گونگی بدمعاشی !
August 25, 2013 at 10:10pm
- اللہ پاک نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ھے کہ،، دنیا میں صبر کی جزاء جنت ھے” ادخلوا الجنۃ بما صبرتم” اور دوسری جگہ فرشتے شاباش دیتے ھوئے کہتے ھیں ” سلٰمٓ علیکم بما صبرتم،، صبر کی بدولت آج تمیں سلامتی نصیب ھوئی ھے،، دوسری جانب فرمایا، آخرت میں صبر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں،، فان یصبروا فالنارُ مثوی لھم،، اگر وہ صبر کریں گے بھی تو آگ ھی ٹھکانہ ھے ان کا،، اور کافر ایک دوسرے کو یہ ھی کہیں گے،، سواءٓ علینا أجزعنا ام صبرنا ،ما لنا من محیص،، ھم صبر کریں یا جزع فزع کریں برابر ھے،، جان چھوٹنے کی کوئی سبیل نہیں ! عورت اگر صبر کرے تو یہ گھر بسانے کا ایک سنہری اصول ھے، وقتی زیادتیاں برداشت کرے ،انہیں اینٹ کی طرح اپنے صبر کی بھٹی میں پکائے ،اینٹ بنائے اور ان اینٹوں سے اپنا مستقبل تعمیر کرے،، ایک وقت آئے گا کہ شوھر ان زیادتیوں کو اسی طرح تسلیم کرے گا ،جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھرے دربار میں ان کی عظمت کا اعلان کیا تھا،، یوسف علیہ السلام کے اس قول کے جواب مین کہ "انہ من یتق و یصبر ،فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین،،” جو بھی پرھیزگاری کی روش اختیار کرتا ھے اور صبر سے کام لیتا ھے تو اللہ پاک احسان والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا،، بھائیوں نے اخر قسم کھا کر اعتراف کر لیا کہ نہ صرف باپ کا یوسف کو پیار میں ترجیح دینا درست تھا، بلکہ یہ کہ اصلاً یہ ترجیح اللہ کی طرف سے دی کئی تھی،،تاللہ لقد آثرک اللہ علینا،و ان کنا لخطئین” اللہ کی قسم اللہ نے آپ کو ھمارے اوپر فوقیت عطا فرمائی ھے اور یقیناً ھم ھی خطا کار تھے،، مرد چونکہ اپنی اجارہ داری اور چودھراھٹ چاھتا ھے، لہذا عورت کی خاموشی اس کی اس حس کی پیاس بجھاتی ھے، جس سے وہ سکون محسوس کرتا اور گھر کاماحول بھی پرسکون ھو جاتا ھے ، لیکن مرد کی خاموشی اور صبر عورت کو مطمئن نہیں کرتا بلکہ اس کو مشتعل کرتا ھے،کیونکہ وہ شور شرابا اپنی چودھراہٹ کے لئے نہیں کرتی بلکہ مرد کو اذیت دینے کے لئے کرتی ھے، اور جب مرد اس کے شور شرابے پر کسی تکلیف کا اظہار نہیں کرتا تو وہ اسے اپنی انسلٹ سمجھتی ھے اور مزید مشتعل ھو جاتی ھے، میرے عزیز علی طارق کی وال پر ایک حقیقت درج تھی جسے انہوں نے لطیفے کا رنگ دیا ھوا تھا، مگر میں حیران ھوں کہ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے ان کی شادی ھوئی ھے، مگر حسب عادت انہوں نے گھریلو زندگی پر بھی پی ایچ ڈی کرلی ھے،یوں ان کے ایم -اے اور پی ایچ ڈیز میں ایک اور اضافہ دیکھنے کو ملا،،لکھتے ھیں کہ عورت اپنے شوھر کو غصے سے کہنے لگی جو مسلسل پچھلے 15 منٹ سے سر نیچے کیئے اور ھونٹ سیئے بیوی کی لعن طعن سن رھا تھا اور کوئی رد عمل نہیں دے رھا تھا، کہنے لگی میں تو یہ چخ چخ ختم کرنا چاھتی ھوں مگر تیری اس گونگی بدمعاشی نے گھر کو جہنم بنا کے رکھ دیا ھے !! یوں مرد کا صبر غیر تعمیری ھوتا ھے،، مرد کو چاھئے کہ وہ تکلیف کا اظہار کرے تا کہ عورت کے جذبہ انتقام کی تسکین ھو،، پہلے سے کریک اور ھیئر لائن فریکچر والی پلیٹیں اور گلاس کہیں اکٹھے کر کے رکھے،بہتر جگہ تو کار کی ڈگی ھے، اور ضرورت کے وقت انہیں توڑ تاڑ کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ھوئے گھر سے نکل بھاگے،، کیفیٹیریا سے چائے پی کر واپس آنے تک ماحول پرسکون ھو گا،، گھر سے کشیدگی کے بادل چھٹ چکے ھوں گے، اب یتیموں کی طرح مسکین شکل بنا کر بیٹھ جائے،، اچانک عورت کے اندر کی مامتا جاگ اٹھے گی اور امید ھے امن کی آشا رنگ لائے گی ! ھر بچے کی تمنا ھوتی ھے کہ اس کا والد اس کی ماں کو اپنی ماں سمجھے،اور اس کو اسی ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھے اور اس کی اطاعت کرے جس طرح وہ اپنی امی کی اطاعت کرتا ھے،، ھر بچے کو اپنی ماں مظلوم اور باپ ظالم لگتا ھے،، تا آنکہ اس کی اپنی شادی ھو جاتی ھے،، چند دن کے بعد اسے اپنے والد کے دکھ درد کا احساس ھونا شروع ھوتا ھے،اب اسے اپنے والد کے ماضی کا ایک ایک منظر اور بے بسی یاد آتی ھے ، پہلے والدہ کی باتوں پر اسے والد کے ردعمل پر تعجب ھوتا تھا کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ابا جی ٹینشن لے لیتے ھیں، مگر اب جب اپنی بیوی کی چلتی زبان پر اسے ھفتہ ھفتہ قبض رھتی ھے تو احساس ھوتا ھے کہ بات چھوٹی ھوتی ھے مگر گھاؤ گہرا لگاتی ھے،، عموماً شادی کے بعد باپ بیٹے کا اتحاد مضبوط بنیادوں پر قائم ھو جاتا ھے اور کسی بھی گھریلو کرائسس میں باپ بہٹے کی پشت پر کھڑا ھوتا ھے،، بیوی روٹھے بھی تو بیٹا باپ کے مشورے پر دوبارہ واپس لاتا ھے جبکہ والدہ عموماً طلاق کی طرف مائل ھوتی ھے،، ظاھر سفید چادر سر پر رکھ کر گھر گھر وی آئی پی بن کر لڑکیاں دیکھنا اور سموسے کھانا کس کو اچھا نہیں لگتا؟ دل ڈھونڈتا ھے پھر وھی فرصت کے رات دن،پھرتے رھیں گھر گھر آپا بنے ھوئے !