درج ذیل سوالات کے معقول جواب ضرورت ہیں ،،،
(۱) عورت کو بہت کچھ دینے کا اسلام دعویدار ہے، تو اس کی گواہی آدھی کیوں رکھی ؟
(۲) عورت کو دوسرے درجے کی شہری بنایاگیا ہے دلیل یہ ہے کہ امامت صرف مرد کرا سکتا ہے عورت نہیں؟ کیا عورت پانچ وقتہ نمازوں، جمعہ و عیدین کی امامت کرا سکتی ہے؟
(۳) پیغمبر نے خود ۹ شادیاں کیں جب کہ امت کو صرف چار کی اجازت دی گئی ، ایسا کیوں ؟
الجواب !
ماشاء اللہ سوال جوڑنے والوں نے اپنے تئیں بڑا سانپ نکالا ھے ،، چلئے اس سانپ کو پکڑتے ھیں ،، مگر یہ بات ھمیشہ ذھن میں رکھنا چاھئے کہ یہ سوالات اٹھانے والے نہ اللہ پہ ایمان رکھتے ھیں ، نہ اس کی کتاب اور رسولﷺ پر ایمان رکھتے ھین ،لہذا ان کے سوالات میں کبھی بھی نیک نیتی شامل نہیں ھو سکتی ، بلکہ ایمان والوں کو کنفیوز کرنا ان کا مقصد ھے ،، ( ودوا لو تكفرون كما كفروا فتكونون سواء ،النساء ) وہ چاھتے ھیں کہ تم بھی کافر بن جاؤ جیسے کہ وہ کافر ھیں سو تم بھی کفر میں ان کے برابر ھو جاؤ ۔۔
1- لفظ "آدھی گواھی ” شریعت میں کہیں بھی استعمال نہیں کیا گیا ،، یہ معترضین کی اختراع ھے ،، اسلام نے ڈاکومینٹری گواھی میں یعنی خرید و فروخت کی کاغذی گواھی میں عورت کو گواہ نہ بنانے کی ترغیب دی ھے اور کہا ھے کہ یہ کام مرد حضرات سے ھی کرا لیا جائے عورتوں کو تکلیف نہ دی جائے کیونکہ کاغذی کارروائی میں گواھوں کا بندوبست انسان اپنی مرضی سے کرتے ھیں ،، جبکہ کسی حادثے یا واقعے میں گواہ خود موقع چنتا ھے نہ کہ انسان ارینج کرتا ھے کہ وہ ایک مرد اور دو عورتیں پکڑ کر کھڑی کرے کہ ابھی یہاں ڈاکا پڑے گا لہذا گواھی کا نصاب پورا کر کے رکھے ،، واقعہ یا جرم اچانک ھوتا ھے اور جو موقع پر موجود ھو گا وھی گواھی دے گا ، ایک عورت ھو گی تو وھی گواھی دے گی ، ایک مرد ھو گا تو وہ گواھی دے گا ،، الغرض ایک عورت کی گواھی پر بھی قاتل لٹک سکتا ھے بےشک کوئی اور دوسرا گواہ نہ ھو ،، ھمارے گاؤں میں مجرد ایک عورت کی گواھی پہ قاتل کو جو کہ بڑا بارسوخ تھا پھانسی پر لٹکا دیا گیا پورے وقوعے میں سوائے اس عورت کے اور کوئی گواہ نہیں تھا ،، نبئ کریم ﷺ نے ایک بھیک مانگنے والی عورت کی اس بات پر کہ اس نے ایک صحابی اور ان کی بیوی کو دودھ پلایا ھوا ھے ، دونوں کے درمیان علحدگی کرا دی تھی ،، حالانکہ وہ صحابی بار بار کہہ رھے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے اس عورت کو مانگنے پہ کچھ نہیں دیا تو اس نے یہ افواہ اڑا دی ،،مگر آپ نے اس صحابی کی دلیل کو رد فرما دیا اور یہ کہتے ھوئے علیحدگی کا حکم دے دیا کہ ” اس عورت کے اس قول کے بعد تم کیسے اکٹھے رہ سکتے ھو ،،،
دو عورتوں کی گواھی کو آدھا کہنے والوں سے گزارش ھے کہ جب دو ججوں کا بینچ تشکیل دیا جاتا ھے تو کیا ان کا فیصلہ آدھا ھوتا ھے اور چار ججوں کا بنچ بنے تو فیصلہ چوتھائی ھو جاتا ھے ؟ پھر دو عورتوں کی گواھی آدھی کیسے ھو جاتی ھے جبکہ اللہ نے اس حکم کے ساتھ وجہ بھی بیان کر دی ھے کہ عورت چونکہ مجمعے کی عادی نہیں لہذا اس سے مردوں کے مجمعے میں اپنے فطری حیاء کی وجہ سے بھول چوک ھو سکتی ھے تو دوسری عورت اس کو لقمہ دے کر گواھی کو درست کر سکتی ھے ، یہ ایسی سہولت ھے جو صرف اللہ جیسی رحیم ھستی ھی دے سکتی ھے ، اور یہ عورت سے اللہ کی محبت کا مظھر ھے ، دنیا میں کسی ملک کے قانون میں بھی گواھی کے وقت کسی دوسرے کو لقمہ دینے کی اجازت نہیں ھے یہاں تک کہ وکیل استغاثہ اور وکیلِ صفائی کو بھی لقمہ دینے کی اجازت نہیں ،، جبکہ اللہ نے ایک عورت کو دوسری عورت کی گواھی میں لقمہ دے کر درست کرنے کی سہولت فراھم کی ھے ،،اس کے لئے جو الفاظ اللہ پاک نے انتخاب فرمائے ھیں وہ ھی اس کی وضاحت کے لئے کافی ھیں،،اللہ نے لفظ ” تنسی ” یعنی بھولنے کا لفظ استعمال ھی نہیں فرمایا بلکہ "تضل” کا لفظ استعمال فرمایا ھے،جس کا مطلب چُوکنا ھے،جس کو پنجابی میں تھُڑک جانا کہتے ھیں،،اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ھے،کوئی چیز یاد ھوتے ھوئے چُوک جانا ممکن ھے،،جج فیصلہ لکھنے میں چُوک سکتا ھے،اور اللہ پاک نے یہ دونوں لفظ سورہ طہ کی آیت نمبر 52 میں ساتھ ساتھ استعمال فرمائے ھیں،،لایضلُ ربی ولا ینسی” میرا رب نہ بھولتا ھے اور نہ چُوکتا ھے،
2- عورت اور امامت !
عورت کی گھریلو ذمہ داریاں اس نوعیت کی ھیں کہ اسے جماعت کی نماز اور جمعے کی نماز تک سے رخصت دے دی گئ ھے ، وہ جماعت یا جمعہ اٹینڈ کر لے تو ھو جاتا ھے مگر اس پر واجب نہیں ھے ، پھر جس پر جماعت واجب ھی نہیں اس کی امامت کیونکر منعقد ھو گی ،، ؟ جمعہ تین بالغ مردوں کی موجودگی میں منعقد ھو جاتا ھے ان کے ساتھ دس بیس عورتیں بھی شامل ھو سکتی ھیں ،،لیکن اگر تین مرد نمازیوں میں موجود نہ ھوں تو عورتیں تین سو بھی ھوں تب بھی جمعہ منعقد نہیں ھوتا کیونکہ ان پہ جمعہ فرض ھی نہیں تھا ،،، البتہ عورت اگر عورتوں میں ھے تو عورتوں کی جماعت کرا سکتی ھے اور اسلامیہ کالج میں لڑکیاں اپنی حفظ کی استانی کی امامت میں ھی ظھر کی نماز پڑھتی ھیں ، رمضان مین عشاء کی نماز اور تراویح بھی اپنی استانی کی امامت میں پڑھتی ھیں – جب قانون بنتا ھے تو کسی خاص مقصد کو سامنے رکھ کر بنتا ھے ،پھر وہ حالات نہ بھی ھوں تو قانون کی پابندی لازم ھوتی ھے کیونکہ عمل کی علت حکم ھے ، حکمت نہیں ھے ، مثلاً ٹریفک میں ریڈ اور گرین سگنل کا قانون حادثے سے بچانے اور ھر طرف کے گاڑی والے کو برابر موقع فراھم کرنا ھے ،، لیکن ایک شخص رات تین بجے دیکھتا ھے کہ چاروں طرف دور دور تک کوئی گاڑی نہیں ،چنانچہ جس خدشے کی وجہ سے یہ قانون بنایا تھا وہ خدشہ موجود نہیں لہذا میں ریڈ سگنل کو جمپ کر لیتا ھوں ،، تو اس کی اس دلیل کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا اور اسے چالان بھرنا پڑے گا ،،
3- جب چار سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی لگائی گئ تو جن کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں ان کو موقع دیا گیا کہ وہ ان میں سے چار کو رکھ کر باقی کو طلاق دے دیں ،، طلاق یافتہ عورتوں نے عدت پوری کر کے نئے نکاح کر کے اپنے گھر بسا لیئے ،،مگر چونگہ نبی ﷺ کی بیویاں امت کی مائیں قرار دے دی گئ تھیں ،( و ازواجہ امھاتھم ) اور ان سے نکاح حرام کر دیا گیا تھا( ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً ) لہذا اگر ان میں سے کچھ بیویوں کو نبئ کریم طلاق دے دیتے تو وہ ساری زندگی مجرد زندگی گزارتیں ،، یہاں بھی اللہ پاک نے عورت کے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا اور نبئ کریم ﷺ کی تمام ازواج کو نبی ﷺ
کے نکاح میں رھنے دیا تا کہ وہ مکمل عائلی زندگی سے لفط اندوز ھوں ،،