بریلویت اور دیوبندیت میں اتفاق کی کوئی صورت ؟
بریلویت اور دیوبندیت میں فرق کہاں ھے! الحمدُ للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین امۜا بعد ! ادارہ اخوان المومنین نے "العطایا النبویۃ ،الفتاوی الرضویۃ ” کی جلدِ دھم کا پہلا نصف پبلش کروایا ھے،،اس کو چھپوانے والے نے اس کے دیباچے میں لکھا ھے کہ مروجہ بریلویت بذاتِ خود احمد رضا بریلوی کے فتاوی کے خلاف اور ان کی بدنامی کا باعث ھے،، آج کے بریلوی کو نمونہ بنا کر جو گالی احمد رضا کو دی جاتی ھے وہ ایک ظلم سے کم نہیں ،، ولا تزرُ وازرۃ وزر اخری ” کے قرآنی اصول کے خلاف ھے ! اب ذرا پڑھئے "کتاب ھذا کے مطالعے سے پہلے احقر باوجود جدی پشتی اھلِ سنت بریلوی ھونے کے” امام احمد رضا خاں بریلوی” سے متنفر ھو گیا ! اس کے ذمہ دار بریلوی بھائی ھی تھے،کیونکہ انہوں نے آپ کا تعارف ھی ایک نعت خوان اور بات بات پر کفر کا فتوی لگانے والے کی حیثیت سے کرایا تھا،، وہ اپنی بدکرداری و بے عملی کے لئے امام احمد رضا کے نام کو بطورِ ڈھال استعمال کرتے رھے تھے- انہوں نے آپ کے اُن ھی خطوط(رسائل) کی اشاعت پر زور دیا جن میں فاتحہ و درود،تیجہ،چالیسواں وغیرہ وسائل کا بیان تھا،جن سے بلا محنت و مشقت ان کی روٹی میں وسعت ھو سکتی تھی – ھمارے واعظ اور پیر حضرات کی علمی و عملی حیثیت بہت کمزور ھے،،وہ بیمارے دین کی دال بھی نہیں جانتے،دوسروں کو کیا سمجھائیں گے ! رسول اللہﷺ اور اولیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے پاکیزہ منبر پر سچ سے زیادہ جھوٹ سے کام لیا جاتا ھے، اس بھولی بھالی قوم کو خوب بیوقوف بنا کر عقل و فکر سے عاری کر دیا گیا ھے،، محبانِ رسولﷺ کے پاکیزہ منبر پر وہ واعظ ھی کامیاب ھوتا ھے جو زیادہ جھوٹ بولے،،ٹھٹھہ مذاق کرے۔ ھنستا ھنساتا اور روتا رلاتا ھو ،، ھماری درسگاھوں میں بھی زیادہ اھمیت فنِ تقریر کو دی جاتی ھے،، بلکہ یوں کہیے کہ وہ فنکار اور گلوکار تیار کرنے کے کارخانے بن گئے ھیں ! موجودہ دور میں مقرر کے پاس اردو کی مولانا محمد بشیر کی بارہ تقاریر کا سیٹ۔۔مولانا محمد شریف نوری کی بارہ تقاریر،، مولانا نور محمد صاحب کی مواعظِ رضویہ کا سیٹ اور قاری محمد دین صاحب کا الخطیب کتابیں ھونی چاھئیں،، بس جناب خطیبِ اعظم،، مبلغ اسلام،یعنی صقلِ اسلام تیار ھیں،، یہ گروہ پورے ملک میں پھیلا ھوا ھے،،یہ لوگ اصولِ دین اور فروعِ دین سے نالکل بے پرواہ ھوتے ھیں،، ان کا نظریہ یہ ھے کہ یا رسول اللہ کہنا،،علی علی کرنا، یا غوث الاعظم کے نعرے لگانا ھی عبادت ھے،،یہ گروہ بہت خطرناک ھے ،یہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں ڈیرے جما کر بیٹھ جاتے ھیں ،بھنگ ،چرس،افیون، بلکہ شراب تک پیتے ھیں ان لوگوں کو اگر کوئی ملامت کرے تو فوراً گستاخ رسول اور گستاخِ اولیاء کا واویلا کر کے اور بہتان لگا کر لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکاتے ھیں،،نتیجۃ وہ بے چارہ بھاگنے پر مجبور ھو جاتا ھے یا جان سے ھاتھ دھو بیٹھتا ھے ،،پہلا اور تیسرا گروہ دراصل شیعہ کے زیادہ قریب ھے، ،، مخالفین ان دونوں گروھوں کو بھی بریلوی سمجھتے ھیں اور ان کی خرافات اور بدعات و بدکرداری دیکھ کر کہہ دیتے ھیں کہ بریلوی بدعتی ھیں،،، حالانکہ یہ حضرات بریلوی نہیں کیونکہ بریلوی وہ ھیں جو امام احمد رضا کی تعلیمات پر عمل پیرا ھیں،،اور احمد رضا ردِ بدعات میں دیوبندی اور اھلِ حدیث حضرات سے چند قدم اگے ھیں ! لیکن جب میں نے فتاوی رضویہ کی دسویں جلد کے نصفِ اول کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو وہ تمام شکوک و شبہات دور ھو گئے جو امام احمد رضا بریلویؒ کے خلاف میرے دل میں تھے،اس کتاب کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوبندیوں اور بریلویوں مین اختلاف صرف چند متنازعہ عبارات کا ھے اس کے علاوہ اس کے علاوہ ان میں کوئی اختلاف نہیں ھے یعنی یہ جو شرک اور توحٰید کا راگ الاپا جاتا ھے،اس میں کوئی حقیقت نہیں ھے، دیوبندی بریلویوں سے بڑھ کر بریلوی اور بریلوی دیوبندیوں سے بڑھ کر دیوبندی ھیں،، دونوں کی فقہ اور امام ایک ھے،، دونوں کے مدارس مین پڑھائی جانے والی کتب ایک ھیں،، دونوں تصوف کے دل دادہ ھیں اور پانچوں سلاسل دونوں مين موجود ھیں،نقشبندیہ،سہر وردیہ،چشتیہ وغیرہ سلاسل میں سب کے بزرگ ایک ھیں،،لطائف اور مشقیں ایک ھیں،، یہانتک کہ جتنے اختیارات دیوبندی قطب اور غوث کے ھیں وھی اختیارات بریلوی قطب کے ھیں،، بلکہ بریلوی عموماً پرانے قطبوں اور بزرگوں سے کام چلا رھے ھیں،جبکہ دیوبندیوں کے مدارس میں پڑھانے والا ھر مدرس قطب ھے،مثلاً شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے سارے بیٹے،شیخ الہند، قاسم نانوتویؒ، انور شاہ کاشمیریؒ،احمد علی لاھوریؒ، عبدالقادر رائے پوریؒ،حسین احمد مدنیؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ یہ سارے اپنے وقتوں کے قطب تھے،اور ان میں سے بعض جھٹ کسی ڈوبتے جہاز پر کسی کی پکار پر پہنچنے والے ،،بعض مرنے کے بعد کسی مناظرے مین خامشی سے پہنچ کر مناظر کے کانوں میں دلائل پھونکتے تھے اور بعض کسی کے سینے میں پائے جانے والے وسوسوں سے بھی آگاہ ھوتے تھے ( تفصیل دیکھنی ھو تو حکایاتِ اولیاء کتاب دیکھ لیں،سستی بھی ھے اور ھر اسلامی بک شاپ کی روحِ رواں بھی ھے،اشرف علی تھانوی اس کے مصنف ومؤلف ھیں)،، دونوں فریق مردوں کی قبروں پر چلہ کشی سے استفادہ کرتے ھیں،، دونوں مردہ بزرگوں کے تصرف کے قائل ھیں،، دونوں فریق قطبوں اور غوثوں کے اختیارات کے چارٹ پر مکمل اتفاق رکھتے ھیں ! پھر توحید کیا ھے؟ اور شرک کیا ھے؟ دونوں میں موحد کون ھے
اور کیوں ھے؟؟ شرک اور توحید کا رونا اصل میں اپنے اپنے بزرگوں کی عبارات کا دفاع کرنا ھے،،اپنے بزرگوں کی خاطر نبیﷺ کی امت کو توڑ کر رکھ دیا گیا ھے،، اگر اپنے ان بزرگوں کی تحریر میں پائی جانی والی سوء تعبیر پر مبنی چند عبارات کو نکال دیں یا کم از کم ان سے اعلانِ برأت کر دیں تو امت کے یہ دونوں دھڑے اتفاق کے ساتھ بہت ساری برائیوں کے خاتمے اور دینِ حنیف کے قیام و استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتے ھیں،، اگر نبی کریم ﷺ کافروں سے امن کے لئے جناب حیدر کرارؓ کے دستِ مبارک سے سےلکھا محمد رسول اللہ اپنے دستِ مبارک سے کاٹ کر محمد بن عبداللہ کر سکتے ھیں تو امتِ مسلمہ کے دو عظیم دھڑے اس دین کی خاطر اپنے بزرگوں کی عبارات کو قرآن بنا کر کیوں بیٹھ گئے ھیں؟ ان عبارات کو نکالنے کے لئے ایک ضابطہ بنا لیا جائے،،، مثلاً
ایسی عبارات جن میں اللہ پاک کی شرعاً یا عرفاً توھین کی گئی ھو !
ایسی عبارت جس میں کسی نبی کی توھین کی گئی ھو !
قران کی کسی آیت کی وہ تشریح جس میں نبی پاکﷺ کی ختمِ نبوت پر کو ئی زد پڑتی ھو ،،
،کسی آیت یا حدیث کی وہ تشریح جس سے اجماع پر زد پڑتی ھو !
ایسی عبارت جو کسی نص صحیح کے خلاف ھو
ایسی عبارت جو فریقین کے کسی بزرگ کی توھین پر مبنی ھو !
ایسی عبارت جس سے کسی ضرورتِ دینی کا انکار لازم اتا ھو !
ایسی عبارات جن میں شعائر اللہ کا مذاق اڑایا گیا ھو!
کسی بزرگ کی ایسی عبارت جس مین ملک وملت کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ھو !
ایسی عبارت جس مین فریقِ مخالف کو گالیاں دی گئی ھوں !
اگر ایسا ھو جائے تو یہ دونوں عظیم دھڑے مل کر شیعہ مجاوروں سے مزاروں کا قبضہ چھڑوا کر 90٪ قباحتوں کا خاتمہ کر سکتے ھیں،،