سوال: "ثُمَّ اسْتَوَىٰ” اور "بَعْدَ ذَٰلِكَ” کی کنفیوزن

قاری صاحب "ثُمَّ اسْتَوَىٰ” اور "بَعْدَ ذَٰلِكَ” کی کنفیوزن ہے۔ شوگر کا ذکر کریں اور کہیں کہ "اس کی نظر چلی گئ ، پھر اسی کی وجہ سے اس کے گردہ بھی فیل ھو گیا”۔ دوسری جگہ "شوگر کی وجہ سے اس کا گردہ چلا گیا اور اس کے بعد نظر بھی چلی گئی”۔
الجواب،،،،،
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
اس میں جب زمین کی تخلیق کا ذکر پہلے ہلے میں کر دیا گیا اور وہ شرک کے رد میں کیا کہ تم اسی زمین میں اس کے شریک ٹھہرا رھے ھو جس کو اس نے بنایا دو دن میں ؟ یہ ھے وہ رب العالمین ، اور اس نے اس زمین میں ،،،،،،،،، یہ اور یہ بنایا ،، شرک کے رد میں زمین اور اس پر پیدا کی گئ نعمتوں کا ذکر فرمایا ،،،،،،،،،، اب زمین و آسمان کی تخلیق کا طریقہ یہاں اگلی آیت سے شروع ھو رھا ھے ،، مثلاً ایک آدمی کہتا ھے کہ تم اس گاڑی کا مالک کسی اور کو ٹھہرا رھے ھو حالانکہ یہ میں نے خریدی ھے میں ھوں اس کا اصلی مالک ،، اور میں نے اس کے سیٹ کور تبدیل کیئے ،اس کے چاروں ٹائر نبئ ڈلوائے اور انجن بھی اوورھال کروایا ،،، اس کے بعد وہ بتاتا ھے کہ اس نے گاڑی کس طرح خریدی ،،، کس کس مرحلے سے گزرا ،،
بالکل یہی انداز ھے یہاں کہ جس زمین اور اس کی نعمتوں کا میں نے ذکر کیا ھے سنو کہ میں نے اس کو بنایا کیسے ،یہ تفصیل وھی بتا سکتا ھے جس نے بنائی ھے ،، وہ کہتا ھے کہ ایک عرصے تک وہ خالق اکیلا ھی تھا ،، پھر اس نے توجہ فرمائی آسمان کی طرف جو اس وقت دھوئیں کی طرح تھا تو اس نے حکم دیا کہ اے دھوئیں آسمان اور زمین بن جا ،، میرے حکم کی ھر حال میں تعمیل ھونی چاھیئے ، انہوں نے کہا کہ یعنی جھٹ بن کر اپنے حال سے کہا کہ جناب ھم یہ بنے کھڑے ھیں ،، ھم سراپا طاعت
ھیں ، گویا اللہ کو کوئی خاص مشقت نہیں کرنی پڑی نہ چیزوں کے پیچھے دوڑنا پڑا نہ انتظار کرنا پڑا ، بلکہ اس کے کن کے پرنٹ کمانڈ دے دی تو جو نقشہ اس کے ذھن میں تھا وہ ماڈل دھوئیں سے برآمد ھونے لگ گیا ،( یہی وہ نیبولا ھے جس سے آپ کی سائنس کائنات کے بننے کا عمل مانتی ھے ) ثمہ بیان کی ترتیب بیان کر رھا ھے نہ کہ تخلیق کی ترتیب ،یعنی پھر سنو کہ یہ عمل ھوا کیسے ،،،
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ یہاں اللہ پاک نے بتایا کہ ،،
کیا تم زیادہ مشکل تخلیق ھو یا آسمان ، جس کو اس نے بنایا ،،
اس کی طنابیں خوب کھینچیں اور اس کا تسویۃ کیا ،مطلوبہ کام کے لئے تیار کیا ،، اس میں زمین پر رات رات اور دن لانے کا بندوبست کیا ،، یعنی سورج کو اس کے موقعے پہ رکھا ،زمین کو روٹیشن پہ لگایا ،،
اور زمین کو اس کی تخلیق کے بعد اچھی طرح بچھایا ،،، یہاں بعد ذلک یعنی بعد خلق السماء نہیں ھے کہ آسمان کو پیدا کرنے کے بعد ،،بلکہ بعد خلقھا مراد ھے اسی لئے اللہ جملے میں زمین کو پہلے لے آئے ھیں ،، یعنی زمین کو اس کے پیدا کرنے کے بعد تھوبے کا تھوبا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس میں میدان بھی بنائے پہاڑ بھی بنائے اور پہاڑوں کے درمیان وادیاں اور رستے بھی رکھے تا کہ تم قید نہ ھو جاؤ بلکہ ادھر ادھر آ جا سکو ،، یہ سب دحہا میں شامل ھے ، ( بعد ذالک ، کو نظامی صاحب ” آسمان بنانے کے بعد ” سمجھ رھے ھیں ،، جبکہ جملے میں زمین کا ذکر پہلے کرنے کا مقصد ھی اسے پچھلے جملے یعنی آسمان کی تخلیق سے الگ کرنا تھا ” اور زمین کو اس کے پیدا کرنے کے بعد ھم نے بچھایا ،،،، یعنی زمین اسی موجودہ حالت میں نہیں تھی اسے بڑے مراحل سے گزار کر یہ شکل دی گئ ھے
‫#‏تفسیر‬ ـ القرآن