نازیہ کا باپ ایک کامیاب وکیل تھا ،، ایل ایل بی کے ساتھ اس نے اسلامیات میں ماسٹر بھی کیا تھا اور عملی
زندگی میں بھی ایک نیک اور اچھا انسان سمجھا جاتا تھا ، محلے کی مسجد میں امام صاحب جب بھی چھٹی پہ جاتے تو امامت اور خطابت کی ذمہ داریاں نازیہ کے والد ھی ادا کرتے تھے ،، نازیہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ،نہایت نیک فطرت اور باحیا بچی تھی تربیت بھی اچھی تھی وہ ابھی میٹرک میں تھی کہ والد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ھو گئے ،، ان کی شہادت پہ سارے بڑے بڑے مذھبی علماء ،،،وکلاء تنظیموں اور مذھبی پارٹیوں کے سربراھان نے تعزیتی بیانات دیئے اور پھر بس ،،، کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس گھرانے کا گزارہ کیسے چلتا ھے !! زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چل رھی تھی ، نازیہ بی اے میں تھی اور روزانہ ویگن سے ھی یونیورسٹی جاتی تھی ،،
ایک دن ھڑتال کی کال تھی ، والدہ نازیہ کو روک رھی تھی کہ وہ یونیورسٹی نہ جائے اس کا دل ھول رھا تھا کہ وہ سارا دن اس ٹینشن میں کیسے گزارے گی ؟ مگر نازیہ کا اصرار تھا کہ آج بہت اھم پیریڈ ھے اور اسے ھر حال جانا ھے ،، ایسے میں شومئ قسمت کہ نازیہ کی امی کو نازیہ کے پھوپھی زاد ذوھیب کا خیال آ گیا ، ذوھیب کا آفس بھی یونیورسٹی کی طرف تھا ،، تعلقات میں سرد مہری کے باوجود اس نے ذوھیب کی ماں سے کہا کہ وہ ذوھیب سے کہے کہ جاتے ھوئے نازیہ کو لے جائے اور واپسی پہ ڈراپ کر دے ،، اگرچہ نازیہ نے ماں کو منع کیا کہ وہ ان لوگوں کا احسان نہ لے مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ھے ،، ذوھیب نے نازیہ کو گھر سے اٹھایا اور پھر اسے اپنے آفس ھی لے گیا کہ کچھ پیپر وھاں سے لینے ھیں پھر لے کر چلتے ھیں ،،مگر ذوھیب اس دن پھوپھی زاد نہیں ایک شیطان کا روپ دھار چکا تھا ،،،،،،،،،،،،،،، لٹی پٹی نازیہ کو گھر کے پاس ڈراپ کر کے وہ بھاگ نکلا ،،، نازیہ جونہی گھر میں داخل ھوئی ماں کو دیکھتے ھی اس پر ھیسٹیریا کا شدید دورہ پڑا ،، وہ اپنی ماں کے بال کھینچ رھی تھی تو کبھی اپنا سر دیوار سے ٹکرا رھی تھی پھر وہ غشی میں چلی گئ ،، نازیہ کی ماں نے نند کے گھر فون کیا کہ کیا ذوھیب واپس آیا ھے ،اس نے جواب دیا کہ اس کا آفس تو شام 5 بجے بند ھوتا ھے ،، نازیہ کی ماں نے پڑوس سے ایک نرس کو بلایا جو آغا خان اسپتال میں سروس کرتی تھی ، اس نے نازیہ کا معائینہ کیا ، اور جتن کے ساتھ اسے ھوش میں لائی ، ساری صورتحال علم میں آنے کے بعد نازیہ کی ماں خود بھی ڈیپریشن کا شکار ھو گئ ،، نند کو فون کیا تو اس نے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیا ،میرا بیٹا تو ایسا ھو ھی نہیں سکتا ،،ھم نے اسے حلال کا لقمہ کھلایا ھے ،تم لوگ رشتہ دینے کے لئے ھمیں بلیک میل کرنا چاھتے ھو وغیرہ وغیرہ !!
اس دن کے بعد نازیہ نے یونیورسٹی کا منہ تک نہ دیکھا اور گھر کی ھو کر رہ گئ ،،
دو ماہ کے بعد نازیہ میں زندگی کے آثار واضح ھو چکے تھے ، گویا یہ ایک اور قیامت تھی کہ جس سے ماں بیٹی کو دوبارہ گزرنا تھا ،، یا تو بچے کا ابارشن کرا دیا جائے یا پھر جھٹ سے نازیہ کی شادی کر کے اسے کسی کے سر منڈھ دیا جائے ،، اسی پہ رات دن ڈسکشن چلتی ،، آخر نازیہ کی والدہ نے اپنی بہن سے رابطہ کیا اور اس کو صورتحال بتائے بغیر اس سے نازیہ کے رشتے کی بات کی ،، نازیہ کا خالہ زاد ثاقب صدیقی نہایت شریف دیندار اور کامیاب بزنس مین تھا ، اگرچہ والد اس کے بھی فوت ھو چکے تھے اور وہ بھی اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا !
شادی طے ھو گئ ، ڈولی کیا اٹھی جنازہ تھا جو روتے دھوتے اٹھایا گیا اور ایک غیر یقینی مستقبل کے حوالے کر دیا گیا ،، رخصتی کے وقت تو ھر دلہن روتی ھے مگر سسرال جا کر بھی جو دھاڑیں نازیہ نے ماریں وہ عرش ھلا دینے والی تھیں،،ان میں کسی کے لئے بدعائیں تو کسی سے التجائیں تھیں ،، پہلے ھی دن نازیہ کی نظر جب ثاقب پہ پڑی تو اس نے طے کر لیا کہ وہ اس شریف انسان کو دھوکہ نہیں دے گی ، وہ کسی اور کے جرم کی سزا کسی معصوم کو دینے سے ڈرتی تھی ،، قتل کے مقابلے میں وہ دھوکہ دینا ایک چھوٹا گناہ سمجھتی تھی مگر جس کو دھوکہ دینا تھا وہ جب سامنے آیا تو اسے دھوکہ دینا اسے قتل سے بھی بڑا گناہ لگا ،، اس نے رو رو کر ساری داستان ثاقب کو سنا دی اور اپنی قسمت کا فیصلہ اس پہ چھوڑ دیا ،، ثاقب یہ سب کچھ سن کر ھکا بکا رہ گیا ،، اس دنیا میں ایسا بھی ھوتا ھے ! یہ تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،، وہ خاموشی کے ساتھ عجلہ عروسی سے باھر نکل آیا !! نازیہ کی امی بھی بہن کے پاس ھی ٹھہر گئ تھی ، رات بھر دونوں بہنیں آپس میں دکھ سکھ بانٹتی رھیں مگر نازیہ کی امی نے اپنی بہن کو معاملے کی کوئی خبر نہ لگنے دی ، ساری رات اس کا دھیان اور اس کے کان اوپر کی منزل کی طرف لگے رھے ،، اسے ھول اٹھ رھے تھے ،وہ دل میں اللہ سے دعا کرتی رھی کہ وہ اس کا پردہ رکھ لے – ثاقب نے ساری رات ڈرائنگ روم میں چکر کاٹتے گزار دی ،، بات اگر صرف ریپ کی ھوتی تو وہ نازیہ کو اپنا لیتا ، اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ھوئی ھے ،مگر بچہ ؟ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن گیا تھا ،،کیا میں کسی کے بچے کو اپنا نام اور خاندان دونگا ، یہ شرعاً کیسا ھو گا یہ تو علماء سے پتہ چلے گا مگر میں اس زھر کو پل پل گھونٹ گھونٹ کیسے پیوں گا ،،صبح ثاقب کی امی عجلہ عروسی کی طرف رواں دواں تھی کہ پیچھے سے ڈرائنگ روم کے دروازے سے ثاقب نے آواز دی ” امی !! ماں نے پلٹ کر دیکھا تو بیٹے کی سوجی ھوئی سرخ آنکھیں اور دھکتا چہرہ ھی سب کچھ کہہ رھا تھا !
امی آپ نے میرے ساتھ یہ کیا کر دیا ھے ؟ وہ سسک پڑا ،،
کیا ھوا بیٹا ؟ ماں نے اسے گلے لگاتے ھوئے کہا ،پہلے دن کھٹ بٹ ھو ھی جاتی ھے ،بچی مانوس نہیں ھے ،،،،،، ، بس بس امی پلیز بس کر دیں ،،
ایسا نہیں ھے ، امی جان ،،،،،،،،،،، نازیہ ذوھیب کے بچے کی ماں بننے والی ھے ،، ثاقب نے گویا گولہ فائر کر دیا ،، اس کی ماں کو ایک دفعہ چکر آگئے ، دھوکہ اور بہن کے ساتھ ؟ یہ میری نمازی تہجدگزار بہن کا تحفہ ھے ،،، وہ بڑبڑا رھی تھی ،، پھر وہ ثاقب کو انتظار کا کہہ کر نیچے اپنی بڑی بہن کے پاس چلی گئ ! جونہی وہ واپس کمرے میں داخل ھوئی آگے بہن تیار کھڑی تھی اس نے اوپر کی کھسر پھسر کو سن لیا تھا ،، ثاقب کی امی نے ابھی بات شروع کی تھی کہ بہن نے دوپٹہ اتار کر اپنی چھوٹی بہن کے قدموں میں ڈال دیا ،، میں ، میرا مرحوم شوھر اور میری بیٹی ھم سب بدنام ھو جائیں گے ! ھماری عزت آپ کے ھاتھ میں ھے ،،آپ بچے کی پیدائش کے بعد بے شک میری بیٹی کو طلاق دے دیجئے گا اور نئی شادی کر لیجئے گا ، ھم بچے کو پال لیں گے ،،مگر بس ایک نام کا سوال ھے تا کہ بچہ معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے ! ثاقب کی ماں کو چپ لگ گئ ،یہ بڑی بہن تھی جس نے اسے ماں کا پیار دیا تھا ،اور اس نے اسے ماں ھی کی جگہ سمجھا تھا آج وہ سر ننگا کیئے اس کے سامنے کھڑی تھی ،، وہ بہن جو اس کا سر دھوتی ،جؤئیں نکالتی تھی ، اسے سختی کے ساتھ سر ڈھانپنے کو کہا کرتی تھی آج تقدیر نے اسی بہن کو سر ننگا کر کے اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا ،، اس نے دوپٹہ اٹھا کر بہن کے سر پہ رکھا اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگ گئ !
اوپر جا کر اس نے ثاقب کے سامنے یہی تجویز رکھی کہ وہ فی الحال صبر کر لے اور بچے کی پیدائش کے بعد نازیہ کو فارغ کر دے ،، یوں پورے خاندان کا پردہ رہ جائے گا ! مگر ثاقب آج پہلی بار ماں کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا ،، ایسا کسی صورت نہیں ھو سکتا میں ایک حرام کے بچے کو اپنا نام ھر گز نہیں دے سکتا – وہ غصے سے پلٹا ،،میں اس کو ابھی فارغ کر کے ماں کے ساتھ بھیجتا ھوں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، مگر ثاقب کی امی نے اس کا رستہ روک لیا ،، اور کچھ کہے بغیر اپنا دوپٹہ اتار کر بیٹے کے قدموں پر ڈال دیا ،، لگتا تھا وہ دوپٹہ نہیں سانپ تھا ،، ثاقب تڑپ کر پیچھے ھٹا اور ماں کے دوپٹے کو اٹھا کر ماں کے سر پر رکھا ،،ماں کا سر چوما اور گھر سے باھر نکل گیا !!
ثاقب صدیقی گھر سے نکل کر ساتھ کی مسجد میں چلا گیا ، اس نے اشراق پڑھی اور دعا کے لئے ھاتھ اٹھا دیئے مگر کیا مانگے اسے کچھ سمجھ نہیں لگ رھی تھی ،، ھاتھ مہندی سے رنگے تھے مگر وہ رنگ اسے اب ارمانوں کا خون لگتا تھا ،، وہ سسکتا رھا ،، مگر کچھ بھی نہ مانگ سکا ،، صرف ھاتھوں کا کشکول پھیلا کر رہ گیا ،، اسے سسکتا دیکھ کر امام مسجد صاحب بچوں کو قرآن پڑھتا چھوڑ کر اس کے پاس چلے آئے ،، کیا ھوا بیٹا ؟ کل کے دولہے کو سسکتے دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئے تھے ،، وہ اسے اٹھا کر حجرے میں لائے ،، حجرے میں ثاقب نے ان سے ساری بات کھول کر بیان کر دی ،،،،، امام صاحب گہری سوچ میں ڈوب گئے ، دیکھ بیٹا اللہ پاک جب کسی کا امتحان لیتا ھے تو اس آدمی کی استطاعت دیکھ کر لیتا ھے ،، اللہ نے تجھے بہت بڑے کام کے لئے چنا ھے اور میرا ایمان کہتا ھے کہ اس کا انعام بھی بہت ھی بڑا ھو گا،، نبی کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ بچہ اس کا ھے جس کے بستر پر پیدا ھوا ھے اور زانی کے لئے پتھر ھیں ،، یہ شرعاً تیرا بچہ ھو گا ،بیٹی ھو یا بیٹا ، اس کو نام تیرا ھی ملے گا ،، جو اللہ جانتا ھے وہ تم نہیں جانتے شاید اللہ نے اس بچے میں ھی تیری خیر رکھی ھے ، دیکھ وہ بچی مظلوم ھے اور تم بھی مظلوم ھو اور وہ بچہ معصوم ھے اور اللہ تم لوگوں کے ساتھ ھے ،، امام صاحب اسے کافی دیر سمجھاتے رھے ، وہ واپس گھر کی طرف چلا تو اس کا دل کافی ھلکا ھو چکا تھا ،
سات ماہ لوگوں کے لئے تو پل جھپکتے گزرے ھونگے مگر نازیہ ، ثاقب اور گھر والوں کے لئے وہ سات سال کے برابر تھے ،، نازیہ نے اپنا آپ بھلا دیا تھا وہ مٹی کے ساتھ ھو کر رہ گئ تھی ،گھر والوں کی تو جو خدمت اس نے کی وہ ایک الگ کہانی ھے ، اس نے اس گھر کو بھی شیشہ بنا کر رکھ دیا ،، رات کو اپنی خالہ کے قدم دباتے دباتے وہ وھیں ان کے پاس سو جاتی ،کبھی کبھار گزرتے ثاقب کو کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو پوچھ لیتا ، ورنہ میاں بیوی کا آپس میں کوئی خاص انٹر ایکشن نہیں تھا ! سات ماہ بعد اللہ پاک نے نازیہ کو بچے سے نوازا اور یہاں بھی نازیہ کا پردہ رہ گیا ،بچہ نازیہ کی کلرڈ کاپی تھا ، باپ کی کوئی جھلک اس میں نہیں پائی جاتی تھی ، نازیہ نے سکھ کا سانس لیا ، وہ یہی سوچ سوچ کر پاگل ھوئی جا رھی تھی کہ اگر بچی بچہ ذوھیب پہ چلا گیا تو کیا ھو گا !
بچے کی پیدائش کے دو چار ماہ بعد دونوں میاں بیوی کی ھیلو ھیلو شروع ھو گئ تھی جو آئستہ آئستہ قربت میں تبدیل ھوتی چلی گئ ،، ادھر بچہ سال کا ھو گیا تھا ،،وہ جب ثاقب کی گود میں آ کر بیٹھتا تو ثاقب کے چہرے پہ ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا ،، نازیہ جھٹ سے بچہ اس کی گود سے اٹھا لیتی مگر وہ روتا اور لپکتا تھا ثاقب کی طرف،، کھڑی ماں کے ھاتھوں سے وہ ثاقب کی طرف لٹکتا اور اس کی طرف فریادی نظروں سے دیکھتا کہ وہ اسے ماں سے لے لے ،، پھر اس نے اسے پاپا پاپا کہنا شروع کیا تو ثاقب کی اذیت مین مزید اضافہ ھو گیا ، بچہ جس کا نام احسان اللہ رکھا گیا تھا ،، رات کو ضد کرتا کہ وہ پاپا کے پاس سوئے گا ،،مگر ماں اس روتے دھوتے کو اٹھا کر اپنے پاس سلا لیتی ، بعض دفعہ بچے کی آنکھ کھلتی تو وہ ماں کے پاس سے اتر کر ثاقب کے بیڈ پہ چلا جاتا اور اس کے سینے پہ ھاتھ رکھ کر سو جاتا ،، ایک دن ثاقب پھر امام صاحب کے پاس چلا گیا اور ان سے اپنی اس اذیت کا ذکر کیا کہ بچہ جب مجھے پاپا کہتا ھے تو میرے سینے پہ چھری چل جاتی ھے ،، اس پہ امام صاحب نے اسے سمجھایا کہ شریعت جب اسے اس کا پاپا تسلیم کرتی ھے تو اسے اتنی زیادہ ٹینشن نہیں لینی چاھئے ،،
دو سال گزر گئے تھے مگر ثاقب کے گھر کوئی نئ امید نہیں لگی تھی ،، آخر اس نے ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا ،جس نے اسے بتایا کہ نازیہ کے ٹیسٹ کی تو فی الحال ضرورت نہیں البتہ وہ اپنا ٹیسٹ کرا لے ،،، ٹیسٹ کے لئے سمپل دے کر ثاقب گھر آ گیا ،،تیسرے دن وہ فالو اپ کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر کے چہرے کی پر ضرورت سے زیادہ سنجیدگی دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ! صدیقی صاحب آپ نے اس سے قبل کبھی یہ ٹیسٹ کرایا تھا ؟ جی نہیں ثاقب نے روانی میں جواب دیا ،، ویسے انسان کو شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ ضرور کر لینا چاھئے تا کہ کسی کی بچی برباد نہ ھو ،، صدیقی صاحب ابھی کبھی بھی باپ بننے کے قابل نہیں ھیں ،، ڈاکٹر صاحب بول رھے تھے اور ثاقب کا سر گھوم رھا تھا ،، بیٹا مستقبل کو اللہ جانتا ھے ھم نہیں جانتے ، اس کی تقدیر کے پیچھے اس کی بڑی حکمتیں چھپی ھوتی ھیں ، اس کے کانوں میں مولوی صاحب کے الفاظ گونج رھے تھے !
وہ ایک ھارے ھوئے جواری کی طرح واپس لوٹا تھا ،، اور پھر اس نے تقدیر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ، اس نے احسان اللہ کو اللہ کا احسان سمجھ کر قبول کر لیا اور ٹوٹ کر اسے پیار کرنے لگا ،، نازیہ بڑی حیرت کے ساتھ اس تبدیلی کو دیکھ رھی تھی مگر اس نے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ھی ثاقب نے اسے وجہ بتانے کی زحمت کی ! احسان اللہ کو مسجد میں مولوی صاحب کے پاس حفظ مین بٹھا دیا گیا ،بچہ بہت ذھین تھا ،، گھر والدہ اس کو اسکول کی تیاری بھی کراتی تھی ،حفظ مکمل کر کے احسان اللہ کو براہ راست پانچویں کلاس میں ڈال دیا گیا تھا !!
دوسری جانب ذوھیب کی شادی بھی نازیہ کی شادی کے پندرہ دن بعد کر دی گئ تھی ، اور اللہ نے اسے بھی بیٹے سے نوازا تھا ، بیتا ذھین تو تھا مگر لاڈ پیار نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا تھا ،، وہ بچپن سے ھی ضدی تھا جوں جوں بڑا ھو رھا تھا اس کی ضد اور ھٹ دھرمی میں اضافہ ھو رھا تھا ،، احسان اللہ نے جس دن ایم بی بی ایس مکمل کیا تھا ،، نازیہ اور ثاقب کے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے ،، اللہ پاک نے آج ان کے صبر کا پھل دے دیا تھا ؛؛ اگلے دن پتہ چلا کہ ذوھیب نے بیٹے کو رات نشے میں لیٹ نائٹ واپس آنے پر ڈانٹا جس پر بیٹے نے اینٹ باپ کے سر میں مار کر اس کا سر کھول دیا ،، بیہوشی کی حالت میں ذوھیب کو اسپتال داخل کر دیا گیا ،مگر بقول ڈاکٹر ذوھیب کی یاد داشت اور نظر دونوں کو خطرہ تھا ،، ایک دو آپریشز کے بعد نظر کا مسئلہ تو تقریباً حل ھو گیا ۔۔،مگر ذوھیب کی یاد داشت جواب دے گئ تھی اور اب وہ ایک خالی الذھن پاگل تھا ! وہ گھر سے باھر نکل جاتا ،کاروبار تباہ ھو گیا ،ذوھیب کو کبھی کسی درگاہ سے واپس لایا جاتا تو کبھی کسی نشہ خانے سے ، وہ چرس اور ھیروئین کے نشے کی لت میں مبتلا ھو گیا تھا ،، ایک دن ثاقب ،نازیہ اور احسان اللہ شاپنگ کر کے گاڑی میں واپس آ رھے تھے کہ ایک جگہ ان کی گاڑی رش میں پھنس گئ ، اچانک ایک فقیر نے گاڑی کی ڈرائیور والی کھڑکی پر آ کر شیشہ بجایا ،، احسان اللہ نے جو کہ گاڑی چلا رھا تھا جونہی گا ڑی کا شیشہ بھیک دینے کے لئے کھولا ،،کسی بچے نے اچانک اس فقیر کو دور سے پتھر دے مارا ،، فقیر کے سر سے بھل بھل خون بہنے لگا جو سیدھا احسان اللہ کے ھاتھ پہ گرا ،، اس نے جھٹ سے گھبرا کر شیشہ بند کر دیا ،، گاڑی آگے چلی تو نازیہ نےآئستہ سے ثاقب سے پوچھا ” آپ نے فقیر کو پہچانا ؟ نہیں ثاقب نے جواب دیا ،، یہ ذوھیب تھا ،نازیہ نے جھرجھری لے کر کہا ! ثاقب نے چونک کر نازیہ کی طرف دیکھا اور اس کے کانوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول گونجا جو اس کو امام صاحب نے بتایا تھا ،بچہ اس کا ھے جس کے بستر پر پیدا ھو اور زانی کے لئے پتھر ھیں "
احسان اللہ نے پریکٹس کرنے کی بجائے سی ایس پی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ڈائریکٹ اے ایس پی بھرتی ھو گیا، ابھی ٹریننگ مکمل کی تھی کہ بوسنیا کی جنگ میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کو تحقیقات کے لئے پاکستان سے 25 پولیس افسروں کی ضرورت پڑی سب سے پہلے احسان اللہ کا انتخاب ھوا ،، 6 فٹ دو انچ کا احسان اللہ اپنے گورے رنگ اور انگلش کی وجہ سے انگریز ھی لگتا تھا ،، سارے افسر ڈیپوٹیشن سے واپس آ گئے مگر احسان اللہ کو اقوام متحدہ نے ریلیز کرنے سے انکار کر دیا ،، بوسنیا کے بعد روانڈا کے جنگی جرائم کی تحقیق بھی احسان اللہ کے ذمے تھی ،، نازیہ اور ثاقب بھی نیویارک میں اپنی بہو کے پاس ھیں ، اس دوران ذوھیب کو مردہ حالت میں کہیں سے اٹھا کر ایدھی والوں نے دفنا دیا تھا ،گھر والوں کو بعد میں خبر ملی تھی وہ ایدھی سنٹر گئے تو انہیں ذوھیب کے خون آلود کپڑے ،، سگریٹ ،ماچس اور 50 روپے پکڑا دیئے گئے