کیا ھمارے مدارس معاشرے کو وسیع النظر عالم فراھم کر سکتے ھیں ؟
اگر دینی مدارس میں پڑھے لکھے اور کھاتے پیتےگھرانوں کے بچے بھیجے جائیں تو کیا مدارس کے ماحول اور مساجد کی صورتحال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی واقع ھو سکتی ھے؟ کیا وھاں سے فارغ ھونے والا طالب علم روشن خیال ھو سکتا ھے،،روشن خیال سے مراد یہ نہیں ھے کہ وہ صدیوں سے رائج تعلیم کا منکر بن جائے،اسے غلط کہے، یا اس سے ھٹ جائے ،،یہ ایک ناممکن بات ھے،، روشن خیالی کا مطلب قوت برداشت میں اضافہ ،،دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کرنا یعنی اس کے دلائل کو جگہ دینا ھے، یعنی ھر مکتبہ فکر کو اکاموڈیٹ کرنا ھے ،، آپ اگر الاتحاد ائیر لائن مین سفر کر رھے ھیں،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ لاؤنج میں ،ائیر بلو اور پی آئی اے والوں سے اپنی ائیرلائن کی خوبیوں اور دوسری ائیر لائن کی خامیوں پر بحث مباحثہ اس حد تک لے جائیں کہ لاؤنج کے اندر ھی دست و گریباں ھو جائیں،، خوبیاں بیان بھی کی جا سکتی ھیں اور خامیاں گنوائی بھی جا سکتی ھیں،،مگر کسی کے ترک و اختیار پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی ! اس سوچ کا نام روشن خیالی ھے ! اور اس کے مخالف نقطہ نظر کو تنگ نظری کہا جاتا ھے !
بعض لوگ بڑے وثوق سے یہ دعوی کرتے ھیں کہ اگر بہتر میٹریل فراھم کیا جائے تو بہترین پراڈکٹ تیار ھو سکتی ھے ،، بہت سارے احباب اس نقطہ نظر سے متفق بھی ھوں گے، مگر میرا تجربہ کچھ اور کہتا ھے،، میرا تجربہ یہ کہتا ھے کہ اگر آپ مدارس کو موجودہ نصابِ تعلیم اور اساتذہ کے موجودہ مائنڈ سیٹ کے ساتھ یورپ کے اے لیول کے بچوں سے بھر دیں تو جب وہ بچہ وھاں سے نکلے گا تو ،اس کے مائنڈ سیٹ اور فاٹا کے کسی دور دراز گاؤں سے آنے والے اس کے ھم سبق کے مائنڈ سیٹ میں رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہیں ھو گا،، آپ جب کاپی نکالنا چاھتے ھیں تو پیپر کی کوالٹی سے تحریر پر کوئی فرق نہیں پڑتا !
تفصیل اس اجمال کہ یہ ھے کہ میرے ایک اعزازی شاگرد ھیں،، میرے پڑوس میں پیدا ھوئے،یہاں یو اے ای میں تعلیم مکمل کی ،،پاکستان تشریف لے گئے ، آج تک جتنے ایم اے دریافت ھوئے ھیں سارے ختم کر بیٹھے ھیں جس میں ایم اے انگلش لٹریچر بھی ھے،مجھ سے چیٹ کرتے وقت ان کو اردو اور رومن اردو میں چیٹ کرتے ان کو دقت ھوتی ھے،،،انگریزی کو ترجیح دیتے ھیں، کسی مضمون میں پی ایچ ڈی کی بھی شنید تھی اور دینی تعلیم کے تمام مراحل طے کر کے مفتی بھی بن چکے ھیں ،، ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ھیں، اور اسلام اباد میں رھائش پذیر،، والدین کے اکلوتے ھونے کی وجہ سے دنیا کی ھر چیز منہ سے نکلتے ھی فراھم کر دی جاتی تھی اور اب بھی صورتحال کچھ ایسی ھی ھے،،ایسا شاندار اور لائق بچہ صرف عمیرہ احمد کے افسانوں میں ھی ملا کرتا ھے،،یعنی 150 پلس کی آئ کیو والا ،،،
مگر اس ساری تعلیم اور ایم ایز کی لسٹ نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا،، روشن خیالی کا یہ عالم ھے کہ لڑکی پسند کر کے، بات چیت کر کے منگنی کا فیصلہ ھو گیا، لڑکی کے والدین کو بتا دیا گیا کہ فلاں تاریخ کو منگنی کرنے آرھے ھیں،تیاری کر لیں،لڑکی والوں نے تیاری کر لی،، مگر یہ منگنی نہ ھو سکی ! کیونکہ اس دوران کہیں سے پتہ چل گیا کہ لڑکی نے الھدی سے کورس کیا ھوا ھے ! بس ساری تعلیم کے اندر سے دولے شاہ کا چوھا نکل کر سامنے آ گیا،،بائی دا وئے اگر اس بچی نے الھدی سے غلطی سے کورس کر لیا ھو گا،تو فرق کہاں پڑا ھو گا؟ لڑکی نے رفع یدین شروع کر دیا ھو گا،، تو مفتی صاحب کے پاس علم تھا،اثر ورسوخ بھی ھوتا تو لڑکی کو قائل کر لیتے،، جو اپنی بیوی کو قائل کرنے کی ھمت نہیں رکھتا،دنیا کو کیا قائل کرے گا؟ آپ جانتے ھوں گے کہ گیرج والا اور مکینک ھر میک اور ماڈل کی گاڑی خرید لیتے ھیں کہ میں خود مکینک ھوں ،،بنا لوں گا،،ان مفتی صاحب سے وہ مکینک زیادہ دلیر اور پر اعتماد ھوتا ھے،،یہ ھمارے مدارس کی پراڈکٹ تھی ،حالانکہ میٹریل بہت اعلی تھا !
میرے دوست کے بچے ھیں،، امریکہ میں پیدا ھوئے، امریکن نیشنل ھیں، النہدہ اسکولز میں پڑھے ھوئے ھیں،، والد صاحب رئیس المھندسین ھیں،، پورا گھرانہ تعلیمیافتہ ھے،، دادا جان سے لے کر تایا تک،، میں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کے مدارس کا ماحول ذرا تنگ نظر ھے، بچوں کو ساؤتھ افریقہ بھیج دیں ،، دونوں بچے ساؤتھ افریقہ سے 7 سال لگا کر آ گئے،، رمضان کا مہینہ تھا،، افطار پارٹی کے بعد فارغ ھو کر نمازِ مغرب کے لئے جا رھے تھے، رستے میں سڑک کراس کرتے ھوئے،کسی موضوع پر بات چل رھی تھی تو مولانا مودودیؒ کا ذکر ھوا،، بڑے بھائی نے فوراً فتوی دیا کہ مودودی کوئی عالم تھا، وہ تو گمراہ آدمی تھا،، میں تو سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے کا کھڑا رہ گیا،اگر دوسرا آدمی دھکا نہ دیتا تو مین گاڑی کے نیچے آ گیا ھوتا !
اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس نصاب تعلیم اور اس تنگ نظری کے حامل اساتذہ کے زیر نگرانی مدارس آپ لندن،واشنگٹن،نیو یارک یا جوھانسبرگ میں بنا لیں اور کتنی ھی پڑھی لکھی فیملی کا بچہ ان کے حوالے کر دیں وہ آپ کو ایسا ھی ایک تنگ نظر عالم تیار کر کے پکڑا دیں گے جو سب سے پہلے اپنے والد کی گمراھی کا فتوی دے گا ،،
یہ ایسی حقیقت ھے جس سے کوئی مفر نہیں ھے،، اور اس کو بدلنے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھنا پڑے گا،، شوگر کی بیماری کی طرح یہ دائمی مرض ھے،، یہ ھاسپٹل ڈیزیز ھے جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو لگتی ھے،،یہ تنگ نظری کا مرض مدارس کا مرض ھے جو اساتذہ اور طلباء کو لگتا ھے،، علاج اس لئے مشکل ھے کہ یہ قران و حدیث پڑھ پڑھ کر ھی تو بھرا جاتا ھے !