امام غزالی ،شاہ اسماعیل شھید ،شاہ ولی اللہ دھلوی ، مجدد الف ثانی لوگوں نے مجازی نبوتِ معصومہ کی جو کھیر صدیاں لگا کر تیار کی تھی جب وہ تیار ھو چکی تو غلام احمد قادیانی وہ دیگچہ لے اڑا ،، ، تعجب کی بات یہ ھے کہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی بات کو پکڑ کر ان پر قادیانیت کے لیبل لگانے والے حضرات اپنے بزرگوں کے ان اقوال کو شیر مادر سمجھ کر ھضم کر لیتے ھیں ، یہ سارے اکابر جو تھوکتے بھی دلیل کے ساتھ ھیں ، اپنے ان بڑے بڑے دعووں کی کوئی دلیل تک پیش نہیں کرتے جن کو مان لیا جائے تو نہ توحید بچتی ھے نہ رسالت اور نہ اسلام ،،،،،،
پڑھتا جا شرماتا جا ،،
امام غزالی "المنقذ’ میں لکهتے ہیں :
من اول الطریقۃ تبتدئ المشاھدات والمکاشفات حتٰی انھم فی یقظتھم یشاھدون الملٰئکۃ وارواح الانبیاء ویسمعون منھم اصواتاً ویقتبسون منہم فوائد.(المنقذ من الضلال۵۰)
”اِس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہدہ کرتے ، اُن کی آوازیں سنتے اور اُن سے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔‘‘
شاہ اسماعیل "عبقات” میں اس ہستی کا تعارف پیش کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک وہبیہ یا ولایت کے مقام پر فائز ہے…..
فھو وجیہ معصوم صاحب ذوق حکیم، ثم ان مما یقتضی تربیۃ اللّٰہ ایاہ ان یلقی علیہ علوماً نافعۃ فی قیامہ بمنصبہ فھذا الالقاء یسمّٰی تفھیمًا. وان ممایقتضی تیقظ روحہ و عصمتہ الا یختلط بعلومہ شیء مغایر لما تلقاہ من الغیب. ولذٰلک کانت الحکمۃ کلھا حقًا لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ. ولما کان التفھیم من اعلیٰ اقسامھا فلا بعد ان یسمی بالوحی الباطن . (اشارہ ۴، عبقہ ۱۱)
”چنانچہ یہ ہستی صاحب وجاہت ، معصوم ، صاحب ذوق اور صاحب حکمت ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اِس کی تربیت کے پیش نظر اِس پر وہ علوم القا فرماتے ہیں جو اِس کے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اِس کے لیے نافع ہوتے ہیں۔ اِس القا کو تفہیم بھی کہتے ہیں۔ پھر اِس کی عصمت اور اِس کی روح کی بیداری کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ اِس نے جو کچھ غیب سے پایا ہے ، اُس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کی حکمت تمام تر حق ہوتی ہے جس میں باطل نہ آگےسے کوئی راہ پا سکتا ہے، نہ پیچھے سے۔ اور یہ تفہیم چونکہ اِس حکمت کی سب سے اعلیٰ قسم ہے، اِس وجہ سے اِسے اگر ‘وحی باطن‘سے تعبیر کیا جائے تو یہ کوئی بعید تعبیرنہ ہو گی ۔
همارا ایمان هے کہ انبیاء کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے..حق اور اللہ کا دین صرف وہی قرار پائے گا جو پیغمبر دے گا لیکن شاہ صاحب فرماتے ہین کہ یہی خصوصیات ولایت کے منصب پر فائز ہستی میں بهی پائی جاتی ہیں….
وه لکهتے ہیں… و ان الحق یدور معہ حیث دار وذلک لعصمتہ والتحاقہ بالملأ الاعلیٰ، فلیس الحق الا ما سطع من صدرہ، فالحق تابع لہ لا متبوع.
”اور حق جہاں یہ ہستی گھومتی ہے ، اِس کے ساتھ ہی گھومتا رہتاہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہستی ملأ اعلیٰ کے ساتھ شامل اور معصوم ہوتی ہے ۔چنانچہ حق وہی قرار پاتا ہے جو اِس کے سینے سے نمایاں ہوتا ہے۔ پس حق اِس ہستی کےتابع ہوتا ہے ، وہ حق کے تابع نہیں ہوتی ۔ ‘‘
عبدالکریم الجیلی ” الانسان الکامل فی معرفتہ الارضوا الاوائل” میں لکهتے ہیں…کہ انسان کامل یا ولی ہر زمانے میں کیسے ظاہر ہوتاہے…
ان الانسان الکامل ھو القطب الذی تدور علیہ افلاک الوجود من اولہالٰی اٰخرہ وھو واحد منذکان الوجود الی ابد الاٰبدین، ثم لہ تنوع فی ملابس و یظھرفی کنائس فیسمی بہ باعتبار لباس، ولا یسمی بہ باعتبار لباس اٰخر، فاسمہ الاصلیالذی ھو لہ محمد وکنیتہ ابو القاسم ووصفہ عبداللّٰہ ولقبہ شمس الدین، ثم لہباعتبار ملابس اخری اسامی ولہ فی کل زمان اسم ما یلیق بلباسہ فی ذلک الزمان. فقداجتمعت بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو فی صورۃ شیخی شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی وکنتاعلم انہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکنت اعلم انہ الشیخ. (ورقہ ۴۶ اب ۲۹ )
”انسان کامل وہ مدار ہے جس پر اول سے آخر تک وجود کے سارے افلاک گردش کرتے ہیں، اور جب وجود کی ابتدا ہوئی، اُس وقت سے لے کر ابد الآباد تک وہ ایک ہی ہے ، پھر اُس کی گوناگوں صورتیں ہیں اور وہ یہودونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ایک صورت کے لحاظ سے اُس کا ایک نام رکھا جاتا ہے،جبکہ دوسری صورت کے لحاظ سے اُس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اُس کا اصلی نام محمدہے۔ اُس کی کنیت ابو القاسم، وصف عبد اللہ اور لقب شمس الدین ہے ؛ پھر دوسری صورتوں کے لحاظ سے اُس کے دوسرے نام ہیں ، اور ہر زمانہ میں جو صورت وہ اختیارکرتا ہے، اُس کے لحاظ سے اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ میں نے اُسے اپنے شیخ شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں ۔‘‘
شیخ احمد سرہندی نبوت کے باب میں "مکتوبات” میں لکهتےہیں…
باید دانست کہ منصب نبوت ختم بر خاتم الرسل شدہ است علیہ و علی آلہ الصلوٰت و التسلیمات، اما از کمالات آں منصب بطریق تبعیت متابعان اور انصیب کامل است۔
”جاننا چاہیے کہ منصب نبوت ، بے شک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا، لیکن اِس منصب کے کمالات آپ کے پیرووں کو آپ کے پیرو ہی کی حیثیت سے اب بھی پورے حاصل ہو سکتے ہیں ۔
ابن عربی "فتوحات مکیہ” میں "نبوت” کے باب میںلکهتے ہیں….
فان النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع لا مقامھا، فلا شرع یکون ناسخاً لشرعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا یزید فی حکمہ شرعًا اٰخر. وھٰذا معنی قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی: ای لا نبی بعدی یکون علی شرع مخالفاًلشرعی، بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی.
”چنانچہ جو نبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی، وہ محض تشریعی نبوت ہے۔ نبوت کا مقام ابھی باقی ہے، اِس وجہ سے بات صرف یہ ہے کہ اب کوئی نئی شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نہ منسوخ کرے گی اور نہ آپ کے قانون میں کسی نئے قانون کا اضافہ کرے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ نبوت و رسالت ختم ہو گئی ، اِس لیے میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہ ہو گا، درحقیقت اِسی مدعا کا بیان ہے ۔ آپ کے اِس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جس کی شریعت میری شریعت کے خلاف ہو ، بلکہ وہ جب ہو گا تو میری شریعت ہی کا پیرو ہو گا …..