تقــــــــدیر اور ھمــــــــــــــــــاری کـــوشــــش !
پتہ نہیں کس نے کہا تھا اور کہہ کے زندہ بھی رھا ھو گا یا چل دیا ھو گا کہ ” ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، تو بات پہنچی تیری جوانی تک ،، جب بھی والدین کے حقوق پر جمعے کا خطبہ ھوتا ھے، تو افراتفری کا سماں بنتا ھے،، اور اگلا جمعہ لازماً بیوی کے حقوق پر دینا پڑتا ھے، جب بھی کبھی رحم مادر میں نفع اور نقصان کے طے ھو جانے کی بات ھوتی ھے تو پھر تقدیر پر بحث لازم کرنی پڑتی ھے، سعی و جدوجہد کا رحم مادر میں لکھے گئے کے ساتھ کیا کمبینیشن بنتا ھے،، بندہ پھر ٹانگیں پسار کے ٹوم اینڈ جیری کارٹون دیکھے میکائیل خود ھی بیل بجا کر چیک پکڑا جائے گا کہ اللہ نے تیرے مقدر میں جو لکھا تھا وہ وصول کرلو ! بلکہ ائندہ ایزی پیسہ شاپ سے وصول کر لیا کرو،مجھے تکلیف نہ دیا کرو ! رحم مادر میں لکھے پر ھمارا ایمان ھے ! مگر اس میں خود ھمارا بھی کچھ کردار بنتا ھے، ٹھیک اسی طرح جیسے اللہ نے اولاد تو لکھی ھوتی ھے،مگر اس میں ھمارا بھی کوئی کردار ھوتا ھے ! اللہ پاک نے سورہ المائدہ میں موسی علیہ السلام کی قوم کو بیت المقدس لکھ کر دے دیا تھا،، کتب اللہ لکم” مگر وہ بھی ایسے ھی سمجھے تھے کہ جب ھمارے نام رجسٹری ھو گئی ھے تو پھر ڈر کاہے کا ،، مگر اپنا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ قبضہ تم نے خود لینا ھے،، ان کے انکار پر رجسٹری منسوخ ھو گئی اور چالیس سال کے لئے ان پر بیت المقدس مین داخلہ حرام کر دیا گیا اور 40 سال کے لئے میدان تییہہ میں قید کر دیئے گئے ! آج کل تقدیر اور اپنے کرادر کو سمجھنا بہت آسان ھو گیا ھے، اۓ ٹی ایم مشین جس سے نقد رقم وصولی جاتی ھے اس کی تقدیر یا پروگریمنگ بینک والے کرتے ھیں،، اس تقدیر میں ھمارا کردار بہت اھم ھوتا ھے،، ھم کارڈ مشین کو دیتے ھیں تو وہ تقدیر کے مطابق پاس ورڈ مانگتی ھے،، پاس ورڈ غلط ھو جانے کی صورت میں وہ کارڈ کو پکڑ لیتی ھے،یہ بھی تقدیر کا حصہ ھے،،پہلے سے اس میں یہ ھدایات موجود ھیں قاری حنیف سے اس مشین کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں نہ میری شکل سے نفرت ھے،، اسے کسی کی غلطی پر وھی ری ایکشن دینا تھا جو اس نے میری غلطی پر دیا،،اس کو کہتے ھیں سنۃ اللہ،، جو قوم غلطی کرتی ھے،، اللہ کی آفاقی پروگریمنگ یا تقدیر کے مطابق قوانین حرکت میں آتے ھیں اور وہ قوم ٹھیک اسی جگہ کھڑی ھوتی ھے جہاں آج 57 اسلامی ممالک کھڑے ھیں ! پاس ورڈ ٹھیک ھونے کے بعد اب آپشنز کی ایک فہرست کھلتی ھے،، اب پھر میرا کردار شروع ھو گیا،مجھے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ھے کہ مجھے کیا آپشن لینا ھے،، مگر زیادہ سوچنے پر بھی تقدیر ایکشن میں آتی ھے،، اور وارننگ ملتی ھے کہ سرکار کارڈ پکڑو اور گھر جا کر سوچ کر آؤ،یہاں دوسرے لوگوں کا وقت ضائع مت کرو،، اس لئے کہ وقت سب کی مشترکہ امانت ھے، جو بندہ بیلنس انکوائری کا بٹن دبائے گا،،اب کوئی بھی وظیفہ پڑھ لے نتائج بیلنس شیٹ کی صورت سامنے آئیں گے،، کیش ودڈرال والے آپشنز کبھی نہیں کھلیں گے،، عملی زندگی میں بھی بہت سارے بٹن ھمیں کو دبانے ھوتے ھیں اور وقت پر دبانے ھوتے ھیں،،مگر بعض دفعہ ٹھیک دبا کر بھی جواب ملتا ھے کہ جناب آپ بہت پڑھے لکھے اور عقلمند ھیں مگر ویری سوری آپ کے اکاؤنٹ میں آپ کے حسبِ تمنا بیلنس ھی موجود نہیں،، میں نصیب ھوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ھے ” بینک مشین بے رخی کے ساتھ کارڈ باہر نکال دیتی ھے،مگر اللہ ایسی دعا کو محفوظ فرما لیتا ھے اور آخرت میں اس کا اجر دے گا،جسے دنیا میں پورا نہ کیا گیا ! اب سوال یہ ھے کہ جناب پھر سعی کیوں کی جائے، مقدر کا انتظار کر لیا جائے،، اور نماز روزہ کیوں کیا جائے جبکہ جنت جہنم کے فیصلے ھو چکے ھیں؟؟ تو پہلی بات یہ رھی کہ کیا ھمیں اس تقدیر کا پرنٹ آؤٹ ای میل میں بھیج دیا گیا ھے جو ھم ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر بیٹھے رھیں؟؟ تقدیر مشروط بھی ھوتی ھے کہ اگر اس نے یوں کیا تو پھر یوں ھو گا ورنہ پھر ایسا ھو گا ! اگر فلان ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا تو مزید دس سال زندگی مل جائے گی ورنہ چھٹی،، اگر فلاں دفتر انٹرویو دیا تو رزق مین اضافہ کر دیا جائے گا ورنہ پرانے پر گزارہ کرے،، سورہ نوح میں یہ آپشن ذکر کیا گیا،، و یؤخر کم الی اجلٍ مسمی،، ان اجل اللہ اذا جاء لا یؤخر لو کنتم تعلمون،،اے قوم مجھ پر ایمان لے آؤ تو اللہ تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا اور تمہیں مٹانے میں ایک خاص مدت تک تاخیر کر دے گا،، جنت اور جہنم کا مسئلہ کچھ یوں ھے کہ اللہ پاک نے جس شخص کو بھی پیدا فرمایا ،اس کے دو گھر بنائے ایک جنت میں اور ایک جہنم میں،، ھر انسان کو دونوں رستے سجھا دیئے کہ یہ جنت میں تیرے گھر کی طرف جاتا ھے اور یہ جہنم میں تیرے گھر کی طرف جاتا ھے،، فیصلہ تو نے کرنا ھے کہ کہاں پدھارنا ھے ! جنتی کو جنت میں جب کسی دوسرے کی جنت دی جائے گی تو بتایا جائے گا کہ آپ فلاں شخص کی جنت کے وارث بنے ھیں جس نے جہنم کا گھر پسند کیا ھے اور ساتھ اسے وہ شخص جہنم میں دکھایا بھی جائے گا تاکہ مومن کے شکر میں اضافہ ھو،، ( اولئک ھم الوارثون، الذین یرثون الفردوس ھم فیہا خالدون) المومنون،، اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے گا کہ وہ جہنم میں آپ کے مکان کا وارث بنا ھے جس سے آپ بچ گئے ھو ! تو وارث ھمیشہ دوسرے کی جائداد کا ھوتا ھے،، اسی طرح جہنمی کو جنت میں اس کا گھر دکھایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ تم نے اپنی غلطی سے اپنا وہ گھر کھو دیا،،جس سے کافر کی حسرت میں اضافہ ھو گا،، تو جناب جب ھمیں تقدیر کے معاملے میں لاعلم رکھا گیا ھے تو اسی لئے رکھا گیا ھے کہ ھم خیر اور بھلے کی امید رکھتے ھوئے اپنی سعی و کوشش کا رخ صحیح سمت رکھیں،، اور اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ ھماری سعی کو رائیگاں نہیں کرے گا