ھمیں شیخ جی آپ جیسے اللہ والوں سے اللہ بچائے !
انسان کے خالق نے فرمایا ھے کہ انسان تھُڑ دلا پیدا کیا گیا ھے! بات کچھ یوں ھے کہ جو شخص بھی چار سجدے کر لیتا ھے،،جنت کے دروازے کے سامنے بیریئر لگا کر کھڑا ھو جاتا ھے،کہ میرے پیمانے پہ پورا اترو گے تو جنت جا سکو گے ! علامہ ابنِ جوزی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف تلبیسِ ابلیس میں لکھا ھے کہ سب سے بدترین اور خطرناک ترین تکبر نیکی کا ھے،، اس میں انسان اپنے اعمال کی بنیاد پر خود کو کنفرم جنتی سمجھ کر اللہ کی رحمت سے بے نیاز ھو جاتا ھے اور دوسروں کو اعمال کے پلڑے میں تول کراللہ کی رحمت سے مایوس کرتا پھرتا ھے،، وہ یہ بھول جاتا ھیں کہ انسان کا اللہ سے تعلق ماں باپ کا سا ھے،، آجر اور اجیر کا !نہیں ماں باپ تخلیق میں ایک سبب ھونے کی وجہ سے اولاد پر کتنے رحیم ھوتے ھیں،،کہاوت ھے کہ قاتل کی سب سے مخلص وکیل اس کی ماں ھوتی ھے،،، ساری آسمانی کتابوں میں اس کی مثال باپ کی محبت سے دی گئی ھے اور حدیث میں 70 ماؤں کی ،، کہیں مسیح علیہ السلام کسی گنہگار سے نرمی سے پیش آئے تو شاگرد مچل گئے کہ یہ تو گنہگار ھے ،،آپ اس پہ اتنی شفقت کا سلوک کیوں کرتے ھیں،، فرمایا ابھی ابھی میں نے تمہارا کوڑھ درست کیا ھے،لوگ تمہارے پاس کھڑا ھونا گوارہ نہیں کرتے تھے،، تمہارے بدن کو کوڑھ تھا ،،اس کی روح کو کوڑھ ھے،یہ بھی بیمار ھے اور تیرے جتنی شفقت کا مستحق،، کہیں عمرؓ جنازے کے سامنے کھڑے ھو کے ضد کر بیٹھتے ھیں کہ ائے اللہ کے رسول ﷺ یہ شخص اس قابل نہیں ھے کہ اپ اس کا جنازہ پڑھائیں، کسی اور کو یہ کام سونپ دیجئے ،، آپ نے رُخِ انور کو عمر فاروقؓ کی جانب سے پھیرا اور حاضرین سے سوال کیا” تم میں سے کسی نے اسے اھلِ اسلام جیسا کوئی کام کرتے پایا ھے؟ ایک شخص نے جواب دیا ائے اللہ کے رسولﷺ اس نے ایک دن لشکر میں رات کا پہرہ دیا تھا ،آپ نے فرمایا صفیں درست کر لو اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی،، جنازے کے بعد آپ ﷺ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا ،، ماتھے پر پیار سے ھاتھ پھیرا اور فرمایا” تیرے ساتھی سمجھتے ھیں کہ تو جہنمی ھے،حالانکہ میں گواھی دیتا ھوں کہ تو جنتی ھے،، اللہ اللہ مصطفیﷺ کو کیا دکھا دیا گیا تھا جو عمرؓ نہ دیکھ پائے تھے،، امام بخاری ھی یہ روایت بھی لائے ھیں کہ ایک شخص تھا جو غیر سنجیدہ سا تھا،کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا،، مگر جب کبھی نبی کریمﷺ کو پریشان دیکھتا تو کوشش کر کے کوئی حرکت یا بات ایسی کر دیتا جس پر آپ مسکرا دیتے اور آپ ﷺ کا موڈ خوشگوار ھو جاتا،، یہ صاحبؓ شراب کے عادی تھے اور کئی بار کوڑے کھا چکے تھے،، ایک دفعہ کوڑے کھا کے فارغ ھوئے تو ایک شخص نے کہا’ اللہ اسے رسوا کرے یہ کتنی دفعہ اس جرم میں لایا جاتا ھے،، آپ ﷺ نے ناراض ھو کر فرمایا ،،اپنے بھائی کے مقابلے مین شیطان کی مدد مت کرو،، اللہ کی قسم میں اسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا پاتا ھوں،، نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ اس شخص کی دنیا تبدیل ھوگئی،،وہ جسے کوڑے شراب نہیں چھڑا سکے تھے،، نبیﷺ کے ایک جملے نے اس کی شراب چھڑا دی،، پھر زندگی بھر پلٹ کر شراب کو منہ نہیں لگایا،، علامہ بدر عالم میرٹھیؒ نے ترجمان السنۃ میں اس پر سرخی جمائی ھے "گنہگار بھی اللہ اور رسولﷺ سے محبت کرنے والا ھو سکتا ھے،،، اختر شیرانی کے نام سے برِ صغیر میں کون واقف نہیں ! کس پائے کے شاعر اور کس درجے کے شرابی تھے! حکیم سید محمود احمد برکاتی صاحب ان کے بارے میں ایک وقعہ بیان کرتے ھیں کہ ، ان کے چچا جو کہ ایک مدرسے کے اخراجات بھی برداشت کرتے تھے،، انہوں نے ایک مشاعرے کا اھتمام کیا،، حکیم ؐمحمود لکھتے ھیں کہ شیرانی صاحب کی وجہ سے ھم سارے نوجوان اسٹوڈنٹ بھی شاملِ مشاعرہ تھے اور دینی مدرسے کے نوجوان بھی ھماری دیکھا دیکھی شریکِ محفل تھے،، اختر شیرانی جو شراب سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتے تھے،، مگر مدرسے کے اساتذہ اور طالبِ علموں کے احترام میں اپنی کُپی جس کو ادھا کہتے تھے، مردانے کے ایک طاق میں چھپا کر آگئے،، تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھ کر جاتے اور چُسکی لگا کر واپس آ جاتے ! عام لوگوں نے تو اس طرف کوئی توجہ نہ دی مگر ایک مولوی صاحب یہ بات تاڑ گئے، ، ان کی رگِ جہاد جو پھڑکی تو طاق کی جانب روانہ ھوئے،،ادھر شیرانی صاحب کی چھٹی حس نے بھی خبردار کیا اور وہ مولوی کے پیچھے لپکے،، مولوی صاحب ادھا اٹھا کر بھاگ پڑے،، اور پیچھے پیچھے شیرانی صاحب بھی،، مولوی صاحب بھاگ کر مسجد کی سیڑھیاں چڑھے اور مرکزی دروازے پر جا کھڑے ھوئے،، ان کے پیچھے اختر شیرانی بھی سیڑھیاں چڑھنے لگے ،،مگر پہلی سیڑھی پر قدم جو رکھا تو یوں لگا جسیے ان کو بجلی کا جھٹکا لگا ھے،،70 سال پرانی بات ھے مگر منظر آج بھی اسی طرح دل و دماغ پر نقش ھے،، وہ کچھ دیر تو سکتے کی کیفیت مین رھے ،لگتا تھا ان کے پاؤں کسی چیز نے جکڑ لیئے ھیں !وہ جھرجھری لے کر الٹے پاؤں سیڑھی سے اترے اور کرارے لہجے میں بولے مولوی صاحب نیچے آ جاؤ،، شرم کرو شرم،،اس ناپاک بوتل کو لے کر مسجد مین داخل ھو گئے ھو،، مجھے دیکھو ایک سیڑھی سے زیادہ چڑھا نہیں گیا،،اللہ مجھے اس سیڑھی پر چڑھنا معاف فرمائے،، اس کے بعد ایک خاص کیفیت میں چچا جان کی طرف متوجہ ھوئے ” اظہر میاں ! آپ لوگ طلبہ کو دین کی تعلیم دیتے ھیں تو ان کی تربیت بھی کیا کیجئے !! شراب ناپاک ھے ، حرام ھے،گندی چیز ھے ،میں سیاہ کار شرابی ھوں،مگر شراب کی حرمت کا اسی طرح قائل ھوں جس طرح آپ یہ طلبہ اور علماء ھیں،، بزرگوں کی تربیت کام آئی ھے، میں گنہگارمدھوشی میں بھی مسجد کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکا،، اور یہ مولوی صاحب شراب لئے مسجد میں داخل ھو گئے،، اب مولوی صاحب بھی نیچے اتر آئے،وہ حیران حیران اور سہمے سہمے سے تھے ! انہوں نے کوشش کی کہ وہ بوتل شیرانی صاحب کو لوٹا دیں،،مگر شیرانی صاحب نے دبنگ لہجے میں فرمایا،، مولوی صاحب اس بوتل کو اب نالی مین پھینک دو،، اس نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کر دی ھے، اب یہ میرے قابل نہیں یہ کہا اور بوتل مولوی صاحب سے لے کر زور کے ساتھ دیوار پر مار کر توڑ دی،، ساتھ وہ زار و قطار رو بھی رھے تھے،، عجیب ایمان بھری کیفیت پیدا ھو چکی تھی،، وہ دن تھا کچھ ایسا قبولیت کا تھا،اور اللہ کو شیرانی صاحب کا یہ ادب کچھ ایسا بھایا کہ پلٹ کر شراب کی طرف دیکھا تک نہیں،، یہ قبولیت کے لمحے ھوتے ھیں،، اور اللہ کا مزاج شاہانہ مزاج ھے،، ذرا سی بات پہ بے بہا عطا کر دیتا ھے،، حدیث قدسی ھے کہ ایک نیک صاحب روزانہ ایک بدکار کے اس سے گزرتے اور اسے اس برائی سے منع کرتے،مگر وہ صاحب تھے کہ باز آ کر نہ دیتے، آخر اس نیک ادمی کو بہت غصہ آیا ،اس نے غضبناک ھو کر فرمایا” اللہ کی قسم اللہ تجھے کبھی نہیں بخشے گا” نبی کریم ﷺ فرماتے ھیں کہ اس کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے دونوں کی جان قبض کر لی اور اپنے حضور ان کو پیش کر لیا،، بدکار سے فرمایا ” تو میری رحمت کے ساتھ جنت میں جا،، اور نیک سے فرمایا تجھے کس چیز نے یہ جرأت بخشی کہ تو مجھے اپنی قسم کا پابند کرے؟ اور اسے جہنم میں ڈال دیا گیا،،، نیکی اچھی چیز ھے مگر وہ ھمارے لئے ھے،، اللہ پر کوئی احسان نہیں ھے کہ جس کی بنیاد پر انسان شوخا ھو جائے،، انسان کو انسان کے خالق کے حوالے رھنے دو،، ان کے درمیان مت آؤ ،، اللہ کی بے نیازی کچل کے رکھ دے گی! متفق علیہ حدیث بطاقہ تو سب کو یاد ھوگی،، وہ شخص جس کے اعمال نامے کے 99 پرنٹ نکلیں گے جو مشرق سے مغرب تک ھوں گے ،،اور سارے برایوں سے بھرے ھوں گے،، بندہ ان کو دیکھ کر خود ھی جہنم کی طرف چل پڑے گا مگر اللہ اسے روک کر کہے گا تیرا تھوڑا سا حساب باقی ھے،اسے چکا کر جاؤ،،آج کسی کا حق نہیں مارا جائے گا،، پھر ایک پرزہ( بطاقہ ) نکالا جائے گا جس پر کلمہ طیبہ لکھا ھو گا جو کہ اس شخص نے بڑے خلوص سے پڑھا ھوا ھو گا،، فرمایا جائے گا،،ان 99 اعمال ناموں کے برابر اس بطاقے کو رکھ دو ،، وہ پرزہ ان تمام99 عمل ناموں سے وزنی ثابت ھو گا ! حشر کا دن حشر کا دن ھو گا،،بھائیو آنے تو دو،، حشر کے فیصلے دنیا مین ھو ھی نہیں سکتے،، مسلم شریف کی آخری حدیث،، لو لم تذنبوا ،، لذھب اللہ بکم، ،، اگر گناہ تم سے سر زد نہ ھوں تو اللہ تم کے لے جائے،، مار دے،،ختم کر دے،، پھر ان لوگوں کو پیدا فرمائے جن سے گناہ سرزد ھوں ،،پھر وہ اللہ سے توبہ کریں اور اللہ ان کو معاف فرمائے ! اپنی نمازوں کو دوسروں کی جنت کا بیرئیر نہ بنائیں،، دعا کیا کرین اللہ پاک ھماری نیکیاں قبول فرما لے،، اور گناہگار کی دعا میں شامل ھو جایا کریں وہ بڑے خلوص سے دعا مانگتا ھے ،کیونکہ مریض جس طرح سچا روتا اور تڑپتا ھے،، نقل اتارنے والا ایسا نہیں ھو سکتا