدوین عمل میں آئی اورتفسیرواصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث ، فقہ واصول فقہ، صرف و نحو، اسماء الرجال اور تواریخ و معاجم کے متعلق علوم کی کتابیں لکھی جانے لگیں۔
اس وقت تک مساجد اور درسی حلقات کے بنیادی نصاب میں یہی قرآن و حدیث اور اس سے متعلق علوم نصاب کا جز رہے۔ پانچویں صدی میں امام غزالی نے یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہونے والے اسلام مخالف افکار و نظریات کے رد میں علم کلام کو اختیارکیا جس سے اسلامی فلسفہ اور منطق کا رواج ہوا۔ یہ علوم اس وقت اور اسکے بعد کے تقریباً تمام ہی عالم اسلام کے خطوں میں مشترک تھے لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا مختلف اسباب و وجوہات کی بنیاد پر مختلف علاقے مختلف علوم کے ساتھ مشہور ہوتے گئے؛ جیسے عرب کے علاقے میں تفسیر ، حدیث، اصول حدیث اور اسماء الرجال جیسے علوم سے زیادہ شغف رہا۔ اسلامی اندلس میں تاریخ ، ادب اور شاعری زیادہ مرغوب رہی جب کہ ایران کے لوگ منطق و فلسفہ سے دلچسپی میں ہمیشہ ممتاز رہے۔ اسی طرح خراسان وماوراء النہر (وسط ایشیا) میں بعد کی صدیوں میں فقہ ، اصول فقہ اور تصوف کا خوب رواج رہا۔
ہندوستانی مسلمانوں کا نصاب تعلیم
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اموی خلافت کے دور میں پہلی صدی ہجری کے اندر ہوچکی تھی اور محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ و ملتان فتح ہوچکے تھے ۔ اسی طرح پانچویں صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی نے سندھ و پنجاب کو زیرنگیں کرلیا تھا اور اپنی فتوحات کا دائرہ گجرات تک وسیع کرلیا تھا، لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کی ابتدا در اصل چھٹی صدی ہجری (مطابق ۱۲۰۶ء) کے اخیر میں سلطان شہاب الدین غوری کے نائب قطب الدین ایبک کے دور سے ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وسط ایشیا کے مسلمان تفسیر و حدیث کے ساتھ صرف و نحو، بلاغت و ادب اور کلام و تصوف کو بھی اہمیت دینے لگے تھے۔ چوں کہ وسط ایشیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں تاتاری حملوں کے بعد مضبوط اسلامی حکومت ہندوستان میں ہی قائم ہوئی تھی اور یہ علاقہ تاتاری یورشوں سے تقریباً آزاد تھا، اس لیے ان علاقوں کے علماء و مشائخ اور عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان آگئی تھی؛ چناں چہ فطری طور پر ان کے ساتھ یہ ذوق ہندوستان منتقل ہوا اور یہیں سے ہندوستانی نظام تعلیم کی بنیاد پڑی۔
مولانا حکیم سید عبد الحئ لکھنوی نے اپنے ایک مقالے ’ہندوستان کا قدیم نصاب درس اور اس کے تغیرات‘ میں قدیم ہندوستانی نصاب تعلیم کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ذیل میں اسی بنیاد پر اختصار کے ساتھ عہد وسطی میں ہندوستانی مسلمانوں کے نصاب تعلیم کا ا یک خاکہ پیش کیا جارہا ہے:
پہلا دور: اس کا آغاز ساتویں ہجری سے سمجھنا چاہیے اور انجام دسویں صدی پر اس وقت ہوا جب کہ دوسرا دور شروع ہوگیا تھا، کم وبیش دو سو برس تک اِن فنون کی تحصیل معیار فضیلت سمجھی جاتی تھی: صرف، نحو، ادب، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، تصوف ، تفسیر، حدیث۔اس طبقے کے علماء کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں علم فقہ معیار فضیلت تھا، حدیث میں صرف مشارق الانوار کا پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا تھا اور حدیث میں مزید درک و مہارت کے لئے مصابیح آخری کتاب تھی۔اس زمانے کے نصاب تعلیم میں جو خصوصیات نظر آتی ہیں وہ فاتحین ہند کے موٴثر اور نکھرے ہوئے مذاق کا نتیجہ تھیں، ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بساط جن لوگوں نے بچھائی وہ غزنی اور غور سے آئے تھے، یہ وہ مقامات تھے جہاں فقہ اور اصول فقہ کا ماہر ہونا علم و فن کا طرئہ امتیاز سمجھا جاتا تھا اور ان ممالک میں فقہی روایات کا پایہ بہت بلند تھا۔
دوسرا دور: نویں صدی ہجری کے آخر میں شیخ عبد اللہ اور شیخ عزیز اللہ ملتان سے دہلی سلطان سکندر لودھی کے دربار میں آئے اور انھوں نے سابقہ معیار فضیلت کو کسی قدر بلند کرنے کے لئے قاضی عضدالدین کی تصانیف مطالع و مواقف اورعلامہ سکاکی کی مفتاح العلوم نصاب میں داخل کیں۔اس دور میں میر سید شریف کے تلامذہ نے شرح مطالع اور شرح مواقف اور علامہ تفتازانی کے شاگردوں نے مطول و مختصر المعانی اور تلویح و شرح عقائد نسفی کو رواج دیا۔ نیز اس زمانہ میں شرح وقایہ اور شرح جامی داخل نصاب کی گئیں، اس دور کے آخر میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے علمائے حرمین شریفین سے علم حدیث کی تکمیل کرکے علم حدیث کو فروغ دینے کی کوشش کی، ان کے بعد ان کے فرزند شیخ نورالحق نے بھی درس حدیث کی اشاعت کی کوشش کی۔اس طبقے کے علمائے کرام کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں مفتاح العلوم سکاکی اور قاضی عضدالدین کی مطالع اور مواقف منتہیانہ کتابیں تھیں۔
تیسرا دور : دسویں صدی کے اخیر میں میر فتح اللہ شیراز (ایران) سے ہندوستان آئے، اکبر نے ان کو عضد الملک کا خطاب دے کر پذیر ائی کی ، انہوں نے سابق نصاب درس میں کچھ معقولی کتابوں کے اضافے کئے اورانھیں کے زیر اثرہندوستانی نصاب میں ان کا رواج ہوا۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے جو اس دور کے سب سے آخری مگر سب سے زیادہ نامور عالم تھے، حرمین شریفین تشریف لے گئے اور وہاں چودہ ماہ قیام فرماکر علم حدیث کی تکمیل کی اور ہندوستان آکر اس سرگرمی سے اس کی اشاعت کی کہ جس کے اثرات آج تک باقی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے اخلاف نے صحاح ستہ کے درس و تدریس کو اپنی سعی و کوشش سے جز و نصاب بنا دیا۔شاہ صاحب نے ایک نیا نصاب درس بھی مرتب کیا تھا مگر چونکہ اس زمانے میں علم کا مرکز دہلی سے لکھنوٴ منتقل ہوچکا تھا، نیز ہمایوں اور اکبر کے زمانے میں ایران سے جو نیا تعلق ہوا تھا، اس نے بتدریج ہندوستان کے علمی مذاق میں ایک جدید تغیر پیدا کر دیا تھا، مغل دربار کے ایرانی امراء اور علماء کے ذریعے منطق اور فلسفہ کو آہستہ آہستہ دوسرے علوم پر فوقیت حاصل ہوتی گئی ؛اس لیے شاہ صاحبکے نصاب کو قبول عام حاصل نہ ہوسکا۔
چوتھا دور : چوتھادور بارہویں صدی ہجری سے شروع ہوا، اس کے بانی ملا نظام الدین سہالوی لکھنوی تھے جن کا مرکز فرنگی محل لکھنوٴ تھا۔ درس نظامی کے نام سے جو نصاب آج تمام مدارس عربیہ میں رائج ہے وہ ان ہی کی یاد گار ہے۔ ملا نظام الدین نے دور سوم کے نصاب میں اضافہ کر کے ایک نیا نصاب مرتب کیااور اس دور میں پڑھائی جانے والی کتابوں کو حتی الامکان جمع کرنے کی کوشش کی۔ درس نظامی میں تیرہ موضوعات کی تقریباً چالیس کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ فقہ اور اصول فقہ کے ساتھ ، تفسیر میں جلالین و بیضاوی اور حدیث میں مشکاة المصابیح داخل تھی۔ انھوں نے ریاضی اور فلکیات کی کئی کتابیں اور ہندسہ (انجینئرنگ) پر بھی ایک کتاب شامل نصاب کی۔ اس میں طب، تصوف اور ادب کی کوئی کتاب شامل نہیں تھی اور منطق و فلسفہ کو خاصی جگہ دی گئی۔
تیرہویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں علم کے تین مرکز قائم تھے؛ دہلی، لکھنوٴ اور خیر آباد۔ گو نصاب تعلیم تینوں کا قدرے مشترک تھا، تاہم تینوں کے نقطہ ہائے نظر مختلف تھے۔ دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا خاندان کتاب و سنت کی نشر و اشاعت اور تعلیم و تدریس میں ہمہ تن مشغول تھا،یہاں تفسیر و حدیث پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی، علوم معقولہ کی حیثیت ثانوی درجے کی تھی۔ لکھنوٴ میں علمائے فرنگی محلّی پر ماوراء النہر کا ساتویں صدی والا قدیم رنگ چھایا ہوا تھا، فقہ اور اصول فقہ کو ان کے یہاں سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی، تفسیر میں جلالین و بیضاوی اور حدیث میں صرف مشکاة المصابیح کافی سمجھی جاتی تھی۔ خیرآبادی مرکز کا علمی موضوع صرف منطق و فلسفہ تھا اور یہ علوم اس قدر اہتمام سے پڑھائے جاتے تھے کہ جملہ علوم کی تعلیم ان کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔
دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ مدارس کا نصاب
۱۸۵۷ء کے تاریخی حادثہٴ انقلاب میں تقریباً ملک سے ساری نامور درس گاہیں برباد کردی گئیں اور خصوصاً ملک کا شمالی حصہ جو اس تحریک کا مرکز تھا اور دینی علوم و فنون کا گہوارہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اس واقعہ کے تقریباً دس سال بعد جب دیوبند میں دارالعلوم بنیاد پڑی ، اس کے نصاب میں ماضی قریب کے تینوں علمی گہواروں ؛ دہلی، لکھنوٴ اور خیرآباد ، کی خصوصیات کو جمع کیا گیا۔ اس طرح اس میں درس نظامی کو بنیاد بناتے ہوئے صحاح ستہ کو شامل کیا گیا۔دارالعلوم دیوبند کا یہی نصاب تعلیم تقریباً ڈیڑھ صدیوں سے ہندوستان کے اکثر مدارس میں مروج ہے۔ دیوبند نے ان علوم کی عظمت کو نہ صرف یہ کہ باقی رکھا بلکہ ترقی دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اس نصاب کی خصوصیت یہ ہے کہ طالب علم میں امعان نظر اور قوت مطالعہ پیدا کرنے کا لحاظ اس میں زیادہ رکھا گیاہے۔ اگر چہ اس نصاب کی تحصیل کے معاً بعد کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیں ہو تا، مگر یہ صلاحیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے کہ طالب علم محض اپنے مطالعہ اور محنت سے جس فن میں چاہے کمال پیدا کر لے۔
اس وقت دارالعلوم دیوبند اور اس کے طرز پر چلنے والے مدارس میں فضیلت تک تقریباً تیس موضوعات کی پچاس سے زیادہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان موضوعات میں تفسیرو ترجمہٴ قرآن، حدیث و اصول حدیث، فقہ و اصول فقہ، نحو و صرف، معانی و بیان و بلاغت، منطق و فلسفہ،تاریخ و تصوف ، عقائد و ادب اور تجوید وغیرہ جیسے علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ابتدا کی چند کتابوں کو چھوڑ کر ساری کتابیں عربی زبان میں ہیں۔ دورہٴ حدیث کے بعد طالب علم کے ذوق و شوق اور اس کی صلاحیت کے مطابق اسے تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث ، فقہ و فتاوی یا ادب عربی میں سے کسی ایک فن میں تخصص کی سہولت مہیا کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ کمپیوٹر، انگریزی وغیرہ کے بھی کورسز ہیں جو ان موضوعات سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو اس میدان میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے نصاب کو درس نظامی کا نام دیا جاتا ہے، جو کسی حد تک صحیح کہا جاسکتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کو اس نام سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہ نصاب بعینہ بارہویں صدی ہجری کاہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ دارالعلوم کے اس نصاب کی بنیاد وہی درس نظامی تھا جو قیام دارالعلوم کے وقت عموماً ہندوستانی مدارس و درس گاہوں میں رائج تھا، لیکن دارالعلوم کے قیام کی ابتدا ہی سے درس نظامی جوں کا توں کبھی بھی نصاب نہیں رہا اور بعد میں حالات کے تقاضے کے پیش نظر اس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ اگر کوئی شخص ملانظام الدین کے درس نظامی کا آج کے دارالعلوم دیوبند کے نصاب سے موازنہ کرے تو اسے دارالعلوم کے نصاب کو درس نظامی کا نام دینے میں بھی ہچکچاہٹ ہوگی؛ کیوں کہ اس میں علوم عالیہ کے ساتھ علوم آلیہ کی کتابوں میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں، درس نظامی کی متعدد کتابوں کو بالکل نکال کر دوسری کتابوں کا اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ بہت سے موضوعات کی کتابوں کو بدل دیا گیا ہے۔ نصاب دارالعلوم میں زمانہ کے تقاضوں کے مطابق تغیرو تبدل اور حذف و اضافہ کا عمل مسلسل جاری ہے۔ علوم دینیہ کے ساتھ عصری علوم اور معاشی ضرورتوں کا بھی لحاظ رکھاجارہا ہے۔ دارالعلوم میں دارالصنائع ، شعبہٴ کمپیوٹر ، شعبہٴ انگریزی و شعبہٴ صحافت اسی مسلسل عمل کا ایک حصہ ہیں۔
نصاب کی تبدیلی کے سلسلے میں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے مدارس کا مقصد دینی علوم و ثقافت کی حفاظت اور اسلام کی نشر و اشاعت ہے۔ لہٰذا، ایسی کوئی تبدیلی جو اس عظیم مقصد میں خلل انداز ہو اسے قطعاً قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔علوم عالیہ یعنی قرآن ، حدیث اور فقہ کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان میں درک حاصل کرنے کے لیے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے ، ان علوم کی تعلیم ہی ان مدارس کا اصل مقصد ہے۔ اس میں دوسرے علوم و فنون کی گنجائش محض اسی حد تک ہے جب تک کہ یہ دوسرے علوم ان مدارس کے اصل مقصد میں حائل یا مخل نہ ہوں۔