بقول شیخ الاسلام علامہ طاھر القادری دامت برکاتھم العالیہ ، دین 50٪ جشن ھے ،مگر یہ جشن اللہ اور اس کے رسولﷺ کا Endorse کردہ ھے اسے باقاعدہ شریعت بنایا گیا ھے ،، ان الصفا والمروۃ من شعائراللہ کہہ کر اس جشن کو دین بنایا گیا ھے ،، فاذا افضتم من عرفات فاذکروا االلہ عند اللہ مشعر الحرامِ کہہ کر اس کو دین بنایا گیا ھے ، قربانی کا نام لے کر اسے دین بنایا گیا ھے ،، الغرض ھر وہ موقع جس کو قادری صاحب نے جشنِ میلاد کی دلیل بنایا گیا ھے ،، وہ اللہ کا حکم بن کر دین کا حصہ بنا ھے ، اگر یہ سب کچھ خود اپنی مرضی سے عربوں نے اڈاپٹ کر لیا ھوتا تب ھم بھی اپنی مرضی سے کچھ ایکسٹرا میٹھا ڈال سکتے تھے ،، نبئ کریم ﷺ قرآن کے نزول کے بعد پیدا ھونے والی کوئی ھستی نہیں ھیں کہ جو متنازعہ شخصیت بن جائیں ،یہ جشن کی آیتوں والا قرآن آپﷺ پر ھی نازل ھوا ھے ،، پھر اس پر عمل کرنا آپ کا فرضِ منصبی تھا کیونکہ تھیوری پہ پریکٹیکل کرانا معلم کی ذمہ داری ھے تبھی وہ امتحان لے سکتا ھے ،، تو پھر نبی ﷺ پاک نے ان جشن والی آیات کو اور جشن والے مواقع کو عملی طور پہ کس طرح منایا ؟ کیا اعلانِ نبوت کے بعد کے 23 سالوں میں 12 ربیع الاول کے دن کوئی اونٹ ذبح کیئے گئے ؟ کوئی بکرے دیئے گئے ؟ کوئی دس بندوں کا جلوس بھی مدینے میں 12 ربیع الاول کو جشن کے نام پر نکالا گیا ؟ پھر عبداللہؓ بن عمرؓ جیسا نبی ﷺ کا عاشق ،جو نبیﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع پہ ساتھ ساتھ چلتا ھے ،، ھر سنت کو نوٹ کرتا جاتا ھے ،، حضورﷺ کیکر کے ایک درخت کے نیچے سے گزرے تو اپنا سر اس کی شاخوں سے بچنے کے لئے جھکا لیا ،، درخت کٹ گیا تھا مگر عبداللہ بن عمرؓ جب بھی اس رستے سے گزرے ،، ٹھیک درخت والی جگہ پہ سر کو جھکا لیا کہ یہاں میرے حبیب ﷺ نے سر نیچے کیا تھا ،،جہاں جہاں نبئ کریم پیشاب کے لئے بیٹھے ،عبداللہ بن عمرؓ ٹھیک انہیں جگہوں پہ پیشاب کی حاجت نہ ھونے کے باوجود پیشاب کا پوز بنا کر بیٹھے ،میرے حبیبﷺ نے یہاں پیشاب کیا تھا ،، اگر محبت کیک بنانے اور دعوتیں اڑانے اور جلوس نکالنے سے ثابت ھوتی تو ابن عمر جیسا عاشق ضرور کوئی اونٹ ذبح کرتا کوئی جلوس نکالتا ،،مگر وہ تو کچھ اور ھی فرماتے ھیں ،، نابینا ھو چکے تھے ،ایک لڑکا ان کا ھاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ رھتا تھا ،، نماز کا وقت ھو گیا ایک مسجد میں داخل ھوئے ،، وضو بنایا ،، اذان کے انتظار میں بیٹھ گئے کہ اچانک مؤذن کو چھینک آئی ،، اس نے کہا الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ،، عبداللہ بن عمرؓ تڑپ کر کھڑے ھوئے اور فرمایا بیٹا چلو ھم نماز کسی اور مسجد میں پڑھیں گے یہاں بدعتیں ھوتی ھیں ،، مؤذن چونک گیا اس نے دائیں بائیں دیکھا ،سوائے اس کے اور کوئی مسجد میں تھا بھی نہیں ،اس نے جاکر آپ کا ہاتھ تھام لیا اور عرض کی کہ یہ تو بتاتے جائیے کہ بدعت کس نے کی اور کونسی کی ؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی جب تم نے چھینک ماری تھی تو کیا کہا تھا ؟ اس نے کہا کہ "الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ” ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میں بھی کہتا ھوں کہ الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ،، مجھے الفاظ کے معانی پہ کوئی اعتراض نہیں دونوں باتیں سچ ھیں مگر بخدا یہ بدعت ھے ، اللہ کے رسول ﷺ نے ھمیں صرف الحمد للہ سکھایا ھے اور یہی سنت ھے ! کیا صحابہ سے زیادہ ھمیں نبی ﷺ سے محبت ھے ؟ عشرہ مبشرہ سے زیادہ محبت ھے ؟ خلفاء راشدین سے زیادہ محبت ھے ؟،،کس نے کتنے جلوس نکالے تھے 12 ربیع الاول کو ؟ جنہوں نے اپنے باپ، بھائی ،ماموں ، بیٹے اور بھتیجے اللہ کے دین کی خاطر اپنے ھاتھوں مار ڈالے انہی سے بدگمانی کہ وہ نبی ﷺ کا حق نہ سمجھ سکے اور ھم ان سے بڑھ کر نبی ﷺ کی تکریم کرتے ھیں ؟
احباب کرام ! اللہ پاک نے نبی ﷺ کی تکریم کا حکم دے کر تکریم کرنا فرض کیا ھے اور نبئ کریم ﷺ نے صحابہ کے گھٹنے اپنے گھٹنوں سے جوڑ کر نماز کی طرح انہیں وہ تکریمی صیغہ سکھایا ھے ، إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً ،، اللہ نے درود و سلام کا حکم دیا اور نبی ﷺ نے درود سکھایا اور صحابہؓ نے اس درود کو پڑھا بھی اور سرِ تسلیم خم کر کے نبی ﷺ کا ھر حکم مان کر اپنے خلوص کو ثابت بھی کر دیا ،، آج ھماری زندگیاں ،،
وضع میں تم ھو نصاری اور تمدن میں ھنود !
یہ مسلماں ھیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود !
کا نمونہ پیش کرتی ھیں مگر دوسری جانب ھم سنت کی مخالفت کر کے اپنی محبت ثابت کرتے ھیں ،، یاد رکھیں ھر بدعت کے قدموں میں سنت کی قبر ھے ،، اللہ بدعت کی وجہ سے جس سنت کو اٹھاتا ھے پھر اسے لوٹاتا نہیں ھے ! آپ جس طرح بیٹے کی میلاد مناتے ھیں اسی طرح اگر انفرادی طور پہ حضورﷺ کی منانا چاھتے ھیں تو پھر جس طرح بچے کی سالگرہ بغیر ثواب کی نیت کیئے سواد کی خاطر مناتے ھیں اسے بھی سواد کی خاطر منا لیجئے اور ارد گرد کے غریب پڑوسیوں کو اس دن اس کی ضرورت کی چیز دے دیجئے ،جس کو کتابیں چاھئیں اسے کتابیں لے دیں جسے دوا چاھئے دوا کے پیسے دے دیں ،جس یتیم کو کوئی کھلونا کوئی جوتا کوئی کپڑا چاھئے وہ خوشی خوشی لے دیجئے ،،اور سارا سال ایسی میلاد منایئے ،کہ نبی ﷺ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ سماج کے پسے ھوئے لوگوں کی مدد کے لئے ھمیشہ کوشاں رھتے تھے ؛؛؛ نہ خود اور نہ اپنے بچوں کو جلوسوں میں شرکت کے لئے بھیجئے ،،
ھذا ما عندی والعلم عنداللہ !