اپنے یہاں رواج تھا کہ دولہے کو صحن میں چوکی پر بٹھاتے ھیں اور سلامی شروع ھوتی ھے،، تیل شیل ملا جاتا ھے،،وٹنا ملا جاتا ھے،اس زمانے میں شیمپو جیسی نحوست ابھی ایجاد نہیں ھوئی تھی،، اس کے بعد ماشکی چھت کے اوپر سے پانی دولہا پر گراتا ھے اور دولہا جو کپڑے پہن کر بھی ننگا ھوتا ھے، آخر میں پانی ھتھیلیوں میں بھر کر اپنے چاروں طرف کھڑے لوگوں پر پھینکتا ھے تا کہ اللہ پاک انہیں بھی اس پانی کی برکت سے جلد دلہن نصیب کرے – اپنے اندر تجسس چونکہ بچپن سے وافر مقدار میں موجود تھا ،لہذا اپنی کوشش ھوتی تھی کہ دولہا کے قریب کھڑا ھوا جائے نتیجتاً پانی میں بھیگ بھیگ جاتے،، اور جزاء یوں ملی کہ ساڑھے سترہ سال کی عمر میں ھم بھی مشک کے نیچے بیٹھے ھوئے تھے،، گویا محمد بن قاسم کی عمر میں ھمیں بھی جرنیل بنا دیا گیا،، پانی ھم نے بھی پھینکا ،مگر زیادہ تر شادی شدہ لوگوں پر پڑا اور وہ دوسری شادی کو چل دیئے،، اب عورتیں ھم کو گھور گھور کر دیکھا کرتیں اور ھم احساسِ ندامت سے اکبر الہ آبادی کی طرح زمین میں گڑ جاتے – اس کے بعد ھم مولوی ھو گئے اور الحمد للہ کسی اور کو چوکی نہیں چڑھنے دیا،،بلکہ سیدھا پکڑ کے حمام پر لے جاتے اور دولہا بنا کے لے آتے،، جس شادی میں گانا بجانا ھوتا ھم وھاں اسی طرح فساد مچا دیتے جیسے جنازے کے بعد دعا پر مولانا حضرات مناظرہ شروع کر دیتے ھیں اور اس طرح میت کے لواحقین کی پریشانی میں اضافے کا سبب بنتے ھیں،، آئستہ آئستہ رشتہ داروں نے ھمیں شادی پر بلانے سے ھی توبہ کر لی،،انہیں سب سے بڑا اور ٹھوس اعتراض یہ تھا کہ اپنی شادی پہ سب کچھ کر کے،، جب ھمارے بچوں کی شادیاں شروع ھوئی ھیں تو تم کو اسلام چڑھ گیا ھے ؟ ھمیں ایک نئی نسل کی گھوڑی پر بٹھایا گیا جو تھی تو گھوڑی مگر گدھی سے بھی چھوٹے سائز کی تھی،ایسی گھوڑی ھم نے پرایم منسٹر ھاؤس میں بعد میں دیکھی تھی،، ھمیں پیسوں کے ھار بھی پہنائے گئے،، بلکہ سہرے اور ھاروں کے پیچھے ھمارا چہرہ دیکھنے کے لئے پیسے دینے پرتے تھے،جس کو سلامی کہتے ھیں،، برات پورے گاؤں میں پھری اور گاؤں کے بچے میری گھوڑی کے دونوں جانب سے میرے گھٹنوں پر ھاتھ رکھے میرے ساتھ ساتھ رھے،، میں حیران تھا کہ میرے دبئ جانے کے بعد اس گاؤں کے بچے کتنے مؤدب اور مودت و محبت سے مزیں ھو گئے ھیں،، بچے بھی اتنے تھے کہ وہ بچوں کی بارات لگتی تھی، سوچا تھا دادا جی کے گھر بارات اترے گی تو ان سے بچوں کے اس سلوک کی وجہ پوچھوں گا،، مگر جب بارات اتری اور ھم گھوڑی سے اترے تو وجہ خود ھی پتہ چل گئی،، ھاروں کے ساتھ صرف اتنی جگہ روپے باقی رہ گئے تھے جو ھمارے گریبان کے پاس تھے،، باقی نیچے سے سارے نوٹ بچے اتار کر لے گئے تھے !!
میرے والد مرحوم اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی خطاؤں سے در گزر فرمائے بہت ھی درویش منش انسان تھے، وہ والد کم اور دوست زیادہ تھے، میں نے اس قسم کے والد نہ تو کتابوں میں پڑھے ھیں نہ عملی زندگی میں دیکھے ھیں،،ھر لحاظ سے پرفیکٹ،،ان کی شادی میری شادی کے بعد یعنی میرے ولیمے پر ھوئی تھی، اور وہ الاقربُ فالاقرب کے اصول کے تحت چوکی کے پانی کا پہلا شکار بنے ، وہ ویسے بھی کفایت شعار تھے بچوں کے عقیقے پر بھانجیوں اور بھتیجیوں کی بارات بھگتا دیتے تھے،،سو میرے ولیمے پر اپنی بارات بھگتا لی،، پوری زندگی میں انہوں نے ایک دفعہ ھی میری پٹائی کی ھے،جبکہ والدہ صاحبہ کبھی ناغہ نہیں کرتی تھیں،،ھمیں اللہ پاک نے نہ صرف دائیں ھاتھ کی جگہ بائیاں نصیب فرمایا ھے بلکہ ابا کی جگہ امی پکڑا دی ھے ،، والد صاحب کی مار کا سبب بھی ھم خود بنے انہوں نے تو صرف کان پکڑائے تھے،، پھر تایا کو اشارہ کیا کہ تم چھڑوا دو،،تایا کان چھڑواتے اور ھم ٹھیک اسی جگہ جا کر پھر پکڑ لیتے ،والد صاحب کو بہت غصہ آیا کہ اس کی انا میری انا کی بھی ماں بن گئی ھے،، بھر انہوں نے شاھد حیات والا اپریشن شروع کیا ، اب ھم آگے آگے تھے اور والد صاحب پیچھے پیچھے ! اس ایکشن کی وجہ یہ ھوئی کہ ھم مٹی بہت رغبت سے کھایا کرتے تھے جبکہ ھمیں اس نشے پر لگانے والی وہ خواتین تھیں جو ھمیں مٹی خریدنے اپنے شوھروں سے چوری بھیجا کرتی تھیں، ھماری معصوم شکل و صورت کو کہاں کہاں ایکسپلائٹ نہیں کیا گیا،، اللہ معاف کرے خواتین کو شاہ کمال کے مزار پر بچے لینے ھم ھی ساتھ لے کر جایا کرتے،اور دعا قبول ھونے کے بعد بچہ بنانے کے لئے مٹی بھی ھم کو ھی خرید کر لانی پڑتی قرآن میں جو لکھا ھے کہ ھم نے انسان کو کھنھکناتی مٹی سے بنایا ھے تو وہ ھمارے گاؤں میں اسی طرح مٹی سے بچے بنایا کرتی تھیں،، پھر کہیں سے سنا کہ مٹی کھانے سے پیٹ بڑا ھوتا ھے تو ایک خالہ کو ھم نے ٹوک بھی دیا کہ ماسی خدا کا خوف کرو پہلے ھی پیٹ پھٹنے والا ھوا ھے اوپر سے روز کی آدھ کلو مٹی کھا جاتی ھو،، خالہ نے ھمیں گھور کر دیکھا اور خواتین سے مشورے کے بعد ھمیں ھماری خدمات سے اسی طرح ڈی نوٹیفائی کر دیا جس طرح میاں صاحب نے ابا جی سے مشورے کے بعدسجاد علی شاہ کو ڈی نوٹیفائی کیا تھا، حالانکہ اللہ جانتا ھے ھمیں نازک صورتحال کا بالکل علم نہیں تھا،،خیر ڈیوٹی تو ختم ھوئی مگر اس کے نتیجے میں ھمیں بھی مٹی کھانے کی لت لگ چکی تھی،، خواتین کی مٹی سے اتنی رغبت پر تجسس کے مارے ھم بھی ایک دن چکھ بیٹھے،، بس پھر تو ھر کنسائنمنٹ میں سے اپنی چونگی وصول کر لیتے اور سکول تفریح کے ٹائم بچے کھانا کھاتے اور ھم مٹی تناول فرماتے ! مٹی چھڑوانے کے لئے یہ طے کیا گیا کہ ھمیں بھنگالی شریف لے جایا جائے،،،بھنگالی والے پیر عبداللہ شاہ ماشاء اللہ بہت نورانی چہرے والے باوقار بزرگ تھے، ان کے یہاں پرنٹیڈ تعویزوں کا ٹوکرا پڑا ھوتا تھا،جس میں سے وہ اس بھینس کے لئے بھی مٹھی بھر نکال کر دے دیتے جو دودھ سکھا گئی تھی،،اس ساس کو بھی دیتے جس کا بیٹا چھٹی نہیں آتا تھا اور بہو سوکھ کے کانٹا ھو گئی تھی،اسی ٹوکرے میں سے مٹھی بھر کے انہوں نے ھمیں بھی تعویز عنایت فرما دیئے،، ھم نے کچھ اس شان سے وہ تعویز کھائے کہ تعویز تو ھفتے بھر میں ختم ھوگئے مگر ھمیں کاغذ کھانے کی لت پڑ گئی،، اور اس کا پہلا شکار ھمارے والد صاحب کا دبئی سے لایا ھوا انتہائی خوبصورت قرآن بنا، جس کی ایک لائن سفید ایک گرین جبکہ پیپر کا بیک گراؤنڈ ھلکا گرین تھا،، ھم جتنا سبق روز ختم کرتے اتنا گرم گرم کھا لیتے، سال بعد والد صاحب تشریف لائے اور پڑھنے کے لیئے قرآن مانگا تو ھم نے بغدادی قاعدے کے حجم جتنا قرآن لا کے ان کے سامنے رکھ دیا، امریکہ والوں سے بہت پہلے ھم نے بستہ چھوٹا رکھنے کا اصول دریافت کیا تھا،ھم جتنا سبق پڑھتے اس پیج کو اگلی صبح نصیب نہیں ھوتی تھی،، روز کا روز کھا لیتے،ایک صفحہ معاشرتی علوم کا،ایک انگلش کا ،ایک سائنس کا ،ایک اسلامیات کا اور ایک میتھ کا،ھمارا ٹھیک ٹھاک لنچ ھو جاتا،،بچے تفریح کے وقت چنے کھاتے اور ھم آرام سے جیب سے صفحہ صفحہ نکال کر تناول فرماتے- اس میں بھی اگرچہ ھم نے فلم انصاف کا ترازو نہیں دیکھی تھی مگر انصاف کو ملحوظ خاطر رکھتے ھوئے پیریڈ کی ترتیب سے کھاتے ،یہ جو آج کل آپ منبر سے سنتے ھیں یہ پڑھے ھوئے سے زیادہ کھائے ھوئے کا کمال ھے ! مذھبی رجحان کی وجہ سے عموماً چوری وغیرہ کا پتہ چلانے کے لئے معمول بچے کے طور پر ھمارا ھی انتخاب ھوتا،، اس بہانے ھمیں شہر شہر جانا پڑتا،، ساتھ لے جانے والے بھی سارا رستہ کھلاتے پلاتے لے جاتے،،جہاں بس رکتی مونگ پھلی،گنڈیریاں پیش کی جاتیں تا کہ بچہ بھوکا نہ رھے،بھوک کا پہلا اثر نظر پر پڑتا ھے ،اور وھاں سارا کمال ھی نظر کا ھوتا ھے، انگوٹھے کے ناخن کی اسکرین میں چوری کا پورا کلپ دیکھنا اور بندہ پہچاننا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ھوتا،،پیٹ میں کچھ ھو تو نظر کام کرتی ھے،، ساتھ ساتھ وہ یہ خوراک بھی دیتی جاتیں کہ ھمیں تو فلاں پر شک ھے تا کہ بچہ ان کے دشمنوں کا نام لے،مگر بچے کو اپنے بزنس کی زیادہ فکر تھی ،، صورتحال زیادہ گھمیبر اس دن ھوتی جس دن ساتھ جانے والی کسی خاتون کے بھائی یا بہن کا نام نکل آتا،،پھر عموماً واپسی پر بھوکا رھنا پڑتا مگر رزقِ حلال میں یہ دن تو دیکھنے ھی پڑتے ھیں ! جب تیاری شروع ھوتی تو خواتین آتیں اور کوئی روپیہ کوئی آٹھ آنے اور تو اور اگر کوئی غریب ھوتی تو ھمیں گلے سے لگا ایک دو بوسے دیتی،سر پر ھاتھ پھیرتی اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی،، مقصد سب کا ایک ھی ھوتا کہ ناہنجار کہیں ھمارا نام ھی نہ لے دے، ھم بھی دیانتداری کے ساتھ سب کو ذھن مین رکھتے اور آخر نام اسی کا لیتے جس نے کچھ نہیں دیا تھا تا کہ آئندہ اسے احساس ھو جائے کہ یہ غلطی جان لیوا بھی ثابت ھو سکتی ھے،، وہ بےچاری لاکھ انکار کرتی مگر وہ تو سی سی ٹی وی فوٹیج میں پکڑی گئی تھی،آج بھی یہ واردات کل کی طرح جاری وساری ھے انکار کرنے والے قرآن بھی اٹھا لیں مگر انگوٹھے والے کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا،،