فقیہوں کے دشمنوں کے لئے نبیﷺ کی نصیحت !
August 21, 2013 at 7:03am
أخبرنا سفیان عن عبد الملك بن عمیر عن عبد الرحمٰن بن عبد الله بن مسعود عن أبیه أن النبي ﷺقال: «نضراللهعبدًاسمعمقالتی فحفظها ووعاها و أداها فرُبّ حامل فقه غیر فقیه و ربّ حامل فقه إلىٰ من هو أفقه منه » ”اگر کوئی شخص خبر واحد کی حجیت پر نص یا اجماع سے دلیل طلب کرے تو میں اسے دلیل دیتے ہوئے کہوں گا کہ نبی ﷺنےفرمایاہے: ”اللہتعالیٰاسشخصکوخوشوخرّمرکھےجومیریکلام سن کر اسے حفظ کرتا ہے اور پھر یاد کی ہوئی میری حدیث کو لوگوں تک پہنچاتا ہے اور بہت سے حامل فقہ خود غیر فقیہ ہوتے ہیں اور بہت سے حامل فقہ ایسے لوگوں تک علم پہنچا دیتے ہیں جو اُن سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں
الحمد للہ وحدہ، والصلوۃُ والسلامُ علی من لا نبیَۜ بعدہ،امۜا بعد ! اللہ پاک نے سورہ توبہ میں جو کہ سب سے آخر میں نازل ھونے والی سورت ھے،اس سورت کے بھی آخر میں آیت نمبر 122 میں حکم دیا ھے کہ ” یہ تو ممکن نہیں کہ مومن سارے اس کام کو نکل پڑیں ( اگرچہ یہ سب کی ضرورت ھے ) مگر ھر قبیلے میں سے کچھ لوگ ضرور نکلیں جو کہ دین میں تفقہہ حاصل کر کے پلٹیں اور اپنی قوم کو انذار کریں تا کہ وہ خبردار ھوں !!،، یوں گویا پوری بستی کی یہ ذمہ داری ٹھہری کہ یا تو وہ سارے نکلیں اور دین کی فقہ حاصل کریں،، یا پھر وہ محاسبے سے تب ھی بچ سکتے ھیں کہ کچھ لوگوں کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں جو ان کے behalf پر دین میں فقہ سیکھ کر آئیں اور یوں بستی والوں کی دینی ضرورت کو پورا کریں ! اتنی شد و مد کے ساتھ اور خدائی مشورے اور بندوبست کے ساتھ جس علم کو سیکھنے کی دعوت دی جا رھی ھے وہ فقہ ھے ” پوری آیت کچھ یوں ھے’ وما کان المؤمنون لینفروا کآفۃ ، فلو لا نفر من کل فرقۃ طآئفۃ ” لیتفقہوا ” فی الدین،ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ( توبہ 122 ) آج کل کے زمانے میں عام طور پر سمجھا جاتا ھے کہ پہلے قرآن، پھر حدیث، پھر فقہ،، یعنی اگر قرآن و حدیث نے جواب دے دیا ھے تو بامرِ مجبوری اب فقہ سے کام چلایا جائے گا،، فقہ کو لوگ مطعون کرتے ھیں اور فقیہہ کو مجرم گردانتے ھیں کہ اس نے قرآن اور حدیث کے خلاف مورچہ لگایا ھوا ھے،، اور آپشن پیش کرتے ھیں کہ، تم قرآن وسنت پر چلو گے یا فقہ پر چلو گے؟ تم قرآن کی مانتے ھو یا فقہ کی مانتے ھو،، یہ اور اس قسم کی دیگر باتیں ،کم فہمی اور کم علمی نیز کج فہمی اور ضد و عناد کے سبب سے ھیں،، ورنہ قرآن اور سنت مل کر دین بناتے ھیں اور یہ دونوں ڈیم فقہ کی نہر سے ھی امت مسلمہ کو مستفید کرتے ھیں،، فقہ وہ چادر ھے جس میں قرآن و سنت لپیٹے گئے ھیں،، اس لئے فقہ کو دین کے ساتھ بیان کیا جاتا ،،صرف قرآن کے ساتھ نہیں اور نہ صرف حدیث کے ساتھ،، یعنی تفقہ فی القرآن کا لفظ اللہ پاک نے استعمال نہیں فرمایا،، اور نہ تفقہ فی الحدیث کا لفظ استعمال فرمایا ھے بلکہ ” تفقہ فی الدین ” کا لفظ استعمال فرمایا ھے،، قرآن اور حدیث کے حکم کا مناط معلوم کرنا کہ قرآن کیا چاھتا ھے؟ پھر قرآن ھی سے اس کی تفصیل متعین کرنی، پھر حدیث سے تفصیلات متعین کرنا ،پھر اس حکم کا طے کرنا کہ یہ اپنے الفاظ سے کس مقام پر رکھا جا سکتا ھے،، یہ فرض ھے،واجب ھے، اللہ پاک کی طرف سے صرف نصیحت ھے، اس کو آئیں و قانون کی زبان میں کہتے ھیں جو ھر ملک کی عدلیہ کے ڈے ٹو ڈے کام کو چلاتا ھے،، لاء آف انٹرپریٹیشن کے بغیر کوئی عدالت ایک گھنٹہ بھی کام نہیں کر سکتی،، ! حکم شرعی عوام کے نزدیک تو کوئی آیت یا حدیث اور اس کے الفاظ ھوتے ھیں ،جن کو پڑھ کر ماشاء اللہ ایک دوسرے پر فتوے لگائے جاتے ھیں،مگر شریعت ( عربی میں کسی بھی لاء کالج میں داخلہ” دخول فی کلیۃ الشریعۃ ” گردانا جاتا ھے،، گویا مجرد قانون شریعہ ھے،، شریعت میں الفاظ نہیں بلکہ اس آیت یا اس حدیث سے اخذ ھونے والا حکم ،، حکم شرعی ھوتا ھے،،اب ایک آیت کے الفاظ سے ایک جج کے نزدیک ایک حکم نکل رھا ھے ،جبکہ دوسرے جج کے نزدیک وہ الفاظ کوئی اور حکم بیان کر رھے ھیں،، اس اختلاف کو فقہی اختلاف کہا جاتا ھے کہ الفاظ میں اختلاف نہیں، آیت میں اختلاف نہیں،، مگر اس پر اختلاف ھے کہ یہ حکم فرض ھے یا آپشنل ھے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کو دعا دی تو فرمایا،،” اللھم فقہہ فی الدین، و علمہ التأویل،، آپ اندازہ لگائیں کہ اللہ جس فقہ فی الدین کو حاصل کرنا فرض قرار دیتا ھے،،اور نبیﷺ جس فقہ فی الدین کی دعا دیتا ھے،، وہ فقہ آج کل کے چند پرجوش نادانوں کے نزدیک شرک اور عیب بن گئی ھے ،، اللہ نے بھی فقہ کو دین سے جوڑا ھے،پورے دین کے ساتھ،، اور نبی ﷺ نے بھی فقہ کو پورے دین کے ساتھ بیان کیا ھے۔۔،، آخر کیا بات ھے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ بیک زبان پورے دین کو فقہ کا محتاج بیان کرتے ھیں،، ؟ کیا ان سے معاذ اللہ غلطی ھو گئی ھے یہ سمجھنے میں کہ فقہ تو قرآن و سنت کی دشمن ھے ؟ یا یہ لوگ جو صبح کتابیں بغل میں لے کر نکلتے ھیں فقہ دشمنی کی تبلیغ کرنے ان سے بات کو سمجھنے میں غلطی ھوئی ھے؟؟ اللہ پاک نے سورہ الانعام کی ایت نمبر 98 میں فرمایا،،تحقیق ھم نے بیان کر دی ھیں آیات علم والوں کے لئے ! اگلی ھی آیت نمبر 99 میں فرمایا ” تحقیق ھم نے بیان کر دی ھیں آیات فقہ یا تفقہ والوں کے لئے ‘ گویا دستیاب علم کو اس کی اھمیت کے لحاظ سے اس کے میں رکھنے کا نام فقہ،، اس کو سادہ مثال سے سمجھنا ھے تو تین مثالوں سے سمجھ لیجئے ! ایک میسن کے پاس چند اینیٹیں ھوتی ھیں، سیمنٹ ھوتا ھے،ریت ھوتی ھے اور چند اوزار ھوتے ھیں،، جن سے وہ دیوار بناتا ھے،، اور آپ اس کے نخرے برداشت کر کے،اور چاپلوسی کر کے،مستری جی ،مستری جی، کر کے اور ساتھ دھاڑی دے کر دیوار بنواتے ھیِ، آپ وہ سارا سامان ،اینٹ،سیمنٹ،ریت ،تیسی ،کرنڈی اور فیتہ لے لیجئے اور خود سے دیوار بنا لیجئے آخر مستری کے پاس بھی تو دو ھاتھ ھی ھیں ناں،،وہ دو ھاتھ آپ بھی رکھتے ھیں،، اب کیجئے ان ھاتھوں کو استعمال اور کیجئے اس عقل کو استعمال جو سارا دن امام ابو حنیفہ کے پیچھے پڑی رھتی ھے اور بنایئے دیوار،، آپکی عقل مستری سے زیادہ تجربہ کار ھے،کیونکہ اس غریب نے تو ابھی لاھور بھی نہیں دیکھا،، آپ امریکہ اور برطانیہ سے ھو آئے ھیں،،پھر بھی وہ آپ پر آپ کی عقل سمیت غالب ھے اور آپ مغلوب ! آپ کو اندازہ ھوا ھے کہ آپ میں اور مستری میں فرق کہاں ھے،، فقہ اور تفقہ کا فرق ھے،، سارا سامان اور اوزار مہیا ھونے کے باوجود آپ بے بس ھیں،، اسے اینٹوں کو سے رکھنے کا فن آتا ھے،، آپ اس سے تہی دست ھیں،، آیتیں اور حدیثیں ساری وھی ھوتی ھیں،،مگر جو بات مستری ابو حنفیہ جانتا ھے وہ آپ نہیں جانتے ،وہ ان آیات و احادیث کو میں رکھنے کا فن جانتا ھے، اس کا نام فقہ ھے،، اسی سے آپ درزی کی مثال بھی سمجھ لیں،، اور موٹر مکینک کی بھی سمجھ لیں،، آپ کو سارے پرزوں کے نام آتے ھیں اپنے پیسے سے خرید کر لاتے ھیں،، آپ انگلش کے پروفیسر ھیں،، مگر بے بسی سے بار بار اس ان پڑھ کی منتیں کرتے ھیں کہ وہ جلدی کر دے،، آپ لیٹ ھو رھے ھیں،، وھی ھاتھ آپ کے پاس بھی ھیں،،کیوں اس کی منتیں کر کے اپنی انا کو مجروح کرتے ھیں،، لیٹیئے گاڑی کے نیچے اور لگا لیجئے پرزے،، مگر آپ کو صرف پرزے کا نام پتہ ھے،، پرزے کا کام اور پتہ نہیں ھے،، تعجب کی بات نہیں کہ ایک ان پڑھ غریب مستری اور درزی ،مکینک کی محتاجی میں آپ کو شرم محسوس نہیں ھوتی ،، مگر جب کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ابی حنیفہؒ یا امام شافعیؒ کا نام آ جائے تو ناک پھول کر سموسے کی طرح کیوں ھو جاتی ھے ؟ اللہ پاک نے یہود کی بیماری بیان کی ھے سورہ حشر میں کہ یہ تفقہ سے خالی قوم ھے،،13 ،، منافقوں کو روش کو بیان کیا تو فرمایا کہ یہ لوگ ایمان پا کے اسے گنوا بیٹھے کیونکہ یہ فقہ سے عاری قوم ھے -3 ،، پھر اسی سورہ المنافقون میں ایت 7 میں فرمایا،،زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے ھی ھیں مگر منافق تفقہ نہیں کرتے،، امام ابو حنیفہؒ تو حدیث کے راوی میں بھی تفقہ کی ڈیمانڈ کرتے ھیں،، بعض دفعہ وہ تفقہ کی بنیاد پر تابعی کو صحابی پر فوقیت دیتے ھیں ،یہ تسلیم کرتے ھوئے کہ صحابی کا مقام اپنا ھے،مگر بات مسئلے کی ھے خود نبیﷺ فرما گئے کہ بعض دفعہ حدیث کا راوی بات کو نہیں سمجھتا مگر جس کو پہنچاتا ھے وہ اس سے زیادہ فقیہہ ھوتا ھے” ھو افقہ منہ” لفظ فقیہہ ھی استعمال فرمایا ھے نبی کریم نےﷺ ،،