جادو کی حقیقت !
یہ روایت بخاری شریف سمیت ساری حدیث کی کتابوں میں آئی ھے،، اور راوی سارے ثقہ ھیں،، روایت کے لحاظ سے اس پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی ،مگر اس پر کچھ سوال وارد ھوتے ھیں جن کا جواب تو کوئی دیتا نہیں، مگر راویوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش ضرور کی جاتی ھے ! ایک تھے ھشام ابن عروہ ابن زبیرؓ،، جنہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام میں عراق میں جا کر اس حدیث کو140ھ میں بیان کیا،، ان کے ماضی کی اتھارٹی پر امام بخاری نے اس حدیث کو لے لیا،،اور ان کی آخری کیفیت کو نہیں دیکھا،،جب کہ وہ سٹھیا گئے تھے – اب امام بخاریؒ کے بعد تو پھر دوسرے محدثین ان کی روایت پر ٹوٹ پڑے،جب کہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے جو براہ راست ان کے شاگرد تھے ان دونوں نے ان سے جادو کی حدیث نہیں لی،، بلکہ امام مالک نے تو صاف کہہ دیا کہ ھشام کی عراقی روایات سے بُو آتی ھے،، امام ابو حنیفہ کے اصولِ حدیث میں یہ بات طے شدہ ھے اور امام ابوحنیفہ کا حدیث لینے کے معاملے میں رویہ تمام ائمہ سے زیادہ سخت اور لاجیکل ھے،، آپ فرماتے ھیں کہ جو واقعہ عقلاً اپنے وقوع پر بہت سارے افراد کا مطالبہ کرتا ھے،، اس کو کوئی ایک آدھ بندہ روایت کرے تو وہ حدیث مشکوک ھو گی،، اب آپ غور فرمایئے کہ ںبیﷺ پر جادو ھوا،، 6 ماہ رھا،،بعض روایات میں ایک سال رھا،، اور کیفیت یہ بیان کی گئی ھے کہ ،،کان یدورُ و یدورُ لا یدری ما اصابہ او ما بہ،، آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپﷺ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو ھوا کیا ھے،، بعض دفعہ آپ اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے ھوتے مگر آپ کو خیال ھوتا کہ آپ گئے تھے،، اور بعض دفعہ دیگر معاملات میں بھی اس قسم کا مغالطہ لگا،، اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اس وقت نبیﷺ کی 9 بیویوں تھیں،، اگر یہ معاملہ اس حد تک خراب تھا تو یہ سب بیویوں کی طرف سے آنا چاھئے تھے،، جب کہ یہ صرف ایک بیوی حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب ھے،، اگر یہ واقعہ ایسے ھی تھا تو عقل کہتی ھے کہ حضرت عائشہؓ کو سب سے پہلے اپنے والد کو خبردار کرنا چاھیئے تھا کہ آپ کے خلیل کے ساتھ یہ ھو گیا ھے،یوں یہ تمام صحابہ میں مشہور ھو جانا چاھئے تھا،،نبی ﷺ پر جادو قیامت تھی کوئی معمولی زکام کا واقعہ نہیں تھا،، نبوت اور وحی داؤ پر لگی ھوئی تھی،،مگر یہ نہیں ھوا، خیر حضرت عائشہؓ کو دوسرے نمبر پر اپنی سوکنوں کے ساتھ اس کو شیئر کرنا چاھئے تھا اور ان سے بھی تصدیق کرنی تھی کہ کیا ان کو بھی نبیﷺ کی ذات میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر آئی ھے،، وہ بھی نہیں ھوا ، حضرت عائشہؓ نے ذکر بھی کیا تو صرف ایک بندے سے یعنی اپنے بھانجے عروہ سے،، عروہ نے بھی اسے چھپائے رکھا اور کسی سے ذکر نہیں کیا سوائے اپنے ایک بیٹے کے،، وہ بیٹا بھی اسے 70 سال سینے سے لگائے رھا اور جب حضرت عائشہؓ سمیت کوئی صحابی اس کی تصدیق کرنے والا نہ رھا تو 90 سال کی عمر میں عراق جا کر یہ واقعہ بیان کیا،، اور مدینے والوں کو عراق سے خبر آئی کہ نبیﷺ پر جادو بھی ھوا تھا،،اب اس پر میں اپنی زبان میں تو کچھ نہیں کہتا مگرفقہ حنفی کے امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی احکام القرآن میں اس پر جو تبصرہ کیا ھے اسی پر کفایت کرتا ھوں ” کہ اس حدیث کو زندیقوں نے گھڑا ھے،، اللہ انہیں قتل کرے،، نبیﷺ پر ایمان اور اس حدیث پر یقین ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے،، اگر آپﷺ پر جادو ھو گیا ھے تو پھر نبوت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور اگر نبی تھے تو پھر جادو کا امکان تک نہیں” افسوس یہ ھے کہ امام ابوحنیفہ کے اس حدیث کو مسترد کر دینے اور امام ابوبکر الجصاص کے انکار کے باوجود ،ماشاء اللہ احناف ھی اسے اولمپک کی مشعلکی طرح لئے دوڑ رھے ھیں ،کیونکہ اس سے ان کی روٹیاں جُڑی ھیں،، یہ کالے کے مقابلے میں چٹا جادو کر کے کماتے ھیں،، اور یوں کالے اور چٹے جادو کے تال میل سے جادو کی سائیکل کے یہ دو پیڈل چل رھے ھیں،، یہ ایک بہت بڑا سوال ھے کہ شرک کے یہ اڈے جو زیادہ تر زندیقوں کے قبضے میں ھیں،، عیسائی جادوگر اور شیعہ عامل اپنی دکانیں اسی حدیث اور ھمارے بزرگوں کے تعاون سے ھی چلا رھے ھیں،، جہاں نہ صرف ایمان لٹتا ھے بلکہ مال کے ساتھ عصمتیں بھی بھینٹ چڑھتی ھیں،، ھم آخر لوگوں کو کیسے روکیں اور کیسے یقین دلائیں کے اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں دے سکتا،، اس صحیح حدیث کو بھی ھم آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہیں سنا سکتے کہ ” سارے زمین والے اور سارے آسمان والے، تیرے پچھلے جو مر گئے وہ بھی جو قیامت تک آنے والے ھیں وہ بھی ملکر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاھئیں تو نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس کے جو اللہ نے رحم مادر میں تیرے مقدر میں لکھ دیا تھا،، اور اگر یہ سارے تجھے نفع دینا چاھیئں تو رائی کے دانے کے برابر نفع نہیں دے سکتے سوائے اس کے جو رحم مادر میں اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ھے،، سیاھی خشک ھو گئی ھے اور قلم روک لیا گیا ھے،،، جو اللہ اپنے رسول کی ھی حفاظت نہیں کر سکتا،، اس پر کوئی کیسے توکل کرے ؟،، وہ جوسورہ جن میں فرماتا ھے رسول کے آگے پیچھے نگران ھوتے ھیں جو اس کی حفاظت کرتے ھیں،، پتہ نہیں وہ محافظ جادو کے وقت لنچ بریک پر گئے ھوئے تھے،، بہرحال لوگ ایک جملہ کہہ کر سارے قرآن اور توکل والی احادیث پر پانی پھیر دیتے ھیں کہ
جی ” جادو تو نبیوں پر بھی ھو جاتا ھے” اور جادو تو برحق ھے،، اگر جادو برحق ھے تو پھر باطل کیا ھے ،،؟ کاش ھم ضد چھوڑ کر ایمان بالرسالت کا جائزہ لیں،کہیں یہ ویسا ھی ایمان تو نہیں ،،انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ،، رسول اللہ تو وہ بھی مانتے تھے،مگر اس رسول کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا؟ ھم نے قتل کر دیا مسیح عیسی ابن مریم اللہ کے رسول کو،،، اور ھم نے بدنام کر دیا محمد رسول اللہﷺ کو،، جادو کے غلبے کی دو صورتیں ھیں،، تیسری ممکن نہیں ! ایک یہ کہ شیاطین کے ذریعے کسی پر غلبہ پا لیا جائے،، اور جو سمجھتا ھے کہ شیطان نے نبی ﷺ پر غلبہ پا لیا تھا،، اس نے اللہ کی بھی تکذیب کی اور رسول ﷺ کی بھی ،،کیونکہ اللہ پاک کے دربار میں ابلیس نے جو باپ ھے شیاطین کا اس نے اعتراف کیا کہ ” لاُغوینھم اجمعین،، الا عبادک منھم المخلصین،، میں لازم اغوا کروں گا سب کو،، سوائے تیرے ان بندوں کے کہ جن کو تو خالص کر لے،،، اب کون سا شیطان نبی پر غلبہ پا سکتا تھا،، پھر اللہ کی تکذیب یوں کرتے اور راویوں کی پوجا کرتے ھے،،کہ اللہ پاک فرما رھا ھے کہ،، انَۜ عبادی لیس لک علیھم سلطان ،، میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا ،، اب دوسری صورت رہ گئی کسی کی قوت متخیلہ کا دوسرے کی قوت متخیلہ پر غالب آ جانا ،، یہ بھی نبیﷺ کی تکذیب اور لبید یہودی پر ایمان کے مترادف ھے،جس ھستی کا دل سوتے میں بھی رب کے ساتھ آن لائن رھتا تھا ان کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس یہودی کی قوت متخیلہ نے ھمارے نبی ﷺ کی قوت متخیلہ پر غلبہ پا کر انہیں وہ سوچنے اور کرنے پر مجبور کر دیا جو وہ چاھتا تھا،،، اور یوں سال بھر نبیﷺ لبید اعصم یہودی کے رحم و کرم پر رھے،، جب وہ چاھتا نبیﷺ کو نماز پڑھتے اٹھا کر گھر بھیج دیتا اور صحابہ منہ دیکھتے رہ جاتے،، یہانتک کہ حضرت ذوالیدینؓ نے کنڈہ بجا کر کہا کہ سرکارﷺ ھمیں تو کسی طرف لگائیں،، دو رکعت پڑھ کر اٹھ آئے ھیں،، کیا نماز کم ھو گئی ھے یا آپ بھول گئے ھیں ؟؟، آپﷺ نے غصے کے عالم میں فرمایا نہ نماز کم ھوئی ھے اور نہ میں بھولا ھوں،،مگر ذوالیدیؓن نے اصرار کیا،جس پر آپ نے دیگر صحابہ کی طرف دیکھا اور انہوں نے بھی سر ھلا کر ذوالیدیؓن کی تصدیق کی تب نبی کریمﷺ نے جا کر باقی دو رکعت پوری کیں اور سلام پھیرا،، کبھی وہ خیال ڈالتا کہ آپ جنابﷺ اپنی فلاں زوجہ سے مل آئے ھیں مگر وہ زوجہ انکار کرتیں،، الغرض یہ ھے ھمارے آج کے فوٹو اسٹیٹ احناف کا موقف اور ایمان اپنے نبیﷺ کے بارے میں،،مگر پہلے احناف ایسے نہیں تھے،کیونکہ وہ سفید جادو کی دکانیں نہیں چلاتے تھے،، ابوبکر الجصاص جو محدث تھے اور علماء احناف میں مجتہد تھے،، علامہ شاہ اسماعیل شہید نے انہیں تنویر العینین میں ان کو مجتہد لکھا ھے،، الغرض وہ احکام القرآن میں اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے لکھتے ھیں ” جو لوگ نبی پر جادو کی تصدیق کرتے ھیں بعید نہیں کہ وہ نبی کے معجزات کو بھی من قبیل السحر قرار دے دیں یا خود نبی کو ھی ساحر قرار دے دیں،، کتنی شرمناک بات ھے کہ ان لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ ان کے نبیﷺ پر جادو کر دیا گیا،یہانتک آپﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ھے،،کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا ھوتا تھا اور سمجھتا تھا کر لیا ھے،،اور کوئی بات نہیں کہی ھوتی تھی مگر سمجھتا تھا کہ میں نے کی ھے،، ۔۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ حدیثیں ملحدوں کی وضع کردہ ھیں، جو رذیلوں اور اوباشوں کو اھمیت دیتے ھیں ،، جو بتدریج اس لئے گھڑی گئی ھیں کہ انبیاء کے معجزات کو باطل قرار دیا جائے اور ان میں شبہ ڈالا جائے اور لوگوں کو اس کا قائل کیا جائے کہ جادوگری اور معجزہ ایک ھی قسم سے تعلق رکھتے ھیں،،اس قسم کی روایات بیان کرنے والوں پر تعجب ھوتا ھے کہ ایک طرف تو وہ انبیاء کی تصدیق کرتے ھیں اور معجزات کو ثابت کرتے ھیں مگر دوسری طرف وہ اس کی بھی تصدیق کرتے ھیں کہ جادوگر بھی یہ کام کر سکتا ھے،، اب نبی پر ایمان اور جادو ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے،، ” یہ ھے لہجہ امام المحدث ابو بکر جصاص کا،،منکرین حدیث کے فتوے داغنے والوں سے گزارش ھے کہ سارے فتوؤں کا رخ پھیرئیے اپنے ان اکابر کی طرف تا کہ آپ کو فتوے دینے کا کوئی مزہ بھی آئےاس روایت پر تفصیلی نظر ڈالی جائے تو پہلی بات یہ ھے کہ 140 سال تک یہ روایت سینہ بسینہ ایک فرد سے ایک فرد تک منتقل ھوتی رھی، اسے دوسرا آدمی دیکھنا نصیب نہ ھوا، 7 ھجری سے 140 ھ تک اس کا صرف ایک راوی چلتا ھے،، یہ روایت ھشام سے سوائے عراقیوں کے اور کوئی روایت نہیں کرتا،، حافظ عقیلی کے مطابق 132ھ میں ھشام سٹھیا گئے تھے، اور کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے 9 سال کی عمر میں شادی کی تھی،حالانکہ وہ ان سے 13 سال بڑی تھیں،، گویا جب وہ 9 سال کی تھیں تو ھشام کے پیدا ھونے میں بھی ابھی چار سال باقی تھے ، دماغ خراب ھونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ھو سکتا ھے،، اسی زمانے میں انہوں نے حضرت عائشہؓ کی شادی بھی چھ سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں کرائی تھی، راوی اس کے بھی سارے عراقی ھیں اور وہ بھی 140 سال سینہ بسینہ چلتی ھوئی عراق سے مدینے آئی تھی،،مدینے والوں کو نہ جادو کا پتہ تھا نہ چھ سال کی شادی کا،، امام مالک ھشام کے مشہور ترین شاگردوں میں سے ھیں مگر اس روایت کو چھوتے تک نہیں،، اوربھی کوئی مدنی محدث اس سے واقف نہیں،، اس روایت کے متن میں اتنا اضطراب ھے کہ یقین کرنا مشکل ھوتا ھے کہ یہ صحیح الدماغ آدمی کا بیان ھے،، جتنے آدمی ان سے ملتے ھیں ھر ایک کو ایک نیا آئیٹم پکڑا دیتے ھیں،، کسی میں تعویز نکالا جاتا ھے،،او
ر بالوں میں سے گرھیں کھولی جاتی ھیں،، یہ گرھیں مارنے ھی والے خوب جانتے ھیں کہ گرھیں کیسے کھولی جاتی ھیں،، ھمارا تجربہ تو یہ ھے کہ بال ٹوٹ جاتا ھے مگر اس کی گرہ کھلنی مشکل ھے،، کہیں کسی تانت میں گرہ مروائی جاتی ھے،،کہیں کہا جاتا ھے کہ نبی پاکﷺنے نکلوایا ھی نہیں تھا،،جب نکلوایا ھی نہیں تھا تو پھر گرھوں والی کہانی خود بخود جھوٹ ثابت ھو جاتی ھے،کیونکہ بخاری و مسلم تو گرھوں والی بات روایت ھی نہیں کرتے اور نہ جادو نکلوانے کی بات کرتے ھیں،، اب چونکہ سورہ فلق میں گرہ میں پھونک مارنے کا ذکر ھے،،اس لئے گرہ تو لگوانی ضروری تھی،،لہذا اگلے ایڈیشن میں جادو نکلوا کر گرھیں کھلوائیں گئیں،، مگر مکے کے ابتدائی سالوں مین نازل ھونے والی مکی معوذتین کو گرہ میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کا جملہ دیکھ کر انہیں 7 ھ کے واقعے میں جوڑا گیا،، امام ابو حنیفہ تو جادو کے قائل ھی نہیں،، ابو بکر بھی قائل نہیں،،مگر آج کے احناف اس کے ساتھ کچھ یوں چمٹ گئے ھیں گویا یہ فقہ حنفی کا ھی کوئی مسئلہ ھے،، عمل نہ کریں تو عبادات کے مسائل میں 90 ٪ بخاری پر نہ کریں تو دین کا کچھ نہیں بگڑتا،، اور عمل کرنے پہ آ جائیں تو جادو کو دین اور ایمان کا مسئلہ بنا دیں،، جو چاھے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے