یورپ والے اپنے مسائل یورپ کے علماء سے پوچھیں
Ask your issues to your Regional Scholars
December 15, 2013 at 3:08pm
ایک کمپنی، عید پارٹی دیتی ھے اور اپنے تمام ورکرز کو بلا تفریقِ ملک و مذھب اس میں بلاتی ھے اور سب مل کر خوشی مناتے ھیں ! کوئی مسئلہ نہیں ھوتا،،اس میں ھندو بھی شریک ھوتے ھیں عیسائی بھی اور مسلمان بھی ،،، وھی کمپنی اسی ھوٹل میں کرسمس پارٹی دیتی ھے بلا تفریقِ ملک و مذھب، سارے ھندو ،عیسائی شریک ھوتے ھیں،، اور مسلماںوں کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ھے ! نیلسن منڈیلا مر گیا،، ساری دنیا اس کی انسانی خدمت کی تعریفیں کر رھی ھے اسے دعائیں دے رھی ھے،، اور ھمارے یہاں تیسری عالمی جنگ لڑی جارھی ھے کہ اسے ریسٹ ان پیس کہنا چاھئے یا نہیں، ! اسلام بھی کن لوگوں میں آ کر پھنس گیا ھے،، واقعی اللہ کے رسول ﷺ نے جب دعا کی تھی کہ ” ائے اللہ عمر ابن الخطابؓ یا عمرو ابن ھشام میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو ” عزت” دے ،،( اللھم اعز الاسلام باحب الرجلین الیک، عمر ابن الخطاب اور عمرو ابن ھشام” اللھم انصر الاسلام بِأحد العمرین، عمر ابن الخطاب و عمرو ابن ھشام ،، تو بہت حکمت کا نکتہ بیان کیا تھا،، غلاموں سے تعداد تو بڑھائی جا سکتی،اسلام کو عزت( قوت ) نہیں دی جا سکتی،، تعداد کے زور پر اسے پھیلایا تو جا سکتا ھے ،مگر اسے کھڑا نہیں کیا جا سکتا،، اسے قائم نہیں کیا جا سکتا،، بہت سارے صحابہؓ بھی ایسے ھیں جنہوں نے علم تو منتقل کیا،،مگر نبیﷺ نے انہیں کبھی بھی اھم ذمہ داری نہیں سونپی،، عمرؓ آئے اور اس شان سے آئے کہ پہلی نماز ھی حرم میں جا کر پڑھی گئ،، اور مکے کی وادی نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی،، عیسائیت کو جتنی عزت ھمارے یہاں کے چوھڑوں نے قبول کر کے دی ھے،،اُتنی ھی عزت ھم شودروں نے اسلام قبول کر کے اسلام کو بخشی ھے،، جس طرح سبزیوں اور پھلوں کی الگ نسلیں اور الگ خصوصیات ھیں اسی طرح قوموں اور قبیلوں کی الگ الگ نفسیات ھیں،، تیلی اور مصلی کا بیٹا کسی بھی مقام پر پہنچ جائے اس کے اندر سے اس کی سوچ کا چھوٹا پن کبھی نہیں نکل سکتا،، ذرا ذرا سی بات پر مرنا جینا ختم کر دینا اور سالوں تک ایک چھوٹی سی بات کو دل سے نہ نکالنا،،یہ چھوٹی قوموں کی جینیاتی بیماری ھے،، ایسے لوگ ھیں جو میرے دوست بھی ھیں،،اربوں کے مالک ھیں،،مگر دو چار باتوں مین مجھے پتہ چل جاتا ھے کہ ان کی قوم کیا ھے ! الغرض نبیﷺ نے جو امامت کی شرط قریشی ھونا رکھی تھی وہ عبث نہ تھی،، ھندوستان کے طبقاتی جہنم میں پسے ھوئے شودروں نے جوق در جوق اسلام قبول کر کے،، اسلام کی تعداد اور رقبے میں تو اضافہ فرما دیا ،،مگر اسلام کو بھی شودر بنا کر رکھ دیا،،ھم چاھے عالم بن جائیں یا مفتی،، ولی اللہ بن جائیں یا قطب،، ھمارے اندر کا شودر کبھی نہیں مرتا، اسی لیئے ھمارے ولی اللہ بھی امپورٹڈ ھیں،، !! اسلام جس قدر یونیورسل دین ھے،افسوس یہ ھے کہ اسے لوگ یونیورسل سوچ والے نہیں ملے،، 8GB کا میموری کارڈ نوکیا N95 میں نہیں چلتا،، اسلام اپنی وسعت کی وجہ سے ھم تنگ نظروں کے قلب و نظر پر کبھی نہ کھل پائے گا،، سوال یہ ھے کہ ایک طرف اللہ پاک ارشاد فرماتا ھے ” ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ” اللہ کے نزدیک قابل عزت وہ ھے جو تقوے والا ھے،، اور نبی کریمﷺ اپنے الوداعی خطبے میں فرماتے ھیں ” لا فضل لعربی علی اعجمی ولا لاحمر علی السود الا بالتقوی،، کلکم لآدم و آدم من تراب،،کسی عربی کو کسی عجمی پر کوفضیلت حاصل نہیں اور اور کسی گورے چٹے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،،مگر تقوے کی بنیاد پر ! تم سارے آدم کی اولاد ھو اور ادم مٹی سے تھے ! مگر دوسری جانب ھم یہ دیکھتے ھیں کہ ٹھیک تین ماہ دو دن بعد ابوبکرصدیقؓ کی روایت سے حدیث سامنے آتی ھے کہ ” الائمۃ من قریش ” حاکم قریشیوں میں سے ھو گا،، اور اس الامام کے لفظ نے امام ابوحنیفہ جیسی فقیہہ ھستی کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ، قریشی کی موجودگی میں کسی غیر کی امامت نماز میں بھی قبول نہیں،، پھر نکاح میں ھم کفو کی شرط کا کیا مطلب ھے ! ثابت یہ ھوا کہ اللہ نے بھی جو قرآن مین فرمایا اور نبیﷺ نے بھی جو میدانِ عرفات میں فرمایا اس کا تعلق آخرت کے ساتھ ھے کہ اللہ کے یہاں چودھری کی نماز کا سات سو گنا اور میراثی کی نماز کا 10 گنا نہیں لگے گا،، بلکہ تقوے کی بنیاد پر ریٹ لگے گا،،اس بات کو اللہ پاک نے سورہ الحج میں بھی واضح فرمایا ھے کہ ” لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم،، اللہ کو نہ تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ھے اور نہ خون،،مگر اسے تمہارا تقوی پہنچتا ھے ! البتہ دنیاوی امور قوموں کی خصوصیات دیکھ کر طے کیئے جائیں گے،، عمر ابن الخطابؓ کا فرمان تھا کہ قاضی صاحب نسب ،صاحبِ جاہ یعنی خاندانی ھونا چاھئے اور صاحبِ مال ھونا چاھئے،،اس کا نسب اسے کسی سے مرعوب نہیں ھونے دے گا،،اور اس کا مال سے رشوت لینے سے روکے گا ! ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ تقوے کے لحاظ سے ھو سکتا ھے قرآن اکیڈیمی کی بلڈنگ کے باھر بیٹھا چوکیدار مجھ سے ھزار گنا زیادہ متقی ھو ،،مگر یہ ضروری نہیں کہ اتنا ھی اچھا ایڈمنسٹریٹر بھی ھو،، اب آیئے جینیاتی سوچ کی طرف، عقل کی حیثیت ھمیشہ وکیل کی سی رھی ھے،، جو اسے کرائے پر لے لیتا ھے وہ اس کو دلائل نکال نکال کر پکڑاتی جاتی ھے،، ایک سید محمود احمد بار ایٹ لاء۔سر سید احمد کے بیٹے اور ھندوستان کے مشہور وکیل تھے،مگر یادداشت کے معاملے میں تھوڑے بھلکڑ واقع ھوئے تھے،،ایک مقدمے میں پیش ھوئے اور یاد نہ رھا کہ وہ استغاثہ کے وکیل ھیں یا دفاع کے ،، انہوں نے چھوٹتے ھی وکیل صفائی کی حیثیت سے دلائل دینے شروع کر دیئے اور ملزم کی صفائی میں دلائل کے اس طرح ڈھیر لگا دیئے کہ استغاثہ سمیت جنہوں نے انہیں اپنے لئے فیس دی تھی خ
ود جج بھی پریشان ھو گیا،، استغاثہ والوں نے انہیں چِٹ پکڑائی کہ حضور آپ استغاثہ کے وکیل ھیں،، وکیلِ صفائی نہیں !!! سید محمود احمد نے بہت اطمینان سے چِٹ پر لگاہ دوڑائی اور بات میں ذرا بھی وقفہ دیئے بغیر اسی جوش و خروش سے فرمایا۔۔می لارڈ ،، یہ وہ سارے دلائل تھے جو وکیلِ صفائی زیادہ سے زیادہ اس کیس کے حق مین دے سکتا تھا،، مگر جنابِ عالی ان دلائل میں کوئی جان نہیں ھے،حقیقت یہ ھے کہ ،،، اس کے بعد جو سید محمود نے استغاثہ کے حق میں دلائل دیئے تو اپنے ھی دیئے ھوئے دلائل کے اس طرح پرخچے اڑا کر رکھ دیئے کہ جج سمیت وکلاء بھی عش عش کر اٹھے اور سید صاحب مقدمہ جیت گئے ” اس مثال کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ جب انسان اپنی سوچ سوچ لیتا ھے تو عقل اس کو فوراً مسالا فراھم کرنا شروع کر دیتی ھے،، میں پؤائنٹ کے حق مین دلائل دے رھا ھوں،، اگر ارادہ کر لوں تو اسی پوائنٹ کے خلاف بھی دلائل دے سکتا ھوں ،، وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ دونوں قانون کی کتابوں اور پی ایل ڈی سے ھی دلائل دے رھے ھوتے ھیں،، بات دلائل کی نہیں،، بات اس ذھن کی ھے جو یہ کیس لے رھا ھے،،اگر بلند خیال وسیع القلب ھے تو قرآن و سنت میں اس کے حق مین سمندر ھے دلائل کا،،لیکن اگر تنگ نظر تنگ دل اور کنوئیں کا مینڈک ھے تو وہ بھی اپنے موقف مین دلائل ڈھونڈ لے گا،،اور اسی کی ذھنیت کے لوگ اسے جھٹ پٹ ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال بھی کر لیں گے ! جس طرح انوائیرمنٹل بیماریاں ھوتی ھیں اسی طرح انوائیرمینٹل مسائل ھوتے ھیں،، اس بیماری کا علاج اسی ملک کے ڈاکٹر کر سکتے ھیں جہاں کہ وہ پیدائش ھے،، آپ کے کرکٹر سعید انور کو ایک وائرس لگا تھا ،،آسٹریلیا سے تو پاکستانی ڈاکڑوں نے انہیں وھیں بھیجا تھا علاج کے لئے اور وھیں ان کا علاج ممکن ھو سکا تھا،،جس علاقے کے یہ مسائل ھیں اسی علاقے کے عالم سے پوچھیں گے تو ٹھیک جواب پائیں گے،جہاں عالم کو ان سے روز واسطہ پڑتا ھے،وھی ان کے جواب دینے کی جرأت کرتا ھے،، جب جج چھٹی جاتے ھیں تو ان کی جگہ ایک کام چلاؤ جج مقرر کر دیا جاتا ھے،، وکیل کوشش کرتے ھیں کہ بس ڈیٹ لے لیں کوئی دلائل یا بحث نہ کرنی پڑے،،میں نے سینئر وکیل چوھدری محمد اقبال سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے یہ دیوانی کیسوں کے جج ھوتے ھیں،،ان کی اڑان اور ھمت اتنی نہیں ھوتی کہ کسی کو سزائے موت سنا سکیں،،اس کے لئے وہ جج چاھیئے جو روزنہ سزائے موت سناتے ھوں اور یہ ان کا معمول ھو،، بالکل یہ صورتحال علماء سے متعلق ھے،، پاکستان مین کہاں یہ رواج ھے کہ عیسائی اور مسلمان اکھٹے کوئی پارٹی مناتے ھوں،، وھاں تو عیسائی کو چاھے وہ ایم این اے ھو،،چوھڑا ھی کہا جاتا ھے،، اس کے نتیجے میں پاکستانی عالم سے اس قسم کا فتوی لینا ناممکن ھے،، یورپ مین جہاں عیسائی اکثریت اور اھم حیثیت میں رھتے ھیں،ان کا کسی مسلمان تہوار کے موقعے پر پارٹی دینا مسلمانوں کے لئے عزت کا باعث ھے،،وھاں کے مولوی صاحب سے پوچھیں،، اگر مولوی صاحب سے ایگزٹ معلوم کرنا ھے تو پہلے مولوی صاحب کو پھنساؤ ،،پھر ان کے پیچھے پیچھے چلو وہ تمہیں ایگزٹ تک لے جائیں گے،،خود پھنسے بغیر وہ مخرج نہیں بتاتے،،یہ ان کی مجبوری نہیں ! کسی ڈاکومینٹری مین دیکھا تھا کہ ایک سیاح رستہ بھٹک جاتا ھے ،کافی تلاش کے بعد نہ تو اسے رستہ ملتا ھے اور نہ ھی پینے کو پانی ملتا ھے،اور پیاس سے وہ بے حال ھو رھا ھوتا ھے،، وہ آخری حربے کے طور پہ ایک بندر پکڑتا ھے اور اپنے پاس موجود نمکین چنے اسے کھلاتا ھے،، پھر اسے چھوڑ دیتا ھے، بندر بھاگنا شروع ھو جاتا ھے اور سیاح اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رھا ھوتا ھے،، بندر پہلے ایک پہاڑ پہ چڑھتا ھے،،وھاں موجود کھوہ مین داخل ھوتا ھے اور پھر نیچے اترنا شروع کرتا ھے، بہت نیچے جا کر ٹھنڈے پانی کا ایک صاف شفاف چشمہ ھوتا ھے جس سے وہ بندر بھی اپنی پیاس بجھاتا ھے اور سیاح پانی بھی پیتا ھے اور نہاتا بھی ھے ! ڈاکٹر زاکر نائیک اور دیگر لوگ جس آیت کو ریفرنس بناتے ھیں وہ اس کے موقع و محل سے ھٹا کر استعمال کرتے ھیں،، سورہ توبہ "سورہ عذاب” اس وقت جب کہ اتمام حجت کے بعد اللہ کی سنت کے مطابق مکے کے مشرکین پر عذاب نازل ھونے والا ھے، تو ان کے لئے مغفرت کی دعا اسی طرح کی دعا ھے جس طرح نوح علیہ السلام نے عذاب کے وقت اپنے بیٹے کے لئے کی تھی،،اور جو جواب ان کو وھاں دیا گیا تھا،، اسی سے ملتا جلتا جواب یہاں سورہ برآءۃ میں دیا گیا ھے کہ،یہ مشرکین سے برأت کے اعلان کاق وقت ھے استغفار کا نہیں،، مگر اھل کتاب کے لئے اسی سورت میں الگ قانون ھے،،کہ وہ جزیہ دے دیں اور اپنے مذھب پر قائم رھیں جبکہ مشرکین کو لازماً قتل کیا جائے گا یا وہ اسلام قبول کریں گے،کیونکہ رسولﷺ ان میں سے مبعوث کیئے گئے تھے اور قرآن ان کی زبان مین نازل کیا گیا تھا،،اتمام حجت کا جو درجہ ان پر مکمل ھوا تھا وہ اھل کتاب پر نہیں تھا،، اس سورت میں مشرکین سے مراد مشرکینِ مکہ مراد ھیں،، نیلسن منڈیلا پر اس درجے کا اتمام حجت نہیں ھو سکا،، اس لئے اس کے لئے اخلاقاً ریسٹ این پیش کہنا کوئی مسئلہ نہیں،،ھماری کشادہ دلی شاید کچھ لوگوں کے دل نرم کر دے اور تألیفِ قلب کے سبب اللہ پاک ان کے سینے اسلام کے لئے کھول دے،،اگر تألیفِ قلب کے لئے زکوۃ میں غیر مسلم کا حصہ رکھا جا سکتا ھے تو تألیفِ قلب کے لئے دعا میں ھی حصہ نہیں رکھا جا سکتا ؟
ود جج بھی پریشان ھو گیا،، استغاثہ والوں نے انہیں چِٹ پکڑائی کہ حضور آپ استغاثہ کے وکیل ھیں،، وکیلِ صفائی نہیں !!! سید محمود احمد نے بہت اطمینان سے چِٹ پر لگاہ دوڑائی اور بات میں ذرا بھی وقفہ دیئے بغیر اسی جوش و خروش سے فرمایا۔۔می لارڈ ،، یہ وہ سارے دلائل تھے جو وکیلِ صفائی زیادہ سے زیادہ اس کیس کے حق مین دے سکتا تھا،، مگر جنابِ عالی ان دلائل میں کوئی جان نہیں ھے،حقیقت یہ ھے کہ ،،، اس کے بعد جو سید محمود نے استغاثہ کے حق میں دلائل دیئے تو اپنے ھی دیئے ھوئے دلائل کے اس طرح پرخچے اڑا کر رکھ دیئے کہ جج سمیت وکلاء بھی عش عش کر اٹھے اور سید صاحب مقدمہ جیت گئے ” اس مثال کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ جب انسان اپنی سوچ سوچ لیتا ھے تو عقل اس کو فوراً مسالا فراھم کرنا شروع کر دیتی ھے،، میں پؤائنٹ کے حق مین دلائل دے رھا ھوں،، اگر ارادہ کر لوں تو اسی پوائنٹ کے خلاف بھی دلائل دے سکتا ھوں ،، وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ دونوں قانون کی کتابوں اور پی ایل ڈی سے ھی دلائل دے رھے ھوتے ھیں،، بات دلائل کی نہیں،، بات اس ذھن کی ھے جو یہ کیس لے رھا ھے،،اگر بلند خیال وسیع القلب ھے تو قرآن و سنت میں اس کے حق مین سمندر ھے دلائل کا،،لیکن اگر تنگ نظر تنگ دل اور کنوئیں کا مینڈک ھے تو وہ بھی اپنے موقف مین دلائل ڈھونڈ لے گا،،اور اسی کی ذھنیت کے لوگ اسے جھٹ پٹ ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال بھی کر لیں گے ! جس طرح انوائیرمنٹل بیماریاں ھوتی ھیں اسی طرح انوائیرمینٹل مسائل ھوتے ھیں،، اس بیماری کا علاج اسی ملک کے ڈاکٹر کر سکتے ھیں جہاں کہ وہ پیدائش ھے،، آپ کے کرکٹر سعید انور کو ایک وائرس لگا تھا ،،آسٹریلیا سے تو پاکستانی ڈاکڑوں نے انہیں وھیں بھیجا تھا علاج کے لئے اور وھیں ان کا علاج ممکن ھو سکا تھا،،جس علاقے کے یہ مسائل ھیں اسی علاقے کے عالم سے پوچھیں گے تو ٹھیک جواب پائیں گے،جہاں عالم کو ان سے روز واسطہ پڑتا ھے،وھی ان کے جواب دینے کی جرأت کرتا ھے،، جب جج چھٹی جاتے ھیں تو ان کی جگہ ایک کام چلاؤ جج مقرر کر دیا جاتا ھے،، وکیل کوشش کرتے ھیں کہ بس ڈیٹ لے لیں کوئی دلائل یا بحث نہ کرنی پڑے،،میں نے سینئر وکیل چوھدری محمد اقبال سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے یہ دیوانی کیسوں کے جج ھوتے ھیں،،ان کی اڑان اور ھمت اتنی نہیں ھوتی کہ کسی کو سزائے موت سنا سکیں،،اس کے لئے وہ جج چاھیئے جو روزنہ سزائے موت سناتے ھوں اور یہ ان کا معمول ھو،، بالکل یہ صورتحال علماء سے متعلق ھے،، پاکستان مین کہاں یہ رواج ھے کہ عیسائی اور مسلمان اکھٹے کوئی پارٹی مناتے ھوں،، وھاں تو عیسائی کو چاھے وہ ایم این اے ھو،،چوھڑا ھی کہا جاتا ھے،، اس کے نتیجے میں پاکستانی عالم سے اس قسم کا فتوی لینا ناممکن ھے،، یورپ مین جہاں عیسائی اکثریت اور اھم حیثیت میں رھتے ھیں،ان کا کسی مسلمان تہوار کے موقعے پر پارٹی دینا مسلمانوں کے لئے عزت کا باعث ھے،،وھاں کے مولوی صاحب سے پوچھیں،، اگر مولوی صاحب سے ایگزٹ معلوم کرنا ھے تو پہلے مولوی صاحب کو پھنساؤ ،،پھر ان کے پیچھے پیچھے چلو وہ تمہیں ایگزٹ تک لے جائیں گے،،خود پھنسے بغیر وہ مخرج نہیں بتاتے،،یہ ان کی مجبوری نہیں ! کسی ڈاکومینٹری مین دیکھا تھا کہ ایک سیاح رستہ بھٹک جاتا ھے ،کافی تلاش کے بعد نہ تو اسے رستہ ملتا ھے اور نہ ھی پینے کو پانی ملتا ھے،اور پیاس سے وہ بے حال ھو رھا ھوتا ھے،، وہ آخری حربے کے طور پہ ایک بندر پکڑتا ھے اور اپنے پاس موجود نمکین چنے اسے کھلاتا ھے،، پھر اسے چھوڑ دیتا ھے، بندر بھاگنا شروع ھو جاتا ھے اور سیاح اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رھا ھوتا ھے،، بندر پہلے ایک پہاڑ پہ چڑھتا ھے،،وھاں موجود کھوہ مین داخل ھوتا ھے اور پھر نیچے اترنا شروع کرتا ھے، بہت نیچے جا کر ٹھنڈے پانی کا ایک صاف شفاف چشمہ ھوتا ھے جس سے وہ بندر بھی اپنی پیاس بجھاتا ھے اور سیاح پانی بھی پیتا ھے اور نہاتا بھی ھے ! ڈاکٹر زاکر نائیک اور دیگر لوگ جس آیت کو ریفرنس بناتے ھیں وہ اس کے موقع و محل سے ھٹا کر استعمال کرتے ھیں،، سورہ توبہ "سورہ عذاب” اس وقت جب کہ اتمام حجت کے بعد اللہ کی سنت کے مطابق مکے کے مشرکین پر عذاب نازل ھونے والا ھے، تو ان کے لئے مغفرت کی دعا اسی طرح کی دعا ھے جس طرح نوح علیہ السلام نے عذاب کے وقت اپنے بیٹے کے لئے کی تھی،،اور جو جواب ان کو وھاں دیا گیا تھا،، اسی سے ملتا جلتا جواب یہاں سورہ برآءۃ میں دیا گیا ھے کہ،یہ مشرکین سے برأت کے اعلان کاق وقت ھے استغفار کا نہیں،، مگر اھل کتاب کے لئے اسی سورت میں الگ قانون ھے،،کہ وہ جزیہ دے دیں اور اپنے مذھب پر قائم رھیں جبکہ مشرکین کو لازماً قتل کیا جائے گا یا وہ اسلام قبول کریں گے،کیونکہ رسولﷺ ان میں سے مبعوث کیئے گئے تھے اور قرآن ان کی زبان مین نازل کیا گیا تھا،،اتمام حجت کا جو درجہ ان پر مکمل ھوا تھا وہ اھل کتاب پر نہیں تھا،، اس سورت میں مشرکین سے مراد مشرکینِ مکہ مراد ھیں،، نیلسن منڈیلا پر اس درجے کا اتمام حجت نہیں ھو سکا،، اس لئے اس کے لئے اخلاقاً ریسٹ این پیش کہنا کوئی مسئلہ نہیں،،ھماری کشادہ دلی شاید کچھ لوگوں کے دل نرم کر دے اور تألیفِ قلب کے سبب اللہ پاک ان کے سینے اسلام کے لئے کھول دے،،اگر تألیفِ قلب کے لئے زکوۃ میں غیر مسلم کا حصہ رکھا جا سکتا ھے تو تألیفِ قلب کے لئے دعا میں ھی حصہ نہیں رکھا جا سکتا ؟