مکھی کیسے نگلی جاتی ھے !
بسم اللہ الرحمٰن الرۜحیم ! آپ جانتے ھیں کہ مکھی ایک مکروہ چیز ھے ،جس کا نام ھی کراھت کے لئے کافی ھے، مگر آج میں اپ کو وہ طریقہ بتاتا ھوں کہ مکھی کیسے نگلی جاتی ھے ،، ھمارے محدیثین کے نزدیک ایک ضعیف حدیث اگر تلقی بالقبول حاصل کر لے یعنی علماء میں مشہور و مقبول ھو جائے تو اسکی سند کو نہیں دیکھا جاتا اور اس کو قبول کر لیا جاتا ھے،، یہ ھے آسان طریقہ مکھی نگلنے کا،،اگر جھوٹ مشہور ھو جائے اور اس فیلڈ کے لوگ اس کو مان لیں تو سمجھ لیں کہ وہ سچ ھو جاتا ھے،،کتنا آسان نسخہ ھے باطل کو حق بنانے کا ! آج جتنی بدعات چل رھی اور پھیل رھی ھیں،، ان کو چلانے اور پھیلانے والے یہی علماء حضرات ھی ھیں،، کوئی سیاست دان نہیں،،اور یہ بدعات کچھ اس طرح معاشرے میں تلقی بالقبول پا چکی ھیں کہ بخاری کی قوی سے قوی حدیث بھی اس مقبولیت کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ھے ،،
آگے چلئے ،، کتابوں میں جائیں تو جی چاھتا ھے کہ انسان دیوار سے سر ٹکرا دے،جب نبیﷺ کے حکم کو علماء اپنی رائے سے روند رھے ھوتے ھیں اور نبیﷺ کا فتوی آ جانے کے بعد اس پر تنقید کر رھے ھوتے ھیں،، یہانتک کہ قرآن کو بھی مشکوک بنا دیا گیا ھے،اور جس کی حفاظت پر اللہ ،رسولﷺ اور پوری امت کا اجماع ھے اس کو بھی غیر محفوظ بتایا جاتا ھے،یہ بات عموماً شیعہ کی طرف منسوب کی جاتی ھے مگر شیعہ اس معاملے میں ھمارے علماء کے آگے پانی بھرتے نظر اتے ھیں ،،
میرے قلیل مطالعے اور ناقص علم کے مطابق اجماع صرف اور صرف قرآن کی حفاظت اور نبیﷺ کی ختمِ نبوت پر ثابت ھے، اس کے علاوہ دین کی کسی بات پر امت میں اجماع نہیں ھے،،وہ نماز جو مکہ میں فرض ھوئی اور اسلامی فرائض میں سب سے پہلے فرض ھوئی ،اور پوری امت صدیوں سے اس کو دن میں کئی بار ادا کرتی ھے،،اگر اسکی ایک رکعت میں بھی اجماع نہیں ھو سکا تو پھر اور کس چیز پر اجماع ھو سکتا ھے،، تکبیرِ تحریمہ سے لے کر سلام تک ھر رکن اور فرض و واجب پر کئی قسم کے اختلاف ھیں، صحابہؓ کے اقوال میں بھی اور آئمہ کی رائے میں بھی اور اماموں کا وجود اس اختلاف کا بین ثبوت ھے،،امامت اصل میں نظریاتی اختلاف کا انسانی وجود ھے ،اگر اجماع ھوتا تو پھر ایک ھی امام ھوتا ،، وہ جو نبیوں اور رسولوں کا بھی امام ھے،،محمد الرسول اللہ ﷺ،،، تو جب نماز میں نیت سے لے کر سلام تک کسی بات پر اجماع ثابت نہیں تو پھر کسی اور بات میں اجماع کا دعوی عبث ھے !!
احکام شریعت میں قرآن اس وقت عملاً وھاں کھڑا ھے جہاں کبھی تورات ھوا کرتی تھی،، اور احادیث شریفات اور اقوالِ ائمہ حضرات ٹھیک وھی مقام پا چکے ھیں جو تلمود کو حاصل تھا اور خدائی اختیارات کا جو منظر کبھی یہود کے فریسیوں میں نظر آتا تھا،وہ ھمارے علماء میں بدرجہ اتم نظر آتا ھے ،،اس کی ایک مثال دیکھ لیجئے تا کہ آپ کی تسلی ھو جائے ،،،
امام بخاریؒ نے ایک حدیث روایت کی ھے کہ عُقبہ ابن الحارثؓ نے بیان کیا ھے کہ انہوں نے بنت ابی اھاب سے شادی کی ،،(یہ عقبہؓ مکے کے باسی تھے) ان کے پاس ایک عورت ائی ،جس نے یہ دعوی کیا کہ میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا ھوا ھے،، انہوں نے کہا کہ تم نے نہ تو مجھے پہلے بتایا اور نہ ھی مجھے پتہ ھے کہ تم نے دودھ پلایا ھے یا نہیں ! اس کے بعد یہ عقبہؓ مدینہ تشریف لائے اور نبی کریمﷺ سے فتوی پوچھا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ وہ جھوٹی ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا جب وہ کہہ رھی ھے کہ اس نے تم کو بھائی اور بہن بنا دیا ھے تو پھر سوائے جدائی کے کوئی رستہ نہیں اور آپﷺ نے شہادت اور درمیانی انگلی سے قینچی کی طرح کاٹنے کا اشارہ کیا کہ،یہ رشتہ کٹ گیا،،،،
حدیث بہت واضح ھے کسی ایچ پیچ کی ضرورت نہیں ھے،جو وضاحت ھو سکتی تھی وہ عقبہؓ نے کر دی تھی،،مثلاً ایک روایت میں وہ کہتے ھیں کہ اس نے ھم سے کھانا مانگا تھا اور ھم نے انکار کر دیا تھا،،اگلی صبح اس نے ھمیں بہن،بھائی بنا دیا،یعنی انتقاماً یہ دعوی کیا،مگر نبی کریمﷺ نے یہ وضاحت قبول کرنے سے انکار کر دیا ،،اور فیصلہ دے دیا ،،
اب جن لوگوں کے دماغ میں عورت کی آدھی گواھی پھنسی ھوئی تھی،وہ اس کو کیسے قبول کر لیتے کہ "ایک نامعلوم عورت جس کے کردار کا بھی کوئی پتہ نہیں،،سوشل اسٹیٹس یہ ھے کہ کھانا مانگ کر کھاتی ھے گویا بھکاری ھے،،مگر اس ایک اکیلی عورت کی گواھی کو نبیﷺ نے اتنی وقعت دی کہ صحابی کا قول رد کردیا اور طلاق کروا دی،،،،
اب دیکھیں صحیح حدیث کی حلیم کیسے بنتی ھے !
کہا گیا کہ بھلا یہ کیسے ھو سکتا ھے؟(حالانکہ ھو چکا ھے) امام شافعی فرماتے ھیں کہ رضاعت کے لئے چار عورتوں کی گواھی درکار ھے،،اور امام مالک کے نزدیک 2 عورتوں کی گواھی سے بھی ثابت ھو جاتی ھے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک وھی نصاب ھے سورہ بقرہ والا،2 مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں،،اور یہ یاد رکھیں کہ یہ ساری باتیں نبیﷺ کو یاد کروائی جا رھی ھیں کہ سرکارﷺ عورتیں تو بھولتی ھی بھولتی تھیں آپ بھی بھول گئے کہ بقرہ میں کیا نصاب شہادت ھے !
آگے چلئے ابھی بعد والے نائب امام کیا کرتے ھیں وہ بھی دیکھ لیجئے،،علامہ شبیر احمد عثمانی شیخ خیر الدین رملی صاحب کے حوالے سے لکھتے ھیں کہ البحر الرائق کے حاشیئے پر انہوں نے لکھا ھے کہ ایک عورت کی گواھی دیانتاً قبول ھے،قضاءً قبول نہیں،،یعنی نبیﷺ میں دو حیثیتیں مجتمع تھیں،،مفتی والی اور قاضی یا جج والی،،حضورﷺ نے یہ فتوی دیا تھا،، قاضی والا فیصلہ نہیں تھا(میں کہتا ھوں کعب بن اشرف کو مروانے کا فیصلہ چیف جسٹسﷺ کا تھا،،مولوی کا فتوی نہیں تھا،جس کو بنیاد بنا
کر ھر مولوی بندے مروا رھا ھے) گویا اب فیصلے کی جان نکالنے کے لئے مختلف دائیاں بلائی جا رھی ھیں،،مگر بات کہاں جا کر رکے گی ذرا دلچسپ صورتحال ھے ،، اگرچہ نبیﷺ نے کوئی تحقیق نہیں فرمائی کہ کتنا پلایا تھا اور کیسے پلایا تھا،، مگر !!
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث لائے ھیں ،مسلم شریف سے کہ قرآن میں اللہ نے نازل فرمایا تھا کہ”عشر رضعات معلومات یحرمن” دس چُوسے مسلسل حرمت کو ثابت کرتے ھیں،، پھر بعد میں تبدیل ھو کہ نازل ھوا کہ ” پانچ مسلسل چُوسے حرمت کو ثابت کرتے ھیں اور جب نبیﷺ کا وصال ھوا تو ھم پانچ چُوسے ھی قرآن میں پڑھتے تھے،،،
اب میری اھلِ سنت والجماعت سے گزارش ھے کہ جب نبیﷺ کے وصال کے بعد تک پانچ چُوسے کی تلاوت کی جاتی تھی تو قرآن میں سے پانچ چُوسے کون چُرا کر لے گیا؟ اب ڈھونڈ ان کو چراغِ رخِ زیبا لے کر ،، کیا وہ بھی بکری کھا گئی ھے ؟ الزام شیعوں کو دیا جاتا ھے کہ وہ پورا قران نہیں مانتے ،،ایسی حدیث امام مسلم اور دیگر اصحابِ حدیث نے شامل کیسے کر لی اپنے مجموعے میں،کہ جس نے قران کے اجماع کی چُولیں ھلا کر رکھ دیں،، اور یہ بھی لکھا ھوا ،تفسیر ابن کثیر میں تفصیل دیکھ لیں کہ ،حضرت عائشہؓ کو جسے محرم بنانا ھوتا تھا،،اسے اپنی بہن حضرت اسماء کے پاس بھیجتی تھیں کہ "پانچ چوسے ” پی کر آئے،،
پچھلے دنوں ایک سعودی مفتی کا فتوی اسی حدیث کے مطابق جب آیا تھا کہ افس میٹ عورتیں اپنے ساتھ والوں کو اپنا یا اپنی کسی محرم کا دودھ پلائیں،،تو ساری دنیا چیخ اٹھی تھی اس کی نامعقولیت اور بے حیائی پر،، اور میں منتظر ھی رھا کہ کوئی اھلِ حدیث دفاع حدیث کا جھنڈا اٹھا کر کھڑا ھو گا کہ یہ تو مسلم شریف کی حدیث ھے،،مگر سارے سلفی دم سادھ کر بیٹھے رھے،،
دیکھنے ھم بھی گئے مگر تماشہ نہ ھوا’
گزارش ھے کہ کتابوں کے یہ سارے شریف مجموعے اتنے بھی شریف نہیں ھیں کہ قران کو منسوخ کر سکیں،اور مشکوک بنا سکیں،، ان میں سے وہ سب کچھ نظرثانی اور قران پر پیش کر کے نکالے جانے کے قابل ھے،جس نے اسلام کو چوں چوں کا مربع بنا کر رکھ دیا ھے