سوال
Jab ham koi cheez masalan ghar ya gadi ya dokan banaty hain. To aisa banaty hain k wo hamary kaam asaky. To swal ya hy k allah ny q kafir pida kiy agar pida howy to un ky dilon main islam q nai dala agar nai dala to phir wo jahanam main q jalaigain q k agar allah chahta to wo naik hojain. is main kafir ka kia kasoor k wo agg main jalay jain q k un ko aisa banaya khud khaliq nay hi hy
Saturday 4:19pm
الجواب !
اللہ پاک نے جبر سے نیک مخلوق پہلے بنائی ھوئی تھی جن سے آسمان کا چپہ چپہ بھرا ھوا ھے ،، پھر انسان بھی اگر جبر اور زبردستی سے نیک بنانا ھوتا تو انسان کو بنانے کا کھکھیڑ ھی کیوں مول لیتا ؟
اسی جبر اور زور زبردستی کی نفی کرنے کے لئے ھی تو اس نے انسان نام کی با صلاحیت مخلوق پیدا فرمائی تھی جس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہ ھو اور وہ Face Value پر اپنے خالق کو پہچانے اور اس کی محبت میں مبتلا ھو اور اس تک پہنچنے کی سعی کرے ،، اما شاکراً و اما کفوراً ” ھم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے بنایا اور اسے رستہ دکھا دیا پھر وہ چاھے تو شکر گزار بنے( اور ھمارا وجود تسلیم کر لے ) یا ناشکرا بنے ( اور ھمارے وجود کا منکر بن جائے ) ( الدھر )
من شاء فلیومن و من شاء فلیکفر – جو چاھے وہ ایمان لائے اور جو چاھے وہ کفر کا رستہ اختیار کر لے
’ انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج‘‘ (الدھر: ۳)۔ یعنی ہم نے انسان کو ایسے نطفہ سے پیدا کیا ہے جو ملا جلا ہے۔ اس میں ایک ایسے نطفہ کا ذکر ہے جو نرومادہ دونوں کے پانیوں کے اختلاط سے وجود میں آتا ہے۔ صرف مرد کا نطفہ مراد نہیں۔ مشج عربی میں دو چیزوں یارنگوں کے باہم ملنے کوکہتے ہیں۔ اور امشاج اس کی جمع ہے۔ اس لحاظ سے یہ تحقیق کہ ماں باپ دونوں ہونے والے بچہ کو تئیس(۲۳) تئیس(۲۳) کروموسوم مہیا کرتے ہیں اور دونوں کے جینز مل کر بچہ کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں نہ صرف قرآن کے مطابق ہے بلکہ قرآن کریم کا ایک علمی اعجازہے !
اللہ پاک شکر اور ناشکری کے اختیار کا بس ذکر کر کے نہیں رہ گیا بلکہ فی الواقع بدترین سے بدترین کافر کے بچوں کے مسلمان ھو جانے اور بہترین سے بہترین مسلمان کے بیٹے کے کافر ھو جانے سے اس کا ثبوت بھی فراھم کیا ھے ،، بت فروش آزر کا بیٹا خلیل اللہ بن کر ابوالانبیاء بنتا ھے تو نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر ھو جاتا ھے ،، پھر اللہ جب اپنی سنت بنا لیتا ھے تو اس میں استثناء نہیں رکھتا نہ تبدیل کرتا ھے – مثلاً جب اللہ پاک نے انڈے سے بچے بنانے کا طریقہ رکھا تو انڈے میں بچے کے لئے چپٹے حصے میں آکسیجن کا بلبلہ رکھا اور یہ بلبلہ آکسیجن دریافت ھونے سے پہلے کا رکھا جا رھا ھے ، پھر یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ انڈہ بال کر کھا لیا جائے گا اور یہ آملیٹ بنے گا اس بلبلے کو ھر انڈے رکھا ،، یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ سپرم ہاتھ سے ضائع کر دیا جائے گا اس میں بھی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی ، یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ بیج بکری کھائے گی اس میں درخت بننے کی صلاحیت رکھی ،، اسی طرح یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ شخص ایمان نہیں لائے گا ، اس میں ایمان لانے کی صلاحیت رکھی اور اس کی سب سے بڑی مثال فرعون ھے کہ جس نے مرتے وقت ایمان قبول کر کے ثابت کر دیا کہ اس میں ایمان قبول کرنے کی صلاحیت رکھی گئ تھی مگر اس نے اس صلاحیت کو وقت ختم ھو جانے کے بعد استعمال کیا ،،
نیز اللہ پاک نے اس اختیار میں منافقت کا رویہ نہیں اپنایا کہ بظاھر اختیار دے دیا مگر اندرونِ خانہ جبر کو نافذ رکھا ، بلکہ اس پالیسی کو جنت اور جھنم پر بھی لاگو کر دیا ، چونکہ کسی بھی انسان کی دو منزلیں ھیں جنت یا جھنم تیسری کوئی جگہ نہیں ھے ،لہذا اسی اختیار کا ثبوت یہ ھے کہ انسان پیدا ھوتے ھی اس کے دو گھر بنا دیئے جاتے ھیں ایک جنت میں اور ایک جھنم میں ،، اگر وہ شخص مسلمان ھو جاتا ھے اور صالح اعمال کے ساتھ جنت چلا جاتا ھے تو اس کو اس کا جھنم کا گھر دکھایا جاتا ھے تا کہ اس کے شکر میں اضافہ ھو کہ دیکھو اگر تم کافر ھوتے تو وہ تمہاری رھائش تھی ،، اب وہ رھائش اور اس کا عذاب فلاں کو دے دیا گیا ھے اور اس فلاں کا جنت والا گھر اور اس مین موجود نعمتیں تمہیں وراثت میں دی جا رھی ھیں ، اولئک ھم الوارثون ،، الذین یرثون الفردوس ،، ایک جنت وہ ھے جو انسان اپنے اعمال سے پائے گا تو دوسری وراثت میں پائے گا ، اسی طرح دوزخی کو اس کا جنت کا گھر ضرور دکھایا جائے گا تا کہ اس کی حسرت میں اضافہ ھو کہ دیکھو اگر تم ھم پر اعتبار کرتے اور ٹھیک رستہ اختیار کرتے تو یہ جنت میں تمہارا گھر تھا جو اب اس شخص کو دیا جا رھا ھے جس کا جھنم کا گھر اور اس میں موجود عذاب تمہیں وراثت میں ملا ھے –