حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ،نبیﷺ کے پہلے شہید نواسے !
نبی کریمﷺ نے رمضان 8 ھجری میں مکہ فتح کیا اور سب سے پہلے حرم میں تشریف لائے،، آنے حرم کے صحن اور مطاف میں موجود سارے بت اپنی چھڑی کے ساتھ گرائے،، گویا انہیں ھاتھ لگانا بھی گوارا نہ فرمایا ! اس کے بعد بیت اللہ میں داخل ھوئے اور عمر الفاروقؓ کو ارشاد فرمایا کہ بت اٹھا کر باھر پھینک دو،، عمر الفاروقؓ انہیں توڑتے جاتے اور اٹھا کر بیت اللہ سے باھر پھینکتے جاتے،، اللہ کا رسولﷺ اور نبی کی مراد الفاروق دونوں ” جاء الحق و زھق الباطل، ان الباطلَ کان زھوقاً تلاوت فرماتے جاتے اور بتوں کو توڑتے جاتے ! اس کے بعد آپﷺ بیت اللہ کی چھت کی طرف متوجہ ھوئے اور حضرت علی بن ابی العاصؓ سے فرمایا کہ مجھے اٹھا کر بلند کرو،، یہ علیؓ ابن ابی العاص حضور ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی زینب بنت محمد ﷺکے بیٹے تھے،، مکہ میں داخلے کے وقت نبی پاک ﷺ ان کو ھی اپنے ساتھ اونٹ پر پیچھے بٹھائے ھوئے تھے،، علی ابن ابی العاصؓ نے آپ کو اٹھایا مگر اٹھا کر سیدھے بھی نہ ھونے پائے تھے کہ ٹانگیں کانپ گئیں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ،اور ان پر سے اتر گئے، آپ ﷺ نے فرمایا،، وہ بارِ نبوت اٹھانے والا کوئی اور ھی تھا ! یہ اشارہ ھے ابوبکر صدیقؓ کی طرف جنہوں نے ھجرت کے وقت کھوجی کو دھوکا دینے کے لئے کافی فاصلہ نبی کریمﷺ کو کندھوں پر اٹھا کر طے کیا تھا،، اس کے بعد آپﷺ نے علی ابن ابی العاص سے فرمایا کہ تم میرے کندھوں پر بیٹھو اور پھر آپ نے انہیں بلند کیا،جس کے بعد بقول علی بن زینبؓ ، اللہ کی قسم میں نے اپنے آپ کو اتنا بلند پایا گویا میں چاھوں تو آسمان کو چھو لوں ،، یہ حضرت علی بن زینب بنت رسول اللہ گو سترہ سال کے تھے مگر لمبے دھڑنگے تھے اور بت توڑنے کے لئے چھوٹی عمر اور لمبے قد والا بندہ چاھئے تھا،، !! اس واقعے کو ھر ذاکر ھر مجلس میں علیؓ بن ابو طالب کی طرف منسوب کر کے خوب حاشیئے چڑھاتے ھیں،،جیسے عامر لیاقت کہہ رھا تھا،، ادرکنی یا علی، یا علی میری مدد کر،،وغیرہ ! حضرت علیؓ اور عبداللہ ابن مسعودؓ صحابہ میں سب سے چھوٹے قد کے مالک تھے ! حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمایئے (سنن ابو داؤد،فحمل علی ابن ابی العاص علی عاتقہ ) یہ نبی کریمﷺ کے سب سے بڑے نواسے تھے، ان کے والد ابی العاص بنو امیہ کے ایک مالدار اور سخی شخص تھے،، انتہائی شجاع جنگجو تھے،، حضرت علیؓ نے عرب کے رواج کے مطابق دو سال رضاعت کا وقت صحراء کے بدوؤں کے یہاں گزارا اور پھر چار سال کی عمر سے نبی کریمﷺکی گود میں ھی پرورش پائی ،آپﷺ کو ان سے بہت محبت تھی اور یہ ھر اھم موقعے پر نبی کریمﷺ کے ساتھ ھوتے،، غزوہ حنین میں بھی یہ آخر وقت تک نبی کریمﷺ کے خچر کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں رھے تا کہ تیروں سے نبیﷺ کی حفاظت کریں فتح مکہ پر بھی یہی نبیﷺ کے ردیف تھے اور نبیﷺ کے حکم کے مطابق آپﷺ کے کندھوں پر چڑھ کر بیت اللہ کی چھت کو بتوں کی الائش سے پاک کیا( الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج 2 صفحات، 503 رحمۃ للعالمین ص 98 ج 2) الصداقۃ العظمی ص 32 اس وقت حضرت علیؓ کی عمر 15 سال تھی ( الاصابہ) یہ علی الزینبی رضی اللہ عنہ،، رومی کافروں کے خلاف دادِ شجاعت دیتے ھوئے عمر فاروقؓ کے دور میں 15 ھجری میں جنگِ یرموک میں 22 سال کی عمر میں شہید ھوئے،،یوں نبی پاکﷺ کے نواسوں میں کافروں کے خلاف لڑ کر تاجِ شہادت اپنے سر پر رکھنے والے یہ پہلے اور سب سے بڑے نواسے تھے ! مگر ستم ظریفی یہ ھے کہ ھمارے واعظ حضرات ھی نبیﷺ کے کسی تیسرے نواسے اور اس کی شہادت سے واقف نہیں،، یہ ھے میڈیا کا کمال