ھمارے دیہات اور ھم !
لیڈیز اینڈ جنٹلمین ! جس شخص نے دیہاتی زندگی کا مزہ نہیں چکھا،سمجھ لیں کہ وہ آدھا پیدا ھوا ھے اور اس زندگی کے متعلق اس کا علم بھی آدھا ھے اور زندگی کی طرف اس کا رویہ بھی لولا لنگڑا اور پولیو زدہ ھے، دیہات کی زندگی اپنے اندر سارے رنگ رکھتی ھے ،دیہاتی زندگی کی اصلیت کی اس سے بڑھ کر دلیل کیا ھو گی پرانے زمانے میں شہروں میں کوئی بھی پیدا نہیں ھوتا تھا،بلکہ لوگ دیہات میں پیدا ھو کر شہر میں جاتے تھے اور شہر بناتے تھے، اللہ پاک نے اپنے دین کے لئے بھی بڑے بڑے ترقی یافتہ شہر چھوڑ کر ایک دیہاتی بستی کو منتخب فرمایا،، دیہات کے لوگ بڑے کھرے ھوتے ھیں،” جب پیار کیا تو پیار کیا،جب نفرت کی تو سروس کی ” دیہات کا ھی مقولہ ھے، وھاں دل میں رکھنے کا رواج ھی نہیں فوراً سر بازار بھڑاس نکال لی جاتی ھے،جس کا فوری فائدہ تو یہ ھوتا ھے کہ دل پر بوجھ نہین رھتا جسکی وجہ سے دیہات کے لوگ صحتمند ھوتے ھیں،دوسرا فائدہ طویل الامد ھوتا ھے کہ سند بڑی آسانی سے مل جاتی ھے کہ کس کے ساتھ کیا ھوا تھا اور کب ھوا تھا! بدنام ِ زمانہ چینل جیو شپروں میں تو بہت بعد میں آیا ھے،جبکہ دیہات میں یہ بہت پرانا ھے،دیہاتی جیـــو نیوز کی نشریات میں لؤڈ شیڈنگ کبھی مخل نہیں ھوتی، بلکہ ایک صاحب کی چڑیا کی خبر کے مطابق تو یہ بجلی دریافت ھونے سے بھی پہلے کی ایجاد ھے ! دروغ بر گردنِ راوی اتنی گواھی تو ھم بھی دیتے ھیں کہ ھمارے گاؤں میں بجلی 1980 کی دھائی میں آئی ھے،مگر ھم اس دیہاتی چینل کی نشریات 1960 کی دھائی سے سنتے آ رھے ھیں،، بلکہ وہ نشریات تو اتنی ھمہ جہتی اور ذو معنی ھوتی تھیں کہ ھم آج تک ان کاترجمہ اور تشریح کرنے کا حق ادا نہیں کر پا رھے ! دیہات میں ھر فرار ھونے والی لڑکی ماں کو بتائے یا نہ بتائے ،مگر باقی پورے گاؤں کی شادی زدہ یا کنواری لڑکیوں کو ضرور اپنی کہانی بتا کر جاتی ھے، جس سے لڑکی کی ماں کا متفق ھونا اسی طرح ضروری نہیں جسطرح ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ھوتا،، بلکہ بعض خواتین تو لڑکی کی ماں کو لعن طعن بھی کرتی ھیں کہ تم کسی ماں ھو کہ تمہاری بیٹی ھمارے ساتھ دکھ سکھ بانٹتی پھرتی تھی اور تمہیں خبر تک نہیں ! جانے سے پہلے وہ رستے میں ملنے والی ھر لڑکی کو سوزوکی میں سے ھاتھ نکال کے سلام بھی کر کے جاتی ھے،، بلکہ جو لڑکی رستے میں نہ ھو وہ اس سلام کو مدرسے میں بھی وصول کر لیتی ھے ،جسطرح اسلام آباد اسٹوڈیو سے شیخ رشید ،لقمان مبشر کو جوائن کرتا ھے،، کسی حادثے میں مرنے والا چاھے وہ ٹریکٹر کے نیچے آ کر شہید ھو یا عشق میں ناکامی پر گولیاں کھا لے یا ڈوب کر مرے،، مرنے سے ایک دن پہلے بلکہ ایک گھنٹہ پہلے گاؤں کے سارے کنوارے اور شادی زدہ بوڑھے،سب سے ضرور ملتا ھے،یا کم از کم سب کا دعوی یہ ھی ھوتا ھے،اور ان سب کو اپنی کہانی اس شرط پر سناتا ھے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد بیان کی جائے، یہ الگ بات ھے کہ ھر بندے کے پاس اس کہانی کا اپنا ورژن ھوتا ھے اور ھر بندہ اس کو کھرے سچ کے طور پر پیش کرتا ھے ! دیہات کے لوگ بڑے بامروت ھوتے ھیں، ھر کسی کے دکھ درد میں ضرور شریک ھوتے ھیں،اگرچہ اس شراکت کی زیادہ تر دلچسپی خبر بریک کرنے کی نیت سے ھوتی ھے،ایک تعزیتی مجلس میں جسے دیہاتی زبان میں "پُھہڑی ” کہتے ھیں ھمیشہ مرنے والے کی تعریف کی جاتی ھے،بلکہ اس کے وہ وہ کارنامے بیان کیئے جاتےھیں کہ مرحوم کے لواحقین بھی شرما جاتے ھیں،، ایک صاحب فوت ھو گئے، اب ان کو سارا گاؤں جانتا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کسی کا بھلا نہ سوچا اور نہ کرنے کی کوشش کی،، ساری پھُہڑی سکتے میں بیٹھی تھی اور پِن ڈراپ سائلینس کا سا سماں تھا کہ ،، نائی کی غیرتِ ایمانی اور مروتِ دیہاتی نے انگڑائی لی،کہنے لگا ھر بندے کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ھے،جتنے منہ اتنی باتیں،کوئی کسی کی زبان تو بند نہیں کر سکتا مگر میں ایک بات جانتا ھوں کہ مرحوم کی شیو بڑی نرم تھی، نرم کیا تھی بلکہ ملائی تھی ملائی،، مجھے تو یوں لگتا تھا مکھن میں استرا مار رھا ھوں،، اب جس کی شیو اتنی نرم تھی اس کے دل کا کوئی اندازہ کر سکتا ھے کہ وہ کتنا نرم ھو گا؟ اور جس کا دل نرم ھوتا ھے اس کی جان بھی بڑی آسانی سے نکلتی ھے ،یعنی عزرائیل کا استرا بھی ملائی کی طرح چل جاتا ھے، نائی کے اس قیاس پر پوری مجلس عش عش کر اٹھی،اور مرحوم کے بیٹے تو احسان مندی میں اسے دور تک رخصت کرنے گئے کہ مبادا رائے کو تبدیل ھی نہ کر لے ! اس کو کہتے ھیں کہ انسان کی سوچ مثبت ھو تو مثبت دلیل بھی مل ھی جاتی ھے ! شہر والوں سے گزارش ھے کہ پہلی فرصت میں قریب ترین دیہہ میں اپنی بکنگ کرا لیں،،کم از کم مرنے کے بعد نیک نامی کا سرٹیفکیٹ تو آسانی سے مل جاتا ھے،،