نکاح کی کم سے کم عمر اور قرآن !
وسعت اللہ خان کا وہ سوال جس کے جواب کے بعد ان کی طرف سے کیئے گئے باقی ضمنی سوالات کی ضرورت ھی نہیں رھتی،،مندرجہ ذیل ھے !!
سوال !
کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ایک عام سے مسلمان کی طرح میں بھی دین کے بنیادی اصولوں سے واقف ضرور ہوں مگر ان کی باریکیوں اور شرح سے نابلد ہوں۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کے واجب الاحترام علمائے کرام سے بلا تخصیصِ فرقہ و فقہ رہنمائی کا طلب گار ہوں۔ A-کیا شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی کم ازکم عمر متعین ہے یا پھر اس بارے میں احکامات ِشرعیہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ جنسمانی بلوغت کا معلوم ہوتے ساتھ ہی لڑکے لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جائے یا پھر مراد یہ ہے کہ شادی کے لیے جسمانی بلوغت کی شرط لازم ہے ؟ A/1 -کیا نکاح کے لیے جسمانی بلوغت کو ہی معیار بنایا گیا ہے یا ذہنی بلوغت کو بھی اس ضمن میں ضروری اہمیت دی گئی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر جس طرح جسمانی بلوغت کا ایک پیمانہ رکھا گیا ہے کیا ذہنی بلوغت کا بھی کوئی پیمانہ مقرر ہے کہ جس پر پورا اترے بغیر شادی میں جلد بازی نہ کی جائے ؟ اور یہ کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے کیا مراد ہے ؟ کیا یہ رضا مندی بلا دباؤ ہونی چاہیے ؟ اگر ہاں تو پھر جبری رضا مندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نکاح کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں ؟ اور شرعاً ایک لڑکے اور لڑکی کو عمر کے کس دور سے باہوش و حواس عاقلانہ و آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے قابل سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر محض جسمانی بلوغت ہی نکاح کا پیمانہ ہے تو ایسے بچے جو روزمرہ ضروریات یا حصولِ تعلیم یا کسی اور سبب والدین یا رشتے داروں کے زیرِ کفالت ہیں ان کی بعد از نکاح کفالت کے تقاضوں کے بارے میں کیا احکامات ہیں ؟ کیا جسمانی بلوغت کے فوراً بعد شادی شدہ زندگی کا معاشی بار وہ خود اٹھائیں گے یا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک یہ ذمے داری والدین اور دیگر رشتے داروں پر عائد ہوگی ؟ الجواب ! حامداً و مصلیاً !! گزارش یوں ھے کہ یہ کس طرح ممکن ھے کہ ایک ایسا دین جو رھتی دنیا تک کے لئے آخری دین ھے ،، اور ایک ایسی کتاب جو انسانیت سے اللہ پاک کا آخری خطاب ھے ،،وہ اللہ جو آنے والے زمانوں سے بھی اسی طرح واقف ھے جس طرح گزرے زمانوں سے واقف ھے،، جس کے لئے آنے والا مستقبل بھی ویسا ھی اٹل اور دو ٹوک ھے،، جس طرح گزرا ماضی !! وہ اللہ ایک ایسے معاملے میں جو کہ ھر گھر کا ، ھر فرد کا اور ھر روز کا معاملہ ھے ،،کوئی واضح ھدایت نہ دے ،، اور معاملہ بھی وہ جس پر نوع انسانیت کی بیخ و بنیاد رکھی گئ ھے ! اللہ پاک نے یہ مسئلہ سورہ النساء کی ابتدا میں ھی حل کر دیا ھے اور اس شان سے بیان کیا ھے اور اتنے ذومعنی الفاظ استعمال فرمائے ھیں کہ ان میں ھر اس سوال کا جواب دے دیا گیا ھے کہ جو کسی عاقل شخص کے ذھن میں پیدا ھو سکتے ھیں ! اورجو ایک ایک کر کے وسعت اللہ خان نے پوچھے ھیں ! سب سے پہلی بات یہ کہ اللہ پاک نے وراثت کی تقسیم کی عمر کا پیمانہ نکاح کی عمر کو بنایا ھے کہ !! یتیموں کو تقسیم وراثت سے پہلے آزماتے رھو یہانتک کہ وہ ” نکاح کی عمر ” کو پہنچ جائیں ! (سورہ النساء 6 ) اگر نکاح کی عمر ھی نامعلوم تھی اور معاشرے میں کسی کو پتہ ھی نہیں تھا کہ "کم سے کم "نکاح کی عمر کیا ھے تو اللہ پاک کا اس کو پیمانے کے طور پر استعمال کرنا ” چہ معنی دارد ؟” اللہ کوئی پاکستان سے تو سعودیہ نہیں گیا تھا کہ وہ وھاں کے معاشرتی حالات کو نہیں جانتا تھا ،، نیز اس پر بہت سارے سوال آنے چاھیئے تھے کہ جناب یہ نکاح کی عمر کتنے سال سے شروع ھوتی ھے ؟ اور جب اس بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا تو اس کا مطلب یہ ھے کہ یہ عمر لوگوں میں اتنی معروف تھی کہ اللہ نے اسی کو پیمانہ ٹھہرایا ! پھر لفظ بلوغ اور بالغ بھی اسی وجہ سے مستعمل ھے کہ کسی کا کسی مقصد یا مطلوب تک پہنچ جانا ،،، اور وہ مقصود یا مطلوب یا منزل معلوم ھونا ضروری ھے ! مثلاً حتی یبلغ الھدیُ محلہ ” یہانتک کہ ھدی یعنی قربانی اپنے محل کو پہنچ جائے ! یعنی حلال ھونے کی جگہ پہنچ جائے ،، اب یہ ھی معلوم نہیں کہ قربانی کا محل کیا ھے تو ساری زندگی بکرا ساتھ لئے پھرتے رھو ؟ یا جہاں چاھے حلال کر دو ؟ گویا بلوغ کے لئے منزل کا معلوم ھونا ضروری ھے،، احرام میں جانور کے قتل کرنے پر کفارے میں ویسا ھی جانور کا کعبے پہنچا کر ذبح کرنا ضروری ھے،، الفاظ استعمال فرمائے ” ھدیاً بالغ الکعبۃ،، وہ ھدی جو کعبہ پہنچائی جائے ،، اب کعبہ ھی نامعلوم ھو گا تو انسان اس جانور کو لئے بھٹکتا رھے گا ! بایں معنی اللہ پاک کا یہ فرمانا کہ حتی اذا بلغوا النکاح ” یہانتک کہ وہ یتیم نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ،،اتنا ھی معلوم تھا جتنا قربانی کے لئے منی اور کعبہ معلوم تھے،، اگر ان میں کوئی شک نہیں تھا تو نکاح کی عمر میں بھی کوئی شک نہیں تھا ! پھر نکاح کی عمر آخری حد ھے ! یتیموں کے عقل و فراست اور رشد و ھدایت کا امتحان اور ٹیسٹ اس سے پہلے لیتے رھنا ھے ،،جب ان میں عقل و فراست اور معاملہ فہمی معلوم ھو جائے تو ان کا مال اسی وقت ان میں بانٹ دینا چاھئے ،، مگر نکاح کی عمر تک پہنچ کر تو ھر حال میں ان کو سونپ دینا چاھئے ! پہلے اس آیت کا انگریزی ترجمہ پڑھ لیجئے تا کہ بات مزید واضح ھو جائے پھر بقیہ نکات کی طرف چلیں گے ! Make Trail of Orphans until they reach the Age of marriage, If then you find sound judgement in them,release their property to them,( al,nisaa-6 ) translation of Abdulla Yousaf, اس آیت کے تحت حاشیہ نمبر 512 میں وہ لکھتے ھیں ! the age of marriage is the age when they reach their majority, سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے میں کچھ یوں ھے ! and go Observing and Testing The Orphans until they reach the marriageable age , then if you Perceive That They have become capble,, اسی آیت کی تشریح میں حاشیہ نمبر 4 میں وہ لکھتے ھیں ! That is ” when they approaching puberty,keep an eye on them to assess their mental development in Order to see how Far they are becoming responsible and capable of managing and looking After their own affairs, اس انگریزی ترجمے اور پھر تشریح کو آپ پڑھیں گے تو آپ کو نکاح کی عمر اور عقلی بلوغت کی شرائط صاف صاف نظر آئیں گی اور ان سارے سوالوں کا جواب صرف اس ایک آیت کے ترجمے پر غور کرنے سے ھی مل جاتا ھے ! پھر اللہ پاک نے وراثت اور نکاح کی عمر کو اس طرح جوڑا ھے کہ اللہ پاک کی حکمت پر دل عش عش کر اٹھتا ھے ! وراثت ذمہ داریوں کا سلسلہ ھے،، اھم فیصلے لینے کا معاملہ ھے،، یہ ایک مردے کی اتاری ھوئی قمیص سے شروع ھوتا ھے اور لاکھوں کروڑوں کی جائداد تک جاتا ھے،،کون کس طرف والی دکانیں لے گا،، کون کسی حصے کو لے کر باقی سے دستبردار ھو گا،، یہ سب فیصلے عقل و شعور کے طالب ھیں،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ھے کہ علم الفرائض یعنی وراثت کا علم دین کے علوم کے تین حصے ھیں ! ( میرا تخصص وراثت ھی ھے ) باقی سارے علوم چوتھا حصہ ھیں ،، اسی طرح نکاح کا معاملہ بھی کئ زندگیوں اور نسلوں کا معاملہ ھے یہاں نہایت سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے فیصلے لینے ھوتے ھیں ! ایک چھ سالہ لڑکی اپنے باپ کی اتاری گئ قمیص کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی جب تک کہ وہ نکاح کی عمر کو نہ پہنچ جائے تو اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی کا فیصلہ کیسے کر سکتی ھے ؟ وراثت کے تین فرض ھیں یا تین شرطیں ھیں ! 1- وجود الکل،، سارے وارث موجود ھوں یعنی زندہ ھوں ! 2- بلوغ الکل ،، سارے وارث بالغ ھوں ،،ایک کے نابالغ ھونے کی صورت میں بھی وراثت کی تقسیم رک جائے گی ! 3- رضا الکل- کسی بھی تقسیم میں سب کی رضا شامل ھو، ایک بھی راضی نہ ھوا تو تقسیم رک جائے گی ! مردے کی جو قمیص یا بنیان اتاری جاتی ھے وہ بھی جس کو دینی ھے، چاھے امام صاحب کو صدقہ کی جائے یا مسجد کے پانی بھرنے والے کو ،،یہ سب کی رضا سے ھو گا ! اگر بچی اپنے والد کی قمیص نشانی کے طور پر لینا چاھتی ھے تو اسے صدقہ نہیں کیا جا سکتا ! یاد رکھئے کہ یتامی صرف لڑکے نہیں لڑکیاں بھی یتیم ھیں اور ان کا بھی ٹیسٹ اور امتحان لیا جاتا رھے گا جب تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں،، جیسا کہ قرآن کا حکم ھے،، اب کیا کوئی چھ سال کی بچی جائداد کی وارث بن سکتی ھے ؟ اگر نکاح چھ سال کی عمر میں ھو گیا ھے تو پھر طے ھو گیا کہ جائداد کی تقسیم کی عمر چھ سال ھے ؟ میں نے پانچ سال ایک لڑکی کی وراثت کا کیس گجرات کچہری میں لڑا ھے،، ایک پلاٹ لیا گیا تھا روات پولیس ھاؤسنگ اسکیم میں 90 ھزار کا ،، لڑکی کا والد فوت ھو گیا تھا،، پلاٹ نام لگوانے کے لئے لڑکی کا consent درکار تھا،،جج صاحب مان نہیں رھے تھے،، بچی کی شادی 13 سال کی عمر میں کر دی گئ اس کے دو بچے ھو گئے ،، 2 بچے بھی ثبوت کے طور پر ساتھ لے کر عدالت میں پیش کر دی کہ جج صاحب یقین کر لو ” کُڑی ” بالغ ھو گئ ھے،مگر جج صاحب نے 16 سال پورے کر کے ڈگری دی ، اس دوران وہ پلاٹ 10 لاکھ کا ھو چکا تھا،، جو کہ منت ترلا کر کے 5 لاکھ ادا کر کے نام لگوایا گیا ! جن لوگوں نے بھی قرآن کے اس واضح حکم کو گڈ مڈ کیا اور خود بھی مخمصے میں پڑے اور پوری امت کو بھی مخمصے میں ڈال رکھا ھے ،، انہوں نے صرف ایک حدیث کی بنیاد پر قرآن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ھے ! اور طے نہیں کر پا رھے کہ نکاح کی کم سے کم عمر کیا ھے ! ان کے نزدیک اس حدیث کی بنیاد سے ثابت ھوتا ھے کہ قرآن کے اس حکم کی سب سے پہلی اور آخری خلاف ورزی ( معاذاللہ ) اللہ کے رسول ﷺ نے ھی کی ھے ،، اس کے بعد پوری 1434 سالہ اسلامی تاریخ میں کوئی اور مائی کا لعل یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا ! نہ خود عمل کرتے ھیں اور نہ اس کو قرآن پر پیش کر کے رد کرتے ھیں،، یہ ان کے گلے کا چھچھوندر بن کر رہ گئ ھے ،، حدیث قرآن کو ماننے نہیں دیتی اور ضمیر اس حدیث پر عمل نہیں کرنے دیتا ! اب ولی کے کندھے پر بندوق رکھی گئ کہ جناب ولی تو بالغ ھوتا ھے لہذا وہ اپنی بیٹی کا نکاح جب چاھے کر سکتا ھے !( جیسا کہ ابوبکر صدیقؓ نے اپنی بیٹی کا چھ سال کی عمر میں کر دیا ، یہ عرب کی تاریخ میں پہلا اور آخری ولی تھا جس نے یہ کام کیا ،، آج تین تین من کی چلتی پھرتی لاشیں جن کی ڈگریوں کے لئے بینر چھوٹے پڑ جاتے ھیں ،،پتہ نہیں کیوں ایسے فیصلے نہیں کرتے اپنی بیٹیوں کے بارے میں ؟؟) خیر یہاں بھی ان کو چین نہیں آیا کیونکہ یہاں دوسری حدیث یہ کہہ رھی ھے کہ ایک لڑکی نے نبی کریمﷺ سے آکر شکایت کی کہ میرے والد نے میری مرضی کے خلاف میرا نکاح اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ کر دیا ھے،،جس پر آپ نے اس کے والد کو بلا کر تحقیق کی اور پوچھا کہ تم نے بیٹی سے پوچھے بغیر اس کا نکاح کر دیا ھے ؟ اس نے کہا کہ بیٹی سے پوچھنے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟ میں اس کا باپ ھوں ! آپ ﷺ نے رخِ انور لڑکی کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ اگر تجھے قبول ھے تو یہ نکاح ھے اور اگر قبول نہیں ھے تو اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ھے ! حضور ﷺ نے فرمایا ” کنواری سے اذن لیا جائے گا اور بیوہ یا مطلقہ اپنے آپ کی خود مالک ھے ” پوچھا گیا اللہ کے رسولﷺ کنواری تو شرماتی ھے ،، فرمایا اس کی خاموشی اس کا اذن ھے ! جب ثابت ھو گیا کہ اب لڑکی سے پوچھے بغیر چارہ کوئی نہیں ،، اور پوچھنا بھی اس وقت ھے جب بچی زندگی کا فیصلہ کرنے کا شعور پا چکی ھو تو اب اک نیا ضابطہ بنایا گیا جس میں لڑکی کو خواہ مخواہ افراتفری میں ڈالنے کی کوشش کی گئ کہ ” لڑکی نے اگر مکرنا ھے تو حیض آنے کے بعد اگلی نماز کے وقت تک مکر سکتی ھے ،، اس کے بعد اس کے مکرنے کی کوئی حیثیت نہیں ھو گی ،، دوسرے صاحب نے مہربانی فرما کر حیض کے بعد پانچ نمازوں کا وقت دیا کہ ان کے اندر اندر مکر لے اگر مکرنا ھے ! مسئلہ یہ ھے کہ انسانیت کے خیر خواھو ! یہ حق آپ کو کس نے دیا ھے کہ آپ لڑکی کو ٹائم فریم دو کہ وہ زندگی بھر اور آنے والی نسلوں کا فیصلہ گھنٹے دو گھنٹے میں کر لے ؟ کیا قرآن میں کوئی ایسا حکم آیا ھے ؟ یا اللہ کے رسولﷺ نے کوئی ایسا حکم دیا ھے ؟ صرف اللہ کے رسول ﷺ سے دلیل نہیں مانگی جائے گی ،،باقی سب سے دلیل مانگی جائے گی چاھے وہ عمر ابن الخطاب ھی کیوں نہ ھوں جن سے بر سرِ منبر دلیل طلب کی گئ ! جب اللہ کے رسول ﷺ کی عدالت میں لڑکی نکاح کا شکوہ کرنے آئی تھی تو کیا ،اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے پوچھا تھا کہ تمہیں حیض آیا ھے یا نہیں اور آیا ھے تو کتنی نمازیں گزری ھیں ؟ پھر جب فیصلہ اس بچی نے ھی کرنا ھے تو ولی کیوں تتے توے پر کھڑا ھے؟ ،اسے جوان ھو لینے دے باپ بیٹی مشورے سے فیصلہ کر لیں گے ! اس کے لئے پھر ایک دلیل بیع و شراء سے لائی گئ! سودا کرنے والے مجلس برخواست ھونے تک مکر سکتے ھیں،جب مجلس برخواست ھو گئ تو پھر مکرنے کا اختیار ختم ھو جاتا ھے،، یوں نکاح کو خرید و فروخت پر قیاس کر کے لڑکی کے لئے ٹائم فریم طے کیا گیا ! کسی کے نزدیک چونکہ اذان کے بعد مجلس برخواست ھو جاتی ھے تو نماز سے نماز تک کا وقت مجلس کا ٹائم سمجھ کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر لڑکی کو دے دیا گیا کہ ھمارے نماز پڑھ کر آنے سے پہلے پہلے مکر لو ،، ھم آ گئے تو تیری مہار دوسرے کے ھاتھ میں پکڑا دیں گے ! ھوئے مر کے ھم جو رسوا ! ھـوئے کیــوں نہ غــرقِ دریا ! نہ کــــوئی جــــــنازہ اٹھتا ! نہ کہــــــــیں مــــــزار ھوتا ! اس کو کہتے ھیں دین کی مردانہ توجہیہ یا Interpretation