لڑکی کی شادی کی بہترین عمر 20 سال ھے ، اس کے بعد ھر گزرنے والا دن اس کی لڑکپن کی موت ھوتی ھے ،، 25 -30 سال کی خاتون گھر بیٹھے نفسیاتی طور پر ساس بن جاتی ھے جس طرح ٹوکری میں رکھا پیاز ،لہسن اور ادرگ خود بخود اُگ آتا ھے ، اب شادی ھو بھی جائے تو ایک گھر میں دو ساسیں تو نہیں رہ سکتیں ،،
20 سال کی لڑکی میں Flexibility ھوتی ھے وہ ھر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیتی ھے ،، جبکہ 30 سالہ ( لڑکی ) دو چار ایم اے تو کر لیتی ھے مگر دو چار بچے پیدا کرنے کے قابل بھی نہیں رھتی ،، ایسی بچی کے بچے عموماً شوھر ھی پالتا ھے ،، مردوں کو ڈبل ایم اے لڑکی چاھئے ھوتی ھے تا کہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا سکے ، اور ڈبل ایم اے کرتی لڑکی کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت 35 فیصد رہ جاتی ھے ،،،،،،
کچھ لڑکیاں ڈراموں میں تو دلہن بنتی رھتی ھیں مگر اصلی رشتے ٹھکراتی رھتی ھیں کہ اس طرح مارکیٹ ڈاؤن ھو جائے گی ،، اور جب رشتے ختم ھو جاتے ھیں تو پھر کسی کی دوسری بیوی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رھتا ،،،،،،،،،،،،جب اس نیت سے تعلیم دلائی جائے کہ طلاق کی صورت میں گھر چلائے گی تو 98٪ کیسز میں طلاق ھو ھی جاتی ھے ،انما الاعمال بالنیات ،، جب اللہ توکل دو تو رانی بن کر کھاتی ھے ،، ایف اے بہت تعلیم ھے ،، جب تک رشتہ نہ آئے مزید بھی دلائی جا سکتی ھے مگر آنے والے رشتے کو تعلیم کے لئے مسترد کرنا کفرانِ نعمت ھے جس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا –
کچھ لوگ قحط سالی سے مر جاتے ھیں تو کچھ ہیضے کی وجہ سے ،، بعض والدین تو دعائیں کرتے ھیں کہ کوئی سا بھی رشتہ آئے چار چار بچیاں گھر میں بوڑھی ھو رھی ھیں ، جبکہ دوسری جانب وہ بھی ھیں جن کے رشتے آتے ھیں تو وہ کبھی برادری کا بہانہ بنا کر اور کبھی تعلیم کا بہانہ بنا کر رشتہ رد کر دیتے ھیں ،، میرے مخاطب یہ دوسری قسم والے لوگ ھیں ، پہلی قسم والوں کے لئے تو ھم ھر جمعے میں دعا کراتے ھیں کہ اللہ پاک مناسب رشتوں کا بندوبست کر دے –
،، یہ میرے تجربات کا نچوڑ ھے ، اس کو ایزی مت لیں پلیز ،، رہ گیا رزق تو وہ عورت کے مقدر میں ھوتا ھے ، نوٹ کے یہ دونوں ٹکڑے ملتے ھیں تو مالی حالت بہتر ھو جاتی ھے ،، اکیلا مرد اگر یہ شرط لگا لے کہ جب تک وہ کروڑ پتی نہیں بنے گا اور بحریہ ٹاؤن میں کوٹھی نہ ھو تو شادی نہیں کرے گا ، تو یقین کریں اس کے سارے بھائی بیاھے جائیں گے اس کی شادی ان شاء اللہ نہیں ھو گی ،، شادی بہت بڑا بگ بینگ ھوتا ھے حالات میں تبدیلی کا ،،ھری اپ بوائز ،، لگ جاؤ امی ابو کے پیچھے ،
ھذا ما عندی والعلم عنداللہ