ملے گی شیخ کو جنت ھمیں دوزخ عطا ھو گا !
بس اتنی بات کی خاطر تیرا محشر پبا ھو گا ؟
کون جنت میں جائے گا اور کون جھنم میں جائے گا ، جائے گا تو کتنے عرصے کے لئے جائے گا ،، یہ ایک ایسی بحث ھے جس کے ھم مکلف نہیں ،، اللہ پاک کے بارے میں ایک بات طے شدہ ھے کہ وہ سراپا عدل ھے اور اس کا نام ھی العدل ھے ، وہ بھول کر بھی بے انصافی نہیں کرتا اور بھٹک کر بھی بے انصافی نہیں کرتا ،، وہ سب کا رب ھے ، رشتے دار کسی کا بھی نہیں ،، وہ ممالک اور قوموں سے بالا تر ھے ، کوئی اس کا گرائیں نہیں اور نہ اس کا ھم قوم ھے ، کسی کے ساتھ اس کا رشتہ تعصب کا نہیں ،، وہ ھر ایک کو فیس ویلیو پہ ڈیل کرے گا ،” ولا یظلم ربک احداً ” اور تیرا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا ، یہ اس کی گارنٹی ھے ،ھمیں فکر اور خلش کس بات کی ھے ؟ کہیں کوئی رب کو اپروچ کر کے بے انصافی پر مبنی غلط فیصلہ نہ کرا لے ؟ کہیں کوئی اپنے تقرب کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کسی بےگناہ کو نہ پھنسا دے ؟ اگر یہ فکر ھے تو پھر دوسروں کی عاقبت کو چھوڑیئے اپنی عاقبت کی فکر کیجئے اور اپنے ایمان کو ری وزٹ کر لیجئے ،،
جنت اور جھنم دونوں ضمنی چیزیں ھیں ،، اصل حقیقت خود خدائے بزرگ و برتر ھے ،، ھم یوں سمجھتے ھیں کہ جنت کا وجود ھمارے رب پر ایمان کا بنیادی سبب ھے ؟ یعنی اگر جنت نہ ھوتی تو ھم اللہ پاک کو ذرا بھی لفٹ نہ کراتے ،، جیسے کوئی خوبصورت شخص زمین کی لالچ میں کسی بدصورت لڑکی سے شادی کر لے ،، اور پھر دیکھے کہ اس کا سسر کسی دوسرے کو اس زمین میں سے حصہ دے رھا ھے تو وہ غصے سے بپھر کر کہے کہ مجھے تو زمین ملی اس چڑیل سے شادی کر کے اور تم ویسے ھی زمین کے حصے دار بننے چلے ھو ،،،،،،،
جنت اور جھنم کو ایک طرف رکھتے ھوئے اللہ کے کانسیپٹ کو ایڈریس کریں ،، کیا وہ اس قابل نہیں کہ اس کو کسی لالچ کے پیکیج یا دھمکی کے بغیر خدا مانا جائے ؟ کیا ھمارے اللہ جیسا اور کوئی ھے ؟ اگر کوئی ھمیں نقد جنت دے دے تو کیا ھم خدا کی ادھار جنت کا پروجیکٹ منسوخ کر کے اور سروس چارجز ڈیڈکٹ کروا کر نئے خدا کی طرف رجوع کریں گے ؟ یا جھنم کا جوتا ھمارے سر پہ نہ تانا ھوا ھو تو اللہ کو اپنا خدا نہیں مانیں گے ؟ یہ وہ جگہ ھے جہاں عشق اپنا کردار ادا کرتا ھے ، اسی وجہ سے اللہ پاک محبت کو ایمان کی شرطِ اولی قرار دیتا ھے ” غایۃ الحب مع غایۃ الذل ” درکار ھے ان دونوں کے مجموعے کا نام ایمان ھے جس طرح آکسیجن اور ھائیڈروجن کے مجموعے کا نام پانی ھے ، پانی میں سے ھائیڈروجن یا آکسیجن کوئی ایک نکال دیں تو باقی آدھا پانی نہیں بچتا بلکہ پھر پانی نام کی کوئی چیز نہیں بچتی ، اسی طرح ایمان کے دو اجزاء میں سے محبت نکال کر لالچ رکھ دیجئے اور عاجزی کو نکال کر تکبر رکھ دیجئے تو پھر وھی باقی بچتا ھے جو ابلیس کے پاس بچا تھا ،،،،،،،،،،،،
میں یہ بات بہت دفعہ کہتے کہتے رہ جاتا رھا ھوں کہ اکثریت اس بات کو نہیں سمجھے گی ،، کنوں حال سناواں دل دا ” اسی پسِ منظر میں لکھا گیا تھا ،،، واللہ مجھے جنت اور جھنم کی کبھی فکر نہیں رھی ،جنت اور جھنم پر میں ایمان و یقین رکھتا ھوں ،نبئ کریم ﷺ کی طرف سے جنت اور جھنم کے بارے میں بتائے گئے تمام احوال کو دل و جان سے تسلیم کرتا ھوں ،مگر میں نے اللہ کو ان دونوں کے بغیر مانا ھے ، جنت اس کا انعام ھے اور جھنم اس کے غصے اور عدل کا مظھر ھے ،،مگر مجھے ھمیشہ اللہ کی رضا کی فکر رھی ھے ، اور اس کی ناراضی میرے لئے جھنم سے بڑی دھمکی رھی ھے ،، اگر وہ ناراض ھو تو یقین جانیں مجھے جنت میں بھی چین نہیں آئے گا ،، ھر نعمت مجھے کاٹ کھانے کو دوڑے گی ،، وہ ناراض ھے تو ان کو میں کیا کروں ،، لقمہ اندر نہیں جائے گا ،،،، یہ وہ کیفیت ھے جو شاید کسی پر اس وقت گزرتی ھے جب اس کا والد اس کی کسی حرکت پہ ناراض ھو مگر اولاد کی محبت کی خاطر اسے کوئی تحفہ عطا کر دے تو اس بیٹے پر ندامت کا احساس زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ھوتا ھے ،جو شاید مار اور سزا کے ساتھ کبھی نہ ھوتا ،جرم کر کے سزا پا لینا ایک معمول اور توقع کے مطابق سلوک ھوتا ھے ،مگر جرم کر کے انعام پانا سرا سر باپ کی محبت کا ثبوت ھوتا ھے ،، یہی وہ مقام ھوتا ھے جب والد کا انعام سکھ دینے کی بجائے کاٹ کھانے کو دوڑتا ھے اور انسان شدتِ ندامت سے والد کے قدموں پر گر جاتا ھے !وہ بار بار اپنے جرم کو دھراتا ھے اور سزا کا مطالبہ کرتا ھے تا کہ اندر کے احساس کی آگ سے چھٹکارا پائے – یہی وہ جذبہ ندامت تھا جس کے تابع اھلِ ایمان خود آ آ کر دربارِ نبوت میں اقرار و اصرار کر کے پتھر کھا کر مرنے کو ترجیح دیتے تھے بشطریکہ ان کا مولا ان سے راضی ھو جائے – یہ سزا وہ اگر یہ کہہ کر دے کہ ” اس میں میری رضا ھے ،، میری تیرے ساتھ ساری ناراضیاں ختم ھو جائیں گی تو مجھے اس کی خوشی کی خاطر وہ بھی منظور ھے ،،
؎
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ھے وہ آئینہ !
جو شکستہ ھو تو عزیز تر ھے نگاہِ آئینہ ساز میں !
ابلیس اس کے غصے کو لے کر جھنم جا سکتا ھے اور معافی کا ایک لفظ نہیں کہتا تو کوئی اس کی رضا سمجھ کر بھی جا سکتا ھے اللہ میرے لئے ایک لفظ نہیں ، ایک خیال نہیں،، وہ ایک زندہ حقیقت ھے جس نے بقول علامہ وحید الدین خان میرے قلب پہ اس طرح تجلی فرمائی ھے کہ میری ذات کے طور کو جلا کر راکھ بنا دیا ھے ، اس راکھ کو کریدو گے تو سوائے اس کی طلب کے اور کچھ نہ پاؤ گے ”
فقہ میں شیخ الجبل کا باب بڑا اھم ھے ، جس میں بیان کیا گیا ھے کہ اگر کوئی شیخ کسی پہاڑ پر پراؤ ڈالے بیٹھا ھے ، وھیں اس کی بکری ھے جس کا دودھ پی لیتا ھے اور پانی کا چشمہ بھی ھے پھلدار درخت بھی ھیں الغرض نیچے بستی والوں سے تعلق رکھنے کی اسے کبھی ضرورت نہیں پڑی ،، اس دوران کوئی نبی مبعوث ھوتا ھے اور اپنی دعوت دے کر اللہ کو پیارا ھو جاتا ھے مگر اس شیخ تک اس کی دعوت نہیں پہنچتی اور وہ شیخ وھیں مر کر مٹی ھو جاتا ھے تو کیا وہ کسی شریعت کا مکلف ھو گا یا اس نبی پر ایمان نہ لانے کی پاداش میں کافر کہہ کر جھنم میں پھینک دیا جائے گا ،جس نبی کی دعوت تو دور کی بات خبر بھی اس نے نہیں پائی اور نہ ھی اس کا نام سنا ،، تو تمام اصحابِ فقہ اس پر اتفاق کرتے ھیں کہ ” لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا ” اور ":” وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً” (الاسراء) ھم کبھی عذاب نہیں دیتے جب تک رسول مبعوث نہ فرما دیں ،، تو چونکہ اس شیخ پر رسول کی بعثت واقع و ثابت نہ ھو سکی لہذا وہ اس نبی کا منکر بھی نہیں گردانا جائے گا ، ،،