حصہ اول
ھر مذھب میں خدا ، جنت ، جہنم اور شیطان کے بارے میں تصور موجود ھے ،الفاظ کے اشتراک سے یہ لازم نہیں کہ جو اسلام کا خدا ” اللہ ” ھے وھی اور ویسا ھی خدا ھر مذھب کا ھے اور جیسی جنت ، جہنم اسلام بیان کرتا ھے ویسی ھی جنت جہنم کا ذکر دوسرا مذھب بھی کر رھا ھے ، قرآن کے شیطان اور دیگر مذاھب کے شیطان میں بھی زمین آسمان کا فرق ھے ،، لفظوں یا ناموں کا اشتراک صحرائے گوبی سے بھی بڑا سراب ھے ،، اسی لئے ایمان کی صفت مفصل میں تفصیل سے اسلامی خدا کو دوسرے مذھب کے تصورِ خدا سے جدا کیا گیا ھے ، آمنت باللہ کما ھو بأسمائہ و صفاتہ ،، ھم اللہ کو اس کی کنہہ سے نہیں بلکہ اسماء اور صفات سے جانتے اور مانتے ھیں ،، ھم اسے الحی یعنی زندہ مانتے ھیں یہ اس کا صفاتی نام ھے ،مگر زندہ کیسے ھے ، اس کی حقیقت سے ھم آگاہ نہیں ھیں ،، وہ موجود ھے مگر بغیر موجود کے کیسے موجود ھے اس کی تفصیل نہیں جانتے ،،
جنت کو ھندو سورگ کے نام سے جانتے ھیں مگر ھندو ازم کا "سورگئے ” یعنی جنت باشی پھر جنم لے سکتا ھے ،، وھاں سے نکالا جا سکتا ھے جبکہ اسلام کا جنتی وھاں دائمی رھے گا اور یہی اصل اور حقیقی زندگی ھے ،جس کے لئے یہ فانی زندگی ایک Sample کے طور پر مفت فراھم کی گئ ھے ، کہ اس سے وہ آخرت والی دائمی زندگی کماؤ، زندگی کا یہ دنیاوی فیز ٹرائلز کا مرحلہ ھے جس میں اس حقیقی زندگی کے حقداروں کا تعین کیا جا رھا ھے جو لوگ یہ چند روزہ زندگی امن و سکون اور پیار محبت سے نہیں گزار سکتے وہ بھلا کہاں اس قابل ھیں کہ انہیں ھمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے برابر میں بسا دیا جائے اور پھر جنگوں کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ وھاں بھی شروع ھو جائے !
قرآن حکیم میں بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ ھندو ازم کے تصورِ جنت کی نفی کی گئ ھے ، ” لا یمسھم فیھا نصب وما ھم منھا بمخرجین ،، نہ وہ وھاں بور ھونگے اور نہ ھی انہیں وھاں سے نکالا جائے گا ،، اسی طرح فرمایا گیا کہ ” یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح کیئے ان کا ٹھکانہ جنت الفردوس ھے وہ اس میں ھمیشہ رھیں گے ،وہ وھاں سے شفٹ ھونا پسند نہیں کریں گے ”
قرآن کی جنت اور جھنم کے بارے میں ھر آیت کسی نہ کسی دوسرے مذھب کے تصور کا بغیر ذکر کئے جواب ھے ،جو لوگ تقابلِ ادیان کے طالب علم ھیں وہ جب قرآن پڑھتے ھیں تو جو مزہ انہیں آتا ھے وہ کسی دوسرے کو آ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ فوراً سمجھ جاتے ھیں کہ یہ کس مذھب کے کس عقیدے کی تردید کی جا رھی ھے ، چاھے وہ آیت اللہ کی صفت بیان کر رھی ھو یا جنت ،جھنم یا شیطان کا تذکرہ ھو رھا ھو ،، ان کے قرآن کو سمجھنے اور عام انسان کے قرآن پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ھے ،،ھندو مذھب جنت سے بھی خوفزدہ ھے کیونکہ ان کے نزدیک ان کے دیوتا 19 ، 19 بار بھی جنت میں جا کر نکال باھر کئے گئے ھیں اور کسی نہ کسی نئے امتحان سے دوچار کیئے گئے ھیں لہذا ھندو مذھب جنت کا متلاشی نہیں بلکہ نروان کا متلاشی ھے ، ایسا خواب جو کہ دائمی ھو، ،، قرآنِ حکیم ایک ھی آیت میں عیسائیت کے تصورِ جنت کی نفی کرتا ھے تو ساتھ ھندو ازم کا قصہ بھی چکا دیتا ھے !
عیسائیوں میں جنت یا Paradise کا تصور موجود ھے مگر انتہائ ناقص تصور ھے ، عیسائیت کی جنت ایک حسین اور مسلسل خواب ھے ،جس میں وہ سب عیش ھو گا جو اس دنیا میں پایا جاتا ھے یا جس کی تمنا انسان کر سکتا ھے ،مگر وہ سوائے خواب کے کچھ بھی نہیں ھو گا، قرآنِ حکیم سب سے زیادہ اس تصور کی نفی کرتا ھے ، قرآن جب یہ بیان کرتا ھے کہ ” وہ تخت پر گھاؤ تکیئے لگائے بیٹھے ھونگے ” تو وہ یہ دلیل دے رھا ھوتا ھے کہ روح نہ تو ٹیک لگا سکتی ھے ، نہ فروٹ وغیرہ کھا سکتی ھے ،، یہ جسمانی جنت ھو گی جو بدن کے ساتھ ھو گی جو ٹیک لگائے بیٹھا ھو گا ، اسی طور جب جب جس جس نعمت کا ذکر کیا گیا ھے ، اس میں انسان کے بدن کو شامل کر کے دلیل کے طور پہ ذکر کیا گیا ھے نہ کہ لالچ کے طور پر ، قرآن جنت کی زندگی کو خواب نہیں بلکہ سب سے بڑی حقیقت اور حقیقی زندگی قرار دیتا ھے ” وَإِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ” آخرت کے گھر کا جینا ھی آخری جینا ھے ( نہ کوئی کوئی خواب ھے ،کیونکہ خواب کی زندگی چاھے وہ کتنا خوشگوار خواب ھی کیوں نہ ھو ، اسے زندگی کوئی نہیں کہتا ،،خواب ھی کہتا ھے !
جو لوگ ان آیات کو کہ جن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ھے اعتراض کے طور پہ پیش کرتے ھیں وہ اس حقیقت سے بے خبر ھیں کہ یہ ساری نعمتیں جسمانی وجود کے ساتھ ھی استعمال کی جا سکتی ھیں ،، اور ان آیات کو انسانی جسم کے ساتھ آخرت کی زندگی کی دلیل کے طور پہ ذکر کیا گیا ھے نہ کہ لالچ کے طور پہ ،، اخرت میں ھر وہ ضرورت موجود ھو گی جس کا تقاضہ یہ انسانی بدن اس دنیا میں کرتا ھے ،، سوائے اولاد کے جو اسے چھوٹے بچوں کی صورت میں فراھم کر دی جائے گی اور ان میں اولاد کی سی محبت ڈال دی جائے گی ،یہ کفار کے بچے ھونگے جو بچپن میں مر گئے ھونگے اور جن کے والدین خلود فی النار کے مستحق ھونگے ،،،
ھر مذھب میں خدا ، جنت ، جہنم اور شیطان کے بارے میں تصور موجود ھے ،الفاظ کے اشتراک سے یہ لازم نہیں کہ جو اسلام کا خدا ” اللہ ” ھے وھی اور ویسا ھی خدا ھر مذھب کا ھے اور جیسی جنت ، جہنم اسلام بیان کرتا ھے ویسی ھی جنت جہنم کا ذکر دوسرا مذھب بھی کر رھا ھے ، قرآن کے شیطان اور دیگر مذاھب کے شیطان میں بھی زمین آسمان کا فرق ھے ،، لفظوں یا ناموں کا اشتراک صحرائے گوبی سے بھی بڑا سراب ھے ،، اسی لئے ایمان کی صفت مفصل میں تفصیل سے اسلامی خدا کو دوسرے مذھب کے تصورِ خدا سے جدا کیا گیا ھے ، آمنت باللہ کما ھو بأسمائہ و صفاتہ ،، ھم اللہ کو اس کی کنہہ سے نہیں بلکہ اسماء اور صفات سے جانتے اور مانتے ھیں ،، ھم اسے الحی یعنی زندہ مانتے ھیں یہ اس کا صفاتی نام ھے ،مگر زندہ کیسے ھے ، اس کی حقیقت سے ھم آگاہ نہیں ھیں ،، وہ موجود ھے مگر بغیر موجود کے کیسے موجود ھے اس کی تفصیل نہیں جانتے ،،
جنت کو ھندو سورگ کے نام سے جانتے ھیں مگر ھندو ازم کا "سورگئے ” یعنی جنت باشی پھر جنم لے سکتا ھے ،، وھاں سے نکالا جا سکتا ھے جبکہ اسلام کا جنتی وھاں دائمی رھے گا اور یہی اصل اور حقیقی زندگی ھے ،جس کے لئے یہ فانی زندگی ایک Sample کے طور پر مفت فراھم کی گئ ھے ، کہ اس سے وہ آخرت والی دائمی زندگی کماؤ، زندگی کا یہ دنیاوی فیز ٹرائلز کا مرحلہ ھے جس میں اس حقیقی زندگی کے حقداروں کا تعین کیا جا رھا ھے جو لوگ یہ چند روزہ زندگی امن و سکون اور پیار محبت سے نہیں گزار سکتے وہ بھلا کہاں اس قابل ھیں کہ انہیں ھمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے برابر میں بسا دیا جائے اور پھر جنگوں کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ وھاں بھی شروع ھو جائے !
قرآن حکیم میں بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ ھندو ازم کے تصورِ جنت کی نفی کی گئ ھے ، ” لا یمسھم فیھا نصب وما ھم منھا بمخرجین ،، نہ وہ وھاں بور ھونگے اور نہ ھی انہیں وھاں سے نکالا جائے گا ،، اسی طرح فرمایا گیا کہ ” یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح کیئے ان کا ٹھکانہ جنت الفردوس ھے وہ اس میں ھمیشہ رھیں گے ،وہ وھاں سے شفٹ ھونا پسند نہیں کریں گے ”
قرآن کی جنت اور جھنم کے بارے میں ھر آیت کسی نہ کسی دوسرے مذھب کے تصور کا بغیر ذکر کئے جواب ھے ،جو لوگ تقابلِ ادیان کے طالب علم ھیں وہ جب قرآن پڑھتے ھیں تو جو مزہ انہیں آتا ھے وہ کسی دوسرے کو آ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ فوراً سمجھ جاتے ھیں کہ یہ کس مذھب کے کس عقیدے کی تردید کی جا رھی ھے ، چاھے وہ آیت اللہ کی صفت بیان کر رھی ھو یا جنت ،جھنم یا شیطان کا تذکرہ ھو رھا ھو ،، ان کے قرآن کو سمجھنے اور عام انسان کے قرآن پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ھے ،،ھندو مذھب جنت سے بھی خوفزدہ ھے کیونکہ ان کے نزدیک ان کے دیوتا 19 ، 19 بار بھی جنت میں جا کر نکال باھر کئے گئے ھیں اور کسی نہ کسی نئے امتحان سے دوچار کیئے گئے ھیں لہذا ھندو مذھب جنت کا متلاشی نہیں بلکہ نروان کا متلاشی ھے ، ایسا خواب جو کہ دائمی ھو، ،، قرآنِ حکیم ایک ھی آیت میں عیسائیت کے تصورِ جنت کی نفی کرتا ھے تو ساتھ ھندو ازم کا قصہ بھی چکا دیتا ھے !
عیسائیوں میں جنت یا Paradise کا تصور موجود ھے مگر انتہائ ناقص تصور ھے ، عیسائیت کی جنت ایک حسین اور مسلسل خواب ھے ،جس میں وہ سب عیش ھو گا جو اس دنیا میں پایا جاتا ھے یا جس کی تمنا انسان کر سکتا ھے ،مگر وہ سوائے خواب کے کچھ بھی نہیں ھو گا، قرآنِ حکیم سب سے زیادہ اس تصور کی نفی کرتا ھے ، قرآن جب یہ بیان کرتا ھے کہ ” وہ تخت پر گھاؤ تکیئے لگائے بیٹھے ھونگے ” تو وہ یہ دلیل دے رھا ھوتا ھے کہ روح نہ تو ٹیک لگا سکتی ھے ، نہ فروٹ وغیرہ کھا سکتی ھے ،، یہ جسمانی جنت ھو گی جو بدن کے ساتھ ھو گی جو ٹیک لگائے بیٹھا ھو گا ، اسی طور جب جب جس جس نعمت کا ذکر کیا گیا ھے ، اس میں انسان کے بدن کو شامل کر کے دلیل کے طور پہ ذکر کیا گیا ھے نہ کہ لالچ کے طور پر ، قرآن جنت کی زندگی کو خواب نہیں بلکہ سب سے بڑی حقیقت اور حقیقی زندگی قرار دیتا ھے ” وَإِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ” آخرت کے گھر کا جینا ھی آخری جینا ھے ( نہ کوئی کوئی خواب ھے ،کیونکہ خواب کی زندگی چاھے وہ کتنا خوشگوار خواب ھی کیوں نہ ھو ، اسے زندگی کوئی نہیں کہتا ،،خواب ھی کہتا ھے !
جو لوگ ان آیات کو کہ جن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ھے اعتراض کے طور پہ پیش کرتے ھیں وہ اس حقیقت سے بے خبر ھیں کہ یہ ساری نعمتیں جسمانی وجود کے ساتھ ھی استعمال کی جا سکتی ھیں ،، اور ان آیات کو انسانی جسم کے ساتھ آخرت کی زندگی کی دلیل کے طور پہ ذکر کیا گیا ھے نہ کہ لالچ کے طور پہ ،، اخرت میں ھر وہ ضرورت موجود ھو گی جس کا تقاضہ یہ انسانی بدن اس دنیا میں کرتا ھے ،، سوائے اولاد کے جو اسے چھوٹے بچوں کی صورت میں فراھم کر دی جائے گی اور ان میں اولاد کی سی محبت ڈال دی جائے گی ،یہ کفار کے بچے ھونگے جو بچپن میں مر گئے ھونگے اور جن کے والدین خلود فی النار کے مستحق ھونگے ،،،
حصہ دوم
شیطان سے متعلق بھی سب سے کلیئر کٹ اور واضح موقف اسلام کا ھے اور قرآن نے اس واقعے کو بار بار مختلف انداز میں بیان فرمایا ھے اور ھر جگہ اس کے نئے زاویئے کو استدلال کے لئے استعمال فرمایا ھے ، ھندو عیسائی اور یہود میں بعض لوگوں نے شیطان کو خدا کے مقابلے کی دوسری طاقت کا درجہ دیا ھے ،جس کی باقاعدہ پوجا بھی کی جاتی ھے ، ان کے نزدیک جھنم شیطان کی عملداری کا علاقہ ھے جہاں اس کی اطاعت کرنے والے رکھے جائیں گے جبکہ جنت اللہ کی عملداری کا علاقہ ھے جہاں اس کی اطاعت کرنے والے اکاموڈیٹ کیئے جائیں گے ، اس کی وضاحت انگریزی کی ضرب المثل سے بیان کی جاتی ھے ” Better to reign in Hell, than serve in Heaven. جسے ھم جھنم کا داروغہ مالک کہتے ھیں ،وہ وھاں شیطان کو بٹھاتے ھیں ،،
اللہ کا کرم ھے اور قرآن میں شیطان کے واضح اسٹیٹس کے تعین کا نتیجہ ھے کہ مسلمانوں کے گمراہ ترین فرقوں میں بھی شیطان کے بارے میں کبھی کو ابہام پیدا نہیں ھوا اور اسے اللہ کا مجرم اور باغی ھی سمجھا گیا نہ کہ خدا کے برابر درجے کا کوئی شریک ،کہ شر پر جس کی حکمرانی ھو ،، قرآن کے مطابق شیطان اللہ کا باغی ھے نہ کہ اللہ کے مساوی کوئی قوت ،، شیطان سے پوچھ پوچھ کر حقیقت کو واضح کیا گیا کہ اس نے کن وجوھات کی بنا پر بغاوت کی روش کو ترجیح دی ، اس کی ایک قسم اللہ پاک نے کوٹ کی ھے ،، قال فبعزتک لأُغوینۜھم اجمعین ،، تیری بے نیازی کی قسم میں ان سب کو اغوا کرونگا ،، گویا وہ یہ بات جانتا ھے کہ اللہ پاک اپنی مخلوق سے بےنیاز ھے ، نہ ان کی عبادت اس کا نفع کرتی ھے اور نہ معصیت اس کا نقصان ، سارے جنت چلے جائیں تو بھی اس کا کوئی نفع نہیں اور جھنم چلے جائیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں ،، عبادت و طاعت کا نفع اور معصیت و بغاوت کا خسران خود انسان کی ذات سے جڑا ھوا ھے ،، ومن تزکی فانما یتزکی لنفسہ ،،جو پرھیزگاری کی روش اختیار کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، اسی طرح فرمایا و من جاھد فانما یجاھد لنفسہ ،، جو جہاد یا جدجہد کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، شیطان کی حماقت ھے کہ اس نے اپنا ایجنڈا اے بی سی کی طرح کھول کر بیان کر دیا کہ ” کیا کرے گا اور کیسے کرے گا ” اللہ نے حدیں قائم کر دی ھیں جو ان حدوں کے اندر رھے گا شیطان اسے اغوا نہیں کر سکے گا ، جو ان سے نکلے گا شیطان ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھا ھے ،، ان حدوں سے نکالنے کے لئے شیطان نے بتایا کہ ” ولاُمنینھم ولأمرنھم ،، میں ان میں تمنائیں پیدا کروں گا ،،تمنائیں وسائل سے بڑھ جائیں گی تو پھر انہیں حکم دونگا یا مشورہ دونگا یا دعوت دونگا کہ ایکسٹرا وسائل کیسے مہیا کرنے ھیں یوں تمناؤں کے باؤلے لوگ میرے پیچھے لگ جائیں گے ،، طاقت نہ شیطان کے پاس ھے کہ کسی کو جھنم لے جائے یا مار کر ٹیکسی میں ڈالے اور شراب خانے لے جائے ،، وہ تو بس خیال ڈالتا ھے کہ ، آج موسم بڑا گلابی ھے ، آج پینے میں کیا خرابی ھے ؟ اسی طرح پیغمبر بھی زبردستی جنت میں لے جانے کا مجاز نہیں ھے ، وہ بھی دعوت دیتا ھے ،، شیطان حشر کے دن فیصلے ھو جانے کے بعد اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا مدلل جواب دینے کی اجازت مانگے گا ،بجائے ایک ایک فرد کے الزام کا جواب دینے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے ،،وہ ایک ھی بار ساری انسانیت کو مخاطب کر کے جواب دے گا ،،
وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ
اور شیطان کہے گا جب فیصلے ھو جائیں گے کہ اللہ نے تم سے جتنے وعدے کیئے تھے بےشک وہ سارے سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیئے تھے ان کو کو پورا نہ کیا ،، میرے پاس نہ دلیل کی طاقت تھی اور نہ جسمانی طور پر مجھے تم پر جبر کی اجازت تھی ،سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی جو تم نے قبول کر لی سو مجھے ملامت مت کرو ملامت اپنے آپ کو کرو ( کیونکہ اختیار تمہارے پاس تھا میرے پاس نہیں تھا )
جاری ھے
—————————————————————————————————————————————
اللہ کا کرم ھے اور قرآن میں شیطان کے واضح اسٹیٹس کے تعین کا نتیجہ ھے کہ مسلمانوں کے گمراہ ترین فرقوں میں بھی شیطان کے بارے میں کبھی کو ابہام پیدا نہیں ھوا اور اسے اللہ کا مجرم اور باغی ھی سمجھا گیا نہ کہ خدا کے برابر درجے کا کوئی شریک ،کہ شر پر جس کی حکمرانی ھو ،، قرآن کے مطابق شیطان اللہ کا باغی ھے نہ کہ اللہ کے مساوی کوئی قوت ،، شیطان سے پوچھ پوچھ کر حقیقت کو واضح کیا گیا کہ اس نے کن وجوھات کی بنا پر بغاوت کی روش کو ترجیح دی ، اس کی ایک قسم اللہ پاک نے کوٹ کی ھے ،، قال فبعزتک لأُغوینۜھم اجمعین ،، تیری بے نیازی کی قسم میں ان سب کو اغوا کرونگا ،، گویا وہ یہ بات جانتا ھے کہ اللہ پاک اپنی مخلوق سے بےنیاز ھے ، نہ ان کی عبادت اس کا نفع کرتی ھے اور نہ معصیت اس کا نقصان ، سارے جنت چلے جائیں تو بھی اس کا کوئی نفع نہیں اور جھنم چلے جائیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں ،، عبادت و طاعت کا نفع اور معصیت و بغاوت کا خسران خود انسان کی ذات سے جڑا ھوا ھے ،، ومن تزکی فانما یتزکی لنفسہ ،،جو پرھیزگاری کی روش اختیار کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، اسی طرح فرمایا و من جاھد فانما یجاھد لنفسہ ،، جو جہاد یا جدجہد کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، شیطان کی حماقت ھے کہ اس نے اپنا ایجنڈا اے بی سی کی طرح کھول کر بیان کر دیا کہ ” کیا کرے گا اور کیسے کرے گا ” اللہ نے حدیں قائم کر دی ھیں جو ان حدوں کے اندر رھے گا شیطان اسے اغوا نہیں کر سکے گا ، جو ان سے نکلے گا شیطان ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھا ھے ،، ان حدوں سے نکالنے کے لئے شیطان نے بتایا کہ ” ولاُمنینھم ولأمرنھم ،، میں ان میں تمنائیں پیدا کروں گا ،،تمنائیں وسائل سے بڑھ جائیں گی تو پھر انہیں حکم دونگا یا مشورہ دونگا یا دعوت دونگا کہ ایکسٹرا وسائل کیسے مہیا کرنے ھیں یوں تمناؤں کے باؤلے لوگ میرے پیچھے لگ جائیں گے ،، طاقت نہ شیطان کے پاس ھے کہ کسی کو جھنم لے جائے یا مار کر ٹیکسی میں ڈالے اور شراب خانے لے جائے ،، وہ تو بس خیال ڈالتا ھے کہ ، آج موسم بڑا گلابی ھے ، آج پینے میں کیا خرابی ھے ؟ اسی طرح پیغمبر بھی زبردستی جنت میں لے جانے کا مجاز نہیں ھے ، وہ بھی دعوت دیتا ھے ،، شیطان حشر کے دن فیصلے ھو جانے کے بعد اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا مدلل جواب دینے کی اجازت مانگے گا ،بجائے ایک ایک فرد کے الزام کا جواب دینے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے ،،وہ ایک ھی بار ساری انسانیت کو مخاطب کر کے جواب دے گا ،،
وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ
اور شیطان کہے گا جب فیصلے ھو جائیں گے کہ اللہ نے تم سے جتنے وعدے کیئے تھے بےشک وہ سارے سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیئے تھے ان کو کو پورا نہ کیا ،، میرے پاس نہ دلیل کی طاقت تھی اور نہ جسمانی طور پر مجھے تم پر جبر کی اجازت تھی ،سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی جو تم نے قبول کر لی سو مجھے ملامت مت کرو ملامت اپنے آپ کو کرو ( کیونکہ اختیار تمہارے پاس تھا میرے پاس نہیں تھا )
جاری ھے
—————————————————————————————————————————————