آپ نے بھی یہ قصہ سنا ھو گا کہ ایک ابا جی اخبار پڑھ رھے تھے ،اور بچہ تھا کہ حسبِ عادت سوال پر سوال کرتا جا رھا تھا،، ابا بڑا ڈسٹرب ھو رھا تھا اس نے سوچا چلو بچے کو بھی Busy کرتے ھیں،، اس نے کمرشل اخبار کا ایک پیج لیا اور اس پر نظر آنے والا گلوب یعنی دنیا کا نقشہ بچے کو دکھایا،، پھر اسے ٹکڑے کیا اور بچے کو کہا کہ دنیا کا یہ نقشہ ٹھیک ٹھیک اسی طرح جوڑو جیسے یہ پہلے تھا،، اور دل میں سوچا کہ آج سارا دن آرام سے گزرے گا،، ابا جی ابھی وہ پراپرٹی کا اشتہار ھی ڈھونڈ رھے تھے،جہاں سے سلسلہ منقطع کیا تھا کہ بچے نے دنیا کا نقشہ جوڑ کر ابا کی گود میں رکھ دیا ،، اب ابا جی کے حیران ھونے کی باری تھی ! ھر لکیر ،ھر دریا، ھر پہاڑی سلسلہ ٹھیک اپنی جگہ پہ جڑا ھوا تھا،،اس نے حیران ھو کر پوچھا ( یہ جاوید چوھدری والا حیران نہیں ھے بلکہ ڈاکٹر شاھد مسعود والا ھے،کیونکہ وہ ذرا موٹا حیران ھوتا ھے ) ابے بھُتنی کے تو نے اتنا جلدی یہ نقشہ کیسے جوڑ لیا،، ؟ اس نے کہا ابا جی دی گریٹ اس نقشے کی پچھلی طرف ایک آدمی کی تصویر ھے میں نے وہ تصویر ٹھیک کی تو دنیا کا نقشہ ٹھیک ھو گیا، !
اگر ھم قرآن حکیم کو اس کا اصل مقام دے دیں، اسے ٹھیک اس جگہ رکھیں جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے رکھا تھا،، تو آج بھی ھمارے سارے دینی مسائل حل ھو سکتے ھیں، تمام تفرقے اور متشدد گروہ ختم ھو سکتے ھیں،، یہ قاعدہ کلیہ خود نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ھے” اس امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی اسی طرح اسی چیز سے ھو گی جس چیز اور جس طریقے سے اس امت کے ابتدائی حصے کی اصلاح ھوئی تھی،،اللہ کی کتاب،، خود اللہ پاک نے بھی یہی طریقہ بتایا ھے،، یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم،، وہ ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے اور ان کا تزکیہ کرتے ھیں،، اپنی اپنی مکاتبِ فکر کی لکھی کتابوں کو قرآن والی جگہ پر رکھ کر متحجر ھو جانا کسی مسئلے کا حل نہیں جب تک قرآن کی وسعت اختیار نہ کی جائے،،
آپ نے ھر ملک میں ھر جگہ ایک ھی جیسا منظر دیکھا ھو گا کہ جب چار ٹریک والی روڈ کو اگے چل کے ایک ٹریک میں تبدیل کر دیا جاتا ھے تو وھاں ٹریفک کا رش بن جاتا ھے،،لائنیں اور ڈسپلن ختم ھو جاتا ھے،،ھر گاڑی والا صرف اپنی گاڑی گھسانے کے چکر میں ھوتا ھے،،نفسا نفسی کا عالم ھوتا ھے،،ھارن کا شور شرابا اور اگر وہ ملک پاکستان ھو تو ڈرائیوروں کا باھم دست و گریباں ھونا روز مرہ کا معمول ھوتا ھے،، اسی طرح مذھب کی دنیا ھوتی ھے،،اس میں بھی ٹریک ھوتے ھیں،، دین اپنے نبی کی وسعت لے کر چلتا ھے ،مگر آگے ٹریفک والے ھر مذھب کے علماء ٹریک تنگ کرتے جاتے ھیں اور صرف اپنے مسلک و مکتب کی ترویج و تبلیغ کرتے ھیں،، نتیجہ یہ کہ امت باھم دست بگریبان ھو جاتی ھے اور آپس میں سر پھٹول شروع ھو جاتا ھے،،یہ واردات ھر زمانے میں ھر مذھب کے ساتھ ھوئی ھے اور قرآن اس کا احوال جگہ جگہ بیان کرتا ھے،، اسی کے مدنظر اس امت کو یہ ھدایت دی گئی تھی کہ،،یسروا،، ولا تعسروا،، رستہ وسیع رکھنا،ٹریک تنگ نہ کرنا!
اللہ ھمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ! آمین