اب بھی آ جاؤ کچھ نہیں بِگڑا، اب بھی ھم انتظار کرتے ھیں
بڑی عجیب بات ھے ، بات بھی کچھ عجیب ھے !
جس نے دیا ھے دردِ دل وہ ھـی میرا طبیب ھے !
دَیـر و حـــــرم میں امتیاز ،شیــــوہءِ اھل دل نہـیں !
وہ بھــــی درِِ حبیب ھے، یہ بھـی درِِ حبیب ھے !
یہ شعر بس ایک عجیب سی بات پر تعجب کی وجہ سے یاد آ گیا ،کہ کتنی عجیب بات ھے کہ آپ ایک گاڑی لیتے ھیں تو دو چار ماہ میں آپ کو اس میک کی گاڑی کے مکینک ،سپیئر پارٹس اور پنکچر لگانے والے کا پتہ لگ جاتا ھے، مگر ساٹھ ساٹھ سالوں سے اپنی ھستی کی گاڑی کو پنکچر ھی دوڑاتے پھرتے ھیں ، اس کو پنکچر لگانے والا تمہیں ابھی تک نہیں ملا ؟ یہ تو پتہ چل گیا کہ جس میک کی گاڑی ھوتی ھے ان کی ایجنسی کی سروس سب سے بہتر ھوتی ھے،، بس یہ ھی سمجھ نہیں لگا کہ تم ساٹھ سال کے بعد بھی اپنے بنانے والے کے در پہ آ جاؤ تو وہ ” کیومٍ ولدتکَ امکَ ” بنا دیتا ھے،،اس طرھ چم چم کر دیتا ھے ،بے عیب و صاف ستھرا کر دیتا ھے،وہ ھمارے گند سے ذرا کراھت نہیں کرتا،وہ اس ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ھے،جو اپنے بچے کا سینڈھ سے بھرا منہ چوم رھی ھوتی ھے، وہ کوئی چارجز نہیں لیتا ،فرماتا ھے کہ ندامت سے تیری آنکھ میں مکھی کے سر کے برابر آنے پانی جس کی نمی کو صرف تیری آنکھ محسوس کر لے ،تیرے حصے کی جہنم کو بجھا دیتا ھے ! وہ پلٹ آنے پر غصہ نہیں کرتا ،طنز نہیں کرتا، بلکہ خوش ھوتا ھے ،اس سے بھی زیادہ خوش ،جتنی خوشی ام المومنین ام سلمی رضی اللہ تعالی عنہا کو نبی کریمﷺ کے اپنے گھر آنے سے ھوتی تھی ،، اتنی خوشی کہ نبیﷺ مثال دیتے ھیں کہ اللہ کو اپنے گنہگار کے پلٹ آنے سے اس اونٹ والے سے زیادہ خوشی ھوتی ھے کہ جس کا اونٹ صحراء میں اس کا زادِ راہ لے کر بھاگ جاتا ھے اور وہ مایوس ھو کر مرنے کے لئے ایک چٹان کی ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ھے جہاں اس کی آنکھ لگ جاتی ھے،آنکھ کھلتی ھے تو وہ کیا دیکھتا ھے کہ اس کا اونٹ سارے زاد راہ سمیت اس کے سامنے کھڑا ھے، خوشی سے بیساختہ اس کے منہ سے نکلتا ھے ” اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب” حالانکہ وہ کہنا چاھتا تھا کہ ،اے اللہ میں تیرا بندہ اور تو میرا رب ! اللہ کو اس شخص سے زیادہ خوشی ھوتی ھے !
فرمایا پلٹنے پر تو مجھے بے نیاز نہیں بلکہ منتظر و بیتاب پائے گا،، ان اَتیتَنی شبراً اتیتک ذراعاً و اتیتنی ذراعاً اتیتک باعاً و اَتَیتَنی مشیاً اتیتک ھرولاً۔۔ تو اگر ایک بالشت آئے گا ،میں ایک بازو بھر آؤں گا ، اور تو بازو بھر آئے گا تو میں گز بھر آؤں گا ،، تو چل کر آئے گا ، میں دوڑ کر آؤں گا،، تو سمندروں کی جھاگ برابر گناہ لائے گا تو مجھے اس سے زیادہ رحمت لیئے منتظر پائے گا !
انجیل برنباس میں ایک باپ اور بیٹے کی مثال سے عیسی علیہ السلام نے توبہ کی اھمیت بیان فرمائی ھے کہ ایک شخص کے دو بیٹے تھے، ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ مجھے میرا حصہ دے دیا جائے کہ میں جا کر کہیں کاروبار کروں اور اپنی روزی میں اضافہ کروں،، باپ اور بھائی کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ضد سے باز نہیں آتا، آخر باپ اسے اس کا حصہ دے کر رخصت کر دیتا ھے، وہ بیٹا باپ کی بستی سے چلا جاتا ھے اور مختلف چال بازوں کے ھاتھوں اپنا سارا سرمایہ کھو دیتا ھے اور کسی یہودی کے یہاں خنزیر چرانے پر ملازم ھو جاتا ھے،، وہ یہودی نہایت تند خو اور بدخلق ھوتا ھے، ادھر باپ اس کے فراق میں غمگین رھنے لگتا ھے،اور ھر روز چڑھتے سورج کے ساتھ بیٹے سے کہتا ھے کہ شاید آج میرے بیٹے کی کوئی خبر ملے ! ایک دن یہودی اس بیٹے کو بہت بے عزت کرتا اور گالیاں دیتا ھے،جس پر وہ بیٹا اپنے دل میں سوچتا ھے کہ میں اپنے باپ کے پاس اس لیئے پلٹ کر نہیں جاتا تھا کہ وہ مجھے بے عزت کرے گا،،مگر میرا باپ مجھے اس یہودی جتنا بھی بے عزت نہیں کرے گا کیونکہ آخر کار وہ میرا باپ ھے،، وہ یہودی کی نوکری چھوڑ کر واپسی کا قصد کرتا ھے اور اپنی بستی میں داخل ھوتا ھے،، اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے باپ کو اس کے پلٹ آنے کی خبر مل جاتی ھے،، وہ دروازے پر اپنے بیٹے کا منتظر ھوتا ھے،، بیٹے کی بدحالی دیکھ کر وہ دل مسوس کر رہ جاتا ھے،، اور بیٹے کو گلے لگا کر تسلی دیتا ھے کہ اب واپس آ گئے ھو تو سب ٹھیک ھو جائے گا ! وہ بڑے بیٹے کو کہتا ھے کہ سب سے بہترین بیل ذبح کرو اور بستی والوں کی روٹی کرو اس خوشی میں کہ میرا بیٹا واپس آ گیا ھے ! بڑا بیٹا جو یہ امید رکھتا تھا کہ باپ پلٹ آنے والے کو لعن طعن کرے گا ، اور بڑے بیٹے کی خدمت کے ترانے گائے گا،، اس استقبال اور خوشی پر ہکا بکا رہ جاتا ھے! وہ باپ کو کہتا ھے کہ وہ تو اپنا حصہ لے کر چلا گیا تھا جسے وہ ضائع کر کے آ گیا ھے،جب کہ میں آپ کی خدمت میں دائمی رھا اور آپکی خدمت کے ساتھ مال مویشی بھی چراتا رھا،، آپ کو میرے اپنے پاس ھونے کی اتنی خوشی تو کبھی نہیں ھوئی اور اب آپ چاھتے ھیں کہ میرا پالا ھو بہترین بیل اس کی خوشی پر قربان کر دیا جائے ؟ باپ نے کہا کہ بیٹا تُو تو سدا سے میرے پاس تھا،جبکہ وہ گم ھو گیا تھا،کھویا گیا تھا،،کھوئی ھوئی چیز ملنے کی خوشی زیادہ ھوتی ھے،پھر تُــو دیکھتا نہیں کہ میرے پاس رھنے کے عوض تو کس طرح میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رھا ھے،جب کہ وہ جب سے گھر میں داخل ھوا ھے نظر اٹھا کر میری آنکھوں میں نہیں دیکھ رھا ؟ حالانکہ میں چاھتا ھوں کہ وہ میری آنکھوں سے امڈتا پیار دیکھے، مگر احساس ندامت اسے زمین سے نظریں نہیں ھٹانے دے رھا ! اس کے بعد عیسی علیہ السلام اپنے حواریین کو سمجھاتے ھیں کہ پلٹ آنے والا گنہگار اپنی باڈی لینگویج کی وجہ سے،اپنی عاجزی کی وجہ سے ،اپنی ندامت اور شرمساری کی وجہ سے رب کو عزیز ھے، جب کہ نیک بے نیازی کی چال چلتا ھے، اور رب کے ساتھ صرف بنیے کی طرح معاملہ کرتا ھے،وہ سمجھتا ھے کہ اس نے سجدہ کر کے رب کا حق ادا کر دیا ھے جبکہ رب اس کے حق کو فوراً دینے کی بجائے قیامت تک لٹکائے چلا جا رھا ھے ! وہ چھوٹی سی مصیبت پر جھلا جاتا ھے کہ رب کو اپنا مقروض سمجھتا ھے ! اسی غلطی اور خناس کی بدولت اللہ نے ابلیس کے سجدوں کو اٹھا کر پھینک دیا تھا اور روتے ھوئے آدم کو گلے لگا لیا تھا !