خود کو دیکھ کے ڈر لگتا ھے
ھمارا چہرہ اتنا خوفناک ھے کہ خود ھی دیکھ کے ڈر لگتا ھے ! ایک نورانی چہرہ استاد کا سیاہ کردار سامنے آتے ھی ھم کہتے ھیں اس کا مقصد کیا ھے؟ کیا یہ برائی کی تشہیر نہیں ھے؟ کیا برائی کو چھپانے کا حکم نہیں ھے ؟؟؟ اللہ پاک جو ھمارا خالق ھے وہ ھم سے بڑھ کر ھمارا واقف ھے،، ماں باپ نے ھمیں پیدا کر کے جانا ھے،، مگر اس ھستی نے ھمیں جان کر پیدا فرمایا ھے ” وہ تم سے اس وقت بھی واقف تھا جب اس نے تمہیں زمین سے (آدم) بنانے کے لئے اٹھایا تھا اور جس وقت تم رحم مادر میں جنین تھے وہ تم سے اس وقت بھی وقف تھا،، سو اپنے آپ کو زیادہ پاکیزہ نہ بیان کیا کرو وہ اچھی طرح جانتا ھے کون کتنا متقی ھے ( والنجم ) ھم مختلف مورچوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ھیں ،، کیا چھپانے کو صرف یہی برائی رہ گئی ھے؟ یہ جو پورا سوشل اور پرنٹ میڈیا بھرا پڑا ھے، نواز شریف، عمران خان، پرویز خٹک، فضل الرحمان، طاھر القادری،گیلانی، پرویز اشرف اور دیگر لوگوں کے خلاف !! کیا قرآن و حدیث کے حکم کے مطابق ھی ان کے کپڑے اتارے جارھے ھیں؟؟ کیا یہ وھی دور نہیں جب زمین اپنے راز اگل دے گی،جو کرو گے اگلے دن دیکھ لو گے؟؟ کیا اقرار حسین ھی جو کچھ نشر کرتا ھے وہ اسلام ھے،، اور کیا اس نشر کرنے پر قصائی اور دیگر ملاوٹ مافیا اس کی جان کے درپے ھے تو کیا ھمارا رد عمل بھی ملاوٹ مافیا والا نہیں ؟؟ جو ھم کریں تو حلال ھے ،جو وہ کریں تو حرام ھے،، ؟؟ صرف معلم کے کرتوت کو چھپانا ھی واجب کیوں ٹھہرا؟؟ کیا اس لئے کہ پھر مائیں اپنے بچے قسائی کے پاس نہیں بھیجیں گی؟
میں نے یہ تصویر کیوں لگائی ھے !!
1- اس لئے کہ آپ دیکھ لیں کہ جو تشدد اس بچے میں بھرا جا رھا ھے،کل یہ تشدد ھی جوان ھو کر آپ سے کسی جگہ ملاقات کرے گا !
2- جن لوگوں کو آپ تشدد ترک کرنے کے مشورے دیتے ھیں انہوں نے تشدد کے سوا کچھ دیکھا اور سیکھا ھی نہیں ھے،یہ تشدد ان میں بڑے نورانی چہروں والوں نے بھرا ھے !
3- اس بچے کو سکولوں میں ھنستے کھیلتے جاتے اور آتے بچے زہر لگتے ھیں،اس لئے یہ اسکول اڑا دیتا ھے!
4- آپ جن کی عقل کو خطاب فرماتے ھیں وھاں میموری کارڈ ھے ھی نہیں،،انہیں کہیں کسی اور جگہ سے علم بھرا گیا ھے،، سر کے راستے سے نہیں ! اس لئے آپ وقت ضائع کر رھے ھیں،
5- اس کے اندر کا بچہ سسک کر مر گیا ھے، اب جب یہ دھماکہ کرے گا تو سسکتے بلکتے بچوں،مردوں اور عورتوں سے اسے کوئی ھمدردی نہیں ھو گی اس لئے کہ جب وہ سسک رھا تھا تو کوئ چھڑانے نہیں آیا تھا،
6- ھمیں سکھایا گیا ھے کہ بچہ بڑوں کی نسبت زیادہ حساس ھوتا ھے اور عزت بے عزتی کو زیادہ اھمیت دیتا ھے،، جب اپنے ھم جولیوں کے سامنے اس کی یہ دھرگت بنتی ھے تو وہ ان سے نظر ملا کر بات نہیں کر سکتا،
7- اب آپ مطالبہ کرتے اور امید رکھتے ھیں کہ کل یہ بچہ کسی قسم کی کوئی تحقیق کرے گا اور وہ بھی اپنے ان بزرگوں کی تحقیق کے خلاف ؟
8- یہ بچہ مولوی صاحب کو اس معاھدے کے تحت دیا گیا تھا کہ گوشت آپ کا اور ھڈیاں ھماری،، مولوی صاحب حسبِ معاہدہ اپنا حصہ وصول کر رھے ھیں،، 9- جتنا بڑا یہ مجرم ھے اس سے بڑے مجرم اس کے ماں باپ ھیں جو اسے مولوی صاحب کے حوالے کرنے کے بعد ،، ان رشتے داروں کی لسٹ بنانا شروع کر دیتے ھیں جن کو یہ بچہ بخشوائے گا ! وھاں تو پتہ نہیں بخشوائے گا یا نہیں مگر یہاں سے درجنوں ساتھ لے کر جائے گا !
10- والدین اپنے بچوں کو 3000 کلومیٹر دور کراچی چھوڑ آتے ھیں اور پھر سالوں کے بعد کہیں بچہ واپس آ جائے تو آ جائے کبھی جا کر دیکھتے بھی نہیں کہ ان کے بچے کو کیا بنایا جا رھا ھے، جبکہ مرغی کے انڈے ھر دوسرے دن چیک کرتے ھیں کہ بچے نکلنے میں کتنی کسر رہ گئی ھے،، یہ بچہ جب واپس آتا ھے تو کبھی کسی نے اس سے نہیں پوچھا کہ ” کیا گزری ھے قطرے پہ گہر ھونے تک ! لہذا والدین اور استاد دونوں معاشرے کو ایک مسخ شدہ ، متشدد فرد فراھم کرتے ھیں،،یہ مسجد جاتا ھے تو بھی آگ لگاتا ھے،کسی مذھبی جماعت کا سربراہ بنتا ھے تو بھی آگ لگاتا ھے،،، بچہ وھاں داخل کرائیں جہاں وہ پڑھ کر رات کو گھر آ جائے،، تا کہ نہ اس کا جسمانی استحصال ھو نہ جنسی،، ورنہ اتنے دور تک رکھیں جہاں آپ ھفتہ دو ھفتے بعد چکر لگا لیں!
11- مدارس میں دو قسم کے بچے پڑھتے ھیں ،اور دو ھی قسم کے رویئے پلتے ھیں،، وہ بچے جن کے اخراجات اس کے والدین ادا کرتے ھیں،، اسے کھانا بھی ڈیسک پر ملتا ھے،، صرف ھاتھ دھو کر جا کر ٹیبل مین کا انتظار کرنا ھوتا ھے،، دوسرے وہ جن کے غریب والدین خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور وہ لوگوں کے صدقات اور نذرانوں پر پلتے اور پڑھتے ھیں،، ان کو لائن میں لگ کر کھانا لینا پڑتا ھے اور جب تک وہ کھانا وصول کرتے تب تک خوشحال بچے کھانا کھا کر آرام کرنے جا چکے ھوتے ھیں،، اب پہلی قسم کے بچوں کی سزا میں بھی تخفیف ھوتی ھے کیونکہ ان کے پوچھنے والے سر پر ھوتے ھیں،، اور باڈی لینگویج میں اعتماد بھی ،، یہ بچے ھی اساتذہ سے سوال جواب بھی کر لیتے ھیں جبکہ دوسری قسم کے بچے ھر قسم کے تشدد کا نشانہ بنتے ھیں کیونکہ ان کے والدین مفت پڑھائی کے احسان تلے دبے ھوتے ھیں لہذا وہ احتجاج بھی نہیں کر سکتے،، اور سوال جواب سے انہیں کوئی دلچسپی بھی نہیں ھوتی وہ سال گن رھے ھوتے ھیں اس طرح دو قسم کے طلباء فارغ ھو کر آتے ھیں، آسودہ اور پراعتماد،، پزمردہ ،اور بدحال،، آسودہ حال کو اگر اپنے معیار کی نوکری نہ ملے تو عموماً کسی بزنس کی طرف جا نکلتے ھیں،، جبکہ مساجد کے مقدر میں 90٪ یہی کچلی ھوئی انا والے تار تار بچے ھی ھوتے ھیں، ، مدرسہ ھو یا سکول تشدد کا نشانہ غریب کا بچہ ھی بنتا ھے، اسکول ماسٹر بھی کسی بڑی قوم کے بچے کو مارنے سے کنی کتراتا ھے،کیونکہ تھوڑی دیر بعد اس کے وارث پہنچ جاتے ھیں،، اور یہ ھی حال حافظ صاحب کا ھے وہ بھی اپنا غصہ غریب کے بچوں پر اتارتے ھیں،، امیر اور بڑی قوم والا صرف ڈانٹ ڈپٹ پر ھی چھوٹ جاتا ھے،، آج متشدد تنظیموں میں 99 ٪ وھی غریب کے بچے ھی ھیں جو اپنی شخصیت کو ری پروڈیوس کر رھے ھیں،، کمانڈر وھاں بھی امیر کا بچہ ھی ھوتا ھے