گزارش ھے کہ تقدیر سے متعلق لوگ بہت غلط فہمیاں پالے بیٹھے ھیں ، اللہ پاک نے ھر معاملے میں اس سے متعلق ڈرائیورز بھی ساتھ انسٹال کیئے ھیں، مثلا ھر بیج میں اگنے کی صلاحیت رکھی ھے تو موسم ،زمینی نمی اور اس کو بونا شرط رکھا ھے ، بچے لکھے ھیں تو شادی شرط رکھی ھے ، اگر کوئی شادی نہیں کرتا تو اس کے مقدر کے بچے اسی طرح اس کے اکاؤنٹ میں پڑے رھیں گے جس طرح بینک اکاؤنٹ سے پیسہ نکلوانے کی زحمت نہ کی جائے تو وہ رقم اکاؤنٹ میں ھی پڑی رھتی ھے !
اب انسانی Actions کی طرف آ جائیں ، بہت ساری انسانی سماجی رسموں نے معاشرے میں فساد بپا کر رکھا ھے ،خود اللہ پاک کا فرمان ھے کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس ،، انسان کے ھاتھوں کے کیئے نے بحر وبر میں خشکی اور سمندر میں فساد بپا کر کے رکھ دیا ھے ،جہیز کے لالچ اور پھر ٹی وی پر رنگ برنگی کڑیاں دیکھ کر ماؤں کے دماغ خراب ھو گئے ھیں ،انہیں اب عام لڑکیاں ۔لڑکیاں نہیں بکریاں لگتی ھیں ، وہ حور دنیا میں چاھتی ھیں ،، پھر ایک اور وجہ رشتے داروں میں رشتہ نہ کرنے کا رجحان ھے ،لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ ان کے رشتے دار برے ھیں ۔لڑکی باھر دینی ھے یا لڑکا باھر سے بیاھنا ھے ، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی تو کسی کے رشتے دار ھیں اور رشتے داروں والی اذیتناک پوری Kit اپنے اوزاروں سمیت ان کے پاس بھی رکھی ھے ، اور پھر لوگ پچھتاتے ھیں ،، اس میں دو تین چیزیں آ جاتی ھیں ، ایک تو اپنے رشتے داروں کے ساتھ کی گئ زیادتیاں انسان کے ضمیر کو ڈراتی ھیں کہ وہ لوگ تمہاری بیٹی سے بدلہ لیں گے ، دوسرا حسد کا جذبہ ھوتا ھے کہ میری دیورانی کی بیٹی اچھی جگہ نہ لگ جائے اور بھائی بھی نہیں سوچتا کہ اس کی تو دیورانی کی بیٹی ھے مگر میرے تو بھائی کی بیٹی ھے ،وہ بھی بیوی کے پیچھے لگ کر بھائی کے گھر سے نہیں کرتا حالانکہ لڑکی لڑکا ایک دوسرے کو پسند کرتے ھوتے ھیں ،، گویا قصور تقدیر کا نہیں انسانی حسد و حقد کا ھے – حالانکہ میں ھمیشہ کہتا ھوں کہ رشتہ دار برا نکلے تو بھی اس کا کوئی نہ کوئی بٹن مل جاتا ھے ،یہ معلوم ھوتا ھے کہ یہ کس کی مانتا ھے کس کے اثر و رسوخ میں ھے (The devil you Know is better than the Devil you Don,t Know)، رشتے داروں میں لڑکی سال دو سال ناراض بھی رھے تو راضی نامے ھو جاتے ھیں، غیر تو مہینے کے اندر ون ٹو تھری کر دیتے ھیں ،، پھر اپنا رشتے دار داماد آ جائے تو شریکہ کوئی نہیں ھوتا ،جو پکا ھے کھا لیتا ھے اور پرانے بستر میں سو جاتا ھے اور اسی صحن میں سو جاتا ھے ، نہ نئے بستر کا جوکھم اور نہ بیٹھک کا جوکھم ، غیروں میں بچی چلی جائے تو بھائی بھی جا کر بیٹھک میں ھی غیروں کی طرح مل کر آ جاتے ھیں ،، اور لڑکی میکے کے منہ کو ترستی ھے جبکہ اپنوں میں ھو تو ھر غمی خوشی پہ چار دن ماں کے گھر رہ آتی ھے ،،
اب رہ گیا زیادہ لڑکیوں والا معاملہ تو شریعت نے اگر لڑکیاں زیادہ دی ھیں تو ،دو دو چار چار کی اجازت بھی دی ھے ،گویا شریعت نے اپنا ذمہ پورا کر دیا ھے ، اگر بچوں والی کو کوئی پرابلم ھے کہ اس کے بچوں کی جائداد نہ بٹ جائے ،،تو کم از کم بانجھ خواتین کو تو دوسری کرا دینی چاھئے تا کہ شوھر کی نسل چلے ،، مگر اس کو اپنے سوکناپے کی آگ لگی ھوتی ھے تو ایک تو شوھر کی نسل سے دشمنی کرتی ھے اور اسے بے نسل مارتی ھے دوسرا ایک عورت کی ویکینسی بھی مار دیتی ھے ،گویا عورت ھی عورت کی دشمن ھے !